صدر ملکت ڈاکٹر عارف علوی کی لاہور میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کی روداد
پاکستان میں سیاست اورجمہوریت سمیت ریاستی محاذ پر ایک سیاسی تعطل کا ماحول ہے۔ بداعتمادی کا یہ ماحول مختلف فریقوں کے درمیان تنائو، ٹکرائو اور الجھائو کو جنم دے رہا ہے۔ عمومی طور پر سیاسی نوعیت کے مسائل کا حل مکالمے، بات چیت اور مفاہمت سے ممکن ہوتا ہے،کیونکہ سیاست سے جڑے افراد سیاست ہی کی مدد سے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں تاکہ معاملات کو کسی بند گلی میں جانے کے بجائے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جاسکے۔ لیکن یہاں سیاسی فریق اسٹیبلشمنٹ سے تو بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر براہِ راست آپس میں مل بیٹھنے براہ راست بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ الزام تراشی اور کردارکشی کے ماحول میں سیاسی کشیدگی بھی ہے اور سیاسی اختلافات نے سیاسی دشمنی کی شکل بھی اختیار کرلی ہے۔ ایسے میں کیسے سیاسی مفاہمت یا بات چیت کا ماحول پیدا کیا جائے گا، اورکیسے قومی سیاست کو محاذ آرائی سے باہر نکالا جائے گا؟
پچھلے دنوں لاہور میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی صحافیوں کے ساتھ مکالمے کی ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ دیگر صحافیوں کے ہمراہ راقم بھی اس نشست میں شریک تھا۔ یہ نشست سوال وجواب پر مشتمل تھی جہاں کھل کر سوالات بھی ہوئے اورصدرِ مملکت نے بھی جس حد تک ممکن تھا، جوابات دیے۔ بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کیا سیاسی تعطل کے ماحول میں کوئی بڑا بریک تھرو ممکن ہوسکے گا؟ کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پس پردہ بات چیت کا حصہ تھے۔ وہ ایک ہی وقت میں اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان درمیانی راستہ نکالنے کی کوششوں کا حصہ تھے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پس پردہ مفاہمت کی کوششیں یا حکمت عملی ڈاکٹر عارف علوی کی اپنی تھی، مگر حقائق یہ ہیں کہ مفاہمت کی یہ میز اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ ہی سجائی گئی تھی، کیونکہ سیاسی تنائو اور ٹکرائو کا جو ماحول ہے اس میں خود اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی کہ سیاسی مفاہمت ہی مسئلے کا حل ہے اور اسی کو بنیاد بناکر بات کو آگے بڑھنا چاہیے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے درست کہا کہ وہ ایک غیر رسمی حکمتِ عملی کے تحت سیاسی تنائو اور کشیدگی کم کرنا چاہتے تھے، لیکن بداعتمادی کا ماحول اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ کوئی بھی فریق سیاسی لچک کے لیے تیار نہیں، جو تعطل کی اصل وجہ ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر مملکت نے پس پردہ مفاہمت کا جو راستہ نکالنے کی کوشش کی تھی وہ کارگر نہیں ہوسکی اور اب مزید مذاکرات کا دروازہ بند ہوگیا ہے۔ لیکن ہماری جو اطلاعات ہیں اُن کے مطابق پس پردہ مذاکرات کے کھیل میں مسائل موجود ہیں مگر یہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔ ایک مسئلہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنائو کا ہے، اور دوسری طرف حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان درمیانی راستے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بظاہر کوئی کسی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، مگر مختلف فریق غیر رسمی طور پر بات چیت کے عمل کا حصہ ہیں۔ اس کا اعتراف خود ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کیا کہ جو بھی بات چیت ہوئی ہے یا ہورہی ہے اس میں غیر رسمی طور پر حکومت کے اپنے اندر سے بھی کچھ لوگ شامل ہیں۔ اُن کے بقول کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر فوری طور پر کوئی حتمی رائے دینا مناسب نہیں،کیونکہ جب تک نتیجہ سامنے نہیں آتا کوئی بات حتمی طور پر کہنا میرے منصب کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی گفتگو میں خاصے محتاط تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ پس پردہ واقعی کچھ باتیں ابھی زیر بحث ہیں۔ اب ایک خبر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ملاقات کی بھی سامنے آرہی ہے جو رسمی طور پر ہوگی۔ ڈاکٹر عارف علوی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ موجودہ تعطل کو فوری عام انتخابات کی مدد سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس نکتے پر متفق ہیں کہ موجودہ سیاسی اور ریاستی بحران کو ہم کسی بھی صورت اکتوبر 2023ء تک نہیں لے جاسکتے۔ اس سے قبل انتخابات ہی ایسا نکتہ ہوگا جو سیاسی کشیدگی کو کم کرسکتا ہے۔ وہ اس پر متفق تھے کہ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ سیاست سے جڑے تمام فریق ہی موجودہ صورت حال کے ذمے دار ہیں، کیونکہ سیاسی فریق عملی طور پر سیاسی مسائل کا حل سیاسی فورم کے بجائے کسی اور فورم پر تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو درست حکمت عملی نہیں، اور اس کا فائدہ سیاسی قوتوں کو نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر عارف علوی کا یہ نکتہ بھی اہم تھا کہ مسئلے کا حل محض فوری انتخابات نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ہمیں پوری دیانت داری کے ساتھ شفافیت پر مبنی انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا،کیونکہ اگر انتخابات سے قبل انتخابات کی شفافیت پر اتفاق نہیں ہوتا اور جو انتخابی اصلاحات درکار ہیں وہ نہیں کی جاتیں تو پھر فوری انتخابات کے نتائج کو بھی متنازع بنایا جاسکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو انتخابات کا یہ عمل نئی سیاسی کشیدگی کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انتخابات سے قبل جو انتخابی اصلاحات ہونی چاہیے تھیں وہ اس حالیہ سیاسی تنائو اورٹکرائو میں کہیں گم ہوکر رہ گئی ہیں۔ ویسے بھی ہماری سیاسی روایت انتخابی نتائج کے حوالے سے کوئی اچھی نہیں۔ جو بھی انتخابات ہارتا ہے وہ انتخابی نتائج کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے جس سے انتخابی عمل متنازع بن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے بھی ہمارا انتخابی تجربہ خود اپنے اندر بے شمار مسائل رکھتا ہے جو انتخابی ساکھ کو بھی متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سیاسی تعطل کی بڑی وجہ عمران خان ہیں جو محاذ آرائی چاہتے ہیں۔ عمران خان پر بھی ضرور تنقید ہونی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد بھی واقعی مفاہمت کی سیاست چاہتا ہے؟ مولانا فضل الرحمٰن، مریم اورنگ زیب، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف سمیت مختلف بڑے نام عمران خان کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں اورکشیدگی سے بھرے الفاظ، اُن کا سر کچلنے کی باتیں یا اُن کے واجب القتل ہونے کے نعرے لگاتے ہیں اس سے کیا حکومتی عزائم واضح نہیں ہوتے کہ وہ بھی مفاہمت کے بجائے عمران خان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا چاہتی ہے؟ اس لیے مسئلہ محض عمران خان نہیں بلکہ اُن کے سیاسی مخالفین بھی ہیں جو عمران خان کے خلاف تنقید کے نام پر بہت آگے تک چلے گئے ہیں جس میں عمران خان دشمنی کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔اس لیے تنقید دونوں فریق پر ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی ماحول میں تعطل کے ذمے دار ہیں۔
اصولی طور پرسیاسی تعطل کے خاتمے کی بنیادی کنجی فریقین میں سیاسی لچک ہوتی ہے، کیونکہ مفاہمت کا عمل کبھی بھی سب کچھ حاصل کرکے نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد ’کچھ لو اورکچھ دو‘ پر ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سیاسی فریقوں کے درمیان کیسے سیاسی لچک پیدا ہو اورتمام فریق ایک دوسرے کے لیے اپنے اپنے اندر راستہ بھی پیدا کریں اورکچھ آگے بڑھنے کا راستہ بھی تلاش کریں۔کیونکہ یہ تعطل محض سیاست تک ہی محدود نہیں بلکہ اس نے مجموعی طور پر پورے ریاستی نظام کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بالخصوص جو معاشی بحران ہے وہ ختم ہونے والا نہیں۔کیونکہ سیاسی عدم استحکام میں معاشی استحکام کی منزل کو تلاش کرنا ممکن نہیںہوتا۔ سیاسی استحکام کے لیے سیاسی قیادت کو ہی ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا،کیونکہ ملک مزید اس بدحالی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہماری سیاسی قیادتیں خود بھی اپنے رویوں میں نرمی پیدا کرتیں اور اپنے سیاسی کارکنوں کو بھی پیغام دیتیں کہ مخالفین پر تنقید کرتے وقت سیاسی دشمنی کا ماحول پیدا نہ کریں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب انتخابات کا بھوت بھی سیاسی جماعتوں، قیادتوں اورکارکنوں پر سوار ہے۔ جب انتخابی میدان چند ماہ کے بعد سجنے والا ہو تو سیاسی ماحول میں ایک دوسرے کے خلاف کشیدگی کے عمل کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کیونکہ سیاسی محاذ آرائی ہی کو بنیاد بناکر ہم اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتخابی مہم کا میدان سجاتے ہیں۔ انتخابی مہم ہو یا سیاسی معاملات… وہ بغیر کسی سیاسی ایجنڈے یا حقیقی مسائل سے ہٹ کر غیر ضروری مسائل یا ذاتیات پر مبنی سیاست کے گرد گھومیں گے تو کچھ بھی بہتر نہیں ہوسکے گا۔