طالبان کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہ دینا روس اور فورم کے دیگر ممالک کی ناراضی ظاہر کرتا ہے
افغانستان پر مشاورت کے ماسکو فارمیٹ کے 16 نومبر کو منعقد ہونے والے چوتھے اجلاس میں روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت، قازقستان، تاجکستان، کرغیزستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں شرکا نے افغانستان میں سیکورٹی کے مسائل بشمول دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے بارے میں تشویش ظاہر کی اور ملک میں امن و استحکام کے قیام کے لیے افغانستان میں قومی مفاہمتی عمل میں سہولت فراہم کرنے جیسے موضوعات پر گفتگو کی۔ اس کے علاوہ اجلاس کے ایجنڈے میں افغانستان کی فوجی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور انسانی صورتِ حال پر بحث، علاقائی سیکورٹی اور استحکام، اور بین الافغان قومی مصالحت کو فروغ دینا جیسے نکات شامل تھے۔ البتہ یہ بات حیران کن ہے کہ سابقہ اجلاسوں کے برعکس حالیہ اجلاس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا۔
روسی صدر کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے طالبان وفد کو مدعو نہ کرنے کے حوالے سے کہا ہے کہ اس اجلاس کا بنیادی کام علاقائی نقطہ نظر کو فروغ دینا ہے۔ کابل میں افغان حکام سے کہا گیا کہ وہ ایک ہمہ شمولیتی نسلی سیاسی حکومت کی تشکیل کے لیے اقدامات کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، لہٰذا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس بار ماسکو فارمیٹ کوخطے کے ممالک تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ضمیر کابلوف کا کہنا تھاکہ اس ملاقات کے بعد ہم سب کو ایک ساتھ اور انفرادی طور پر افغان حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملے گا جس کی بنیاد پر ہم اس اجلاس کے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں کوبھی بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ افغانستان سے متعلق ماسکو مشاورتی فارمیٹ کا گزشتہ اجلاس 20 اکتوبر 2021ء کو منعقد ہوا تھا جس میں نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی کی سربراہی میں طالبان کے وفد نے بھی شرکت کی تھی۔ اس موقع پر طالبان کے نائب وزیراعظم نے عالمی برادری سے کہا تھا کہ وہ طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرے، انہوں نے یہ بھی وعدہ کیا تھاکہ افغانستان سے بیرونی ممالک کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
طالبان کو حالیہ اجلاس میں مدعونہ کرنے کے حوالے سے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے ماسکو میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم طالبان کے ساتھ اپنی لائن پر کام کررہے ہیں، ہندوستانی دوست بھی اس سمت میں ضروری اقدامات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ ہم نے ابھی تک مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کیا ہے اور نہ ہی طالبان نے اپنے لوگوں کے لیے اُن ذمے داریوں کو پورا کیا ہے جن کا وعدہ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے کررکھا ہے۔ تاہم روسی وزیر خارجہ کاکہنا تھا کہ ماسکو طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ’’باقاعدہ رابطہ‘‘ برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے کسی کو تشویش یا خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشنز آن افغانستان 2017ء میں شروع کیا گیا تھا جو افغانستان پر ایک علاقائی پلیٹ فارم ہے جس میں روس، افغانستان، بھارت، ایران، چین اور پاکستان کے علاوہ قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ اس کا مینڈیٹ اُس وقت کی بین الاقوامی حمایت یافتہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی مفاہمت کو آسان بنانا، امن قائم کرنا اور علاقائی سلامتی کو یقینی بنانا تھا۔ ماسکو نے افغانستان میں اپنے قومی خدشات اور مفادات کی بنیاد پر اس عمل کی قیادت دو اہم مسائل کے پیش نظر سنبھالی تھی جس میں پہلا مسئلہ افغانستان اور وسطی ایشیا میں عدم استحکام، تشدد اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کی وجہ سے ممکنہ خطرات تھے۔ دوسرا روسی مارکیٹ میں افغان ہیروئن کی بڑھتی ہوئی آمد سے متعلق تھا۔
افغانستان کے بارے میں ماسکو میں ہونے والے اجلاس اور خاص طور پر اس کے سیکورٹی امور پر بات چیت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب حال ہی میں دارالحکومت کابل اور صوبہ ہرات میں بھی داعش کے ٹھکانوں کی موجودگی کی خبریں سامنے آئی ہیں، خود طالبان کی جانب سے ان کی ابتدائی تردید کے باوجود اعلان کیا گیا تھاکہ ان علاقوں میں داعش کے بعض ٹھکانوں کا سراغ لگایاگیا ہے، حالانکہ طالبان اس سے پہلے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کرتے آئے ہیں کہ کوئی بھی دہشت گرد گروہ افغان سرزمین پر موجود ہے۔ مبصرین کاخیال ہے کہ طالبان کو اس اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دینا کسی حد تک روس اور اس فورم کے دیگر ممالک کی ناراضی ظاہر کرتا ہے۔ طالبان کو مدعو نہ کرنے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسی فورم کے گزشتہ سال ہونے والے اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں طالبان حکمرانوں سے جو مطالبات کیے گئے تھے، ان میں سے کسی ایک مطالبے کو بھی تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
ماسکو مذاکرات میں طالبان کو حکومت میں دوسرے نسلی گروپوں کو بھی جگہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مطالبہ صرف ماسکو فورم کا نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان سے یہی مطالبہ کرتے رہے ہیں، لیکن طالبان اپنے موجودہ نظام کو وسیع البنیاد قرار دیتے ہیں اور وہ اس سیٹ اَپ میں اپنے مخالف سیاسی گروہوں کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ نے گزشتہ سال جولائی میں کابل میں ہونے والی علماء کانفرنس میں طالبان کے سوا دوسروں کے لیے اپنے نظام میں جگہ دینے کو خارج از امکان قرار دیا تھا، جس کے بعد یہ باب مستقلاً بند ہوگیا ہے، کیوں کہ طالبان کے سیٹ اَپ میں ان کے امیر کا بیان ایک حتمی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ماسکو مشاورتی فورم کے گزشتہ اجلاس کے اعلامیے میں طالبان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے طالبان ریاستی انتظام میں بہتری لائیں اور ایک حقیقی نمائندہ حکومت کی تشکیل کریں جس میں ملک کے تمام سیاسی اور علاقائی گروپ شامل ہوں۔ اس شرط کو افغانستان میں قومی مصالحتی عمل کی تکمیل کے لیے ایک بنیادی نکتہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ روس اور دیگر ممالک کی طالبان سے مایوسی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ غیر ملکی مسلح گروپوں کے خلاف اس طرح اقدامات نہیں کیے گئے جس طرح انہیں توقع تھی۔ دیگر بین الاقوامی فورمز کی طرح ماسکو مشاورتی فورم نے بھی غیر ملکی شدت پسند گروپوں کی افغانستان میں موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی سرگرمیاں پڑوسیوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ اس تناظر میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی کابل میں 31 جولائی کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت سے طالبان پر بین الاقوامی دبائو میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ طالبان کابل میں القاعدہ کے سربراہ کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہارکرتے رہے ہیں لیکن دنیا طالبان کے اس مؤقف سے متفق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ماسکو فارمیٹ میں اکثریت افغانستان کے پڑوسی ممالک کی ہے جو افغانستان کے حالات سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اس فورم کا بنیادی مقصد افغانستان میں مسائل کے حل کے لیے ایک علاقائی نقطہ نظر اپنانا ہے۔ اگرچہ طالبان نے اپنی شرکت کے بغیر ماسکو مشاورتی فورم کے اجلاس کو نامکمل قرار دیا ہے لیکن یہ طالبان کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ کیا وجہ ہے کہ علاقائی ممالک کے ایک اہم فورم میں انہیں دعوت نہیں دی گئی جس میں اکثر ممالک کے طالبان حکومت کے ساتھ اچھے مراسم اور رابطے موجود ہیں۔ اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ روس، چین اور پاکستان بین الاقوامی فورمز پر طالبان پر پابندیوں کی مخالفت اور افغانستان کے منجمد فنڈز کی بحالی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ تینوں ممالک نے 12 نومبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا جس میں طالبان حکومت بننے کے بعد افغانستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
روس کی جانب سے طالبان کو دعوت نہ دینے سے متعلق فیصلے پرطالبان وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ان کی حکومت کو دعوت نہ دینے سے رابطوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم اس معاملے پر طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان قدرے نرم تھا، جنہوں نے کہا کہ افغانستان میں حالات کی بہتری کے لیے ہونے والی کانفرنس قابلِ ستائش ہے اور ماضی میں ہونے والے اجلاسوں میں طالبان کی شرکت سے افغانستان کے حالات کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کاکہنا تھا کہ افغانستان اور ہماری حکومت کی موجودگی کے بغیر بھی ہم ان تمام اجلاسوں کا خیر مقدم اور حمایت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں علاقائی سطح پر عمومی تعاون کی ضرورت ہے۔ اگرچہ روس نے طالبان کو نہ بلا کر مایوس تو کیا ہے لیکن اسی ہفتے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کا کابل میں دفتر کھولنا کسی حد تک طالبان حکمرانوں کے لیے یقیناً خوشی کا باعث ہوگا۔ طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دفتر کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کا دفتر اُن کی حکومت اور اسلامی ممالک کے درمیان رابطے اور تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اہم قدم ہے۔
ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ماسکو اور طالبان شروع میں مشترکہ پیش رفت پر متفق نظر آتے تھے جس سے توقع تھی کہ روس سب سے پہلے انہیں تسلیم کرے گا۔ دوسری جانب ماسکو کو توقع تھی کہ طالبان دہشت گردی اور شورش کا مقابلہ کرنے میں اُس کے ساتھ غیر مشروط تعاون کریں گے۔ تاہم یہ توقعات ابھی تک دونوں طرف سے پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ اسی طرح علاقائی ممالک کے مطالبات خاص کر ایک جامع حکومت کا قیام، خواتین کے حقوق اور ان کو تعلیم کے مواقع کی فراہمی جیسے مسائل افغانستان میں ہنوز حل طلب ہیں۔ یہاں یہ سوال جواب طلب ہے کہ علاقائی سلامتی کے لیے ماسکو فارمیٹ کتنا مؤثر ہے یا یہ کتنا مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب کا انحصار یقیناً طالبان کے رویّے اور ان کے روس سمیت تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ہے۔ اگرچہ ان تمام علاقائی ممالک نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ہمہ شمولیتی افغان حکومت بنائیں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ پر عمل کریں۔ لیکن اس بات کے بھی امکانات موجود ہیں کہ روس کی قیادت میں ایک مشرقی بلاک افغانستان کے انسانی حقوق اور جامع طرزِ حکمرانی جیسے دیرینہ مطالبات سے دست بردار بھی ہوسکتا ہے۔ علاقائی ممالک کی سب سے اہم تشویش سیکورٹی کے خطرات ہیں، اور طالبان اُن کے خدشات یقینی طور پر ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کیونکہ طالبان متعدد بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ان کی طرف سے خطے کے ممالک کو سیکورٹی کے حوالے سے کسی بھی طرح کے خدشات لاحق نہیں ہونے چاہئیں۔ چونکہ سلامتی خطے کے تمام ممالک کا مشترکہ مفاد ہے، اس کے لیے ایک مربوط مذاکراتی عمل کی ضرورت ہے جس میں تمام متعلقہ ممالک شامل ہونے چاہئیں، تبھی افغانستان پر بین الاقوامی مشاورتی عمل واضح اور باہمی طور پر فائدہ مند معاہدوں اورکسی ممکنہ حتمی حل پر منتج ہوسکتا ہے۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ اگر ماسکو فارمیٹ علاقائی سلامتی سے نمٹنے کا علَم بردار اور متمنی ہے تو اسے طالبان کو اعتماد میں لے کرمشترکہ بات چیت کے لیے ایک وسیع البنیاد علاقائی پلیٹ فارم کا کردار ادا کرتے ہوئے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنا ہوگا اور تمام متعلقہ تنازعات کے حل کے لیے ایک عملی راستے کو یقینی بنانا ہوگا۔