خالی خزانہ، سیاسی بحران

زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں

پاکستان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے یہی کہا جاتا ہے کہ 75 سال ہوچکے ہیں ہم کیوں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں؟ ان75 سالوں کی کہانی صرف تین لفظوں میں بیان کی جا سکتی ہے کہ1947ء میں برصغیر تقسیم ہوا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا، اگلے پچیس سال کے بعد پاکستان تقسیم کے عمل سے گزرا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا، اور اس کے بعد پچاس سال ہوگئے کہ ہم ملک میں سیاسی استحکام سے بھرپور قومی زندگی سے محروم ہیں، اب تک ملک میں 11بار عام انتخابات ہوچکے ہیں، لیکن کسی بھی وزیراعظم کو موقع نہیں ملا کہ وہ پارلیمنٹ کی مدت کے ساتھ اپنی وزارتِ عظمیٰ پانچ سال تک مکمل کرسکے، ملکی سیاسی تاریخ میں پاکستان مسلسل بحرانی کیفیت میں ہے۔ دولخت ہوکر بھی سنبھلا نہیں، گرنا سنبھلنا اس کا معمول بن گیا ہے۔ باقی ماندہ پاکستان اپنی امتیازی بشری صلاحیتوں سے قائم و دائم تو ہے کہ ایٹمی ملک ہے، لیکن سیاسی، اقتصادی اور انتظامی پستی کا عالم یہ ہے کہ ساڑھے سات عشروں کی تاریخ میں چار بار مارشل لا رہے، ایک ڈیڑھ عشرے کو چھوڑ کر اقتصادی وجود ڈگمگاتا رہا۔ آئین وفاقی اور جمہوری ہے بھی، اور نہیں بھی، کہ اس اسلامی جمہوریہ کا اصل حکمراں کون اور کتنا ہے؟ یہ سوال بھی بہت چبھتا ہے کہ کون کون کیسے حکمراں بن گئے جو برسوں سے اہلِ خانہ سمیت سول پارٹی آف گورننس کے اجارہ دار ہیں؟ ان75 برسوں میں اب تک یہ چوتھی پارلیمنٹ ہے جسے پانچ سال مکمل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ جس ملک میں سیاسی عدم استحکام کی یہ صورت ہووہاں کی قومی سیاسی زندگی میں استحکام اور معیشت میں بڑھوتری کیسے آسکتی ہے؟

ہم ماضیِ بعید کی بات کریں کہ آج سے پچیس سال قبل بھی ملک میں ایک سیاسی بحران تھا، اُس وقت صدر فاروق لغاری، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیراعظم نوازشریف میں ٹھنی ہوئی تھی۔ صدر لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ ایک جانب تھے اور وزیراعظم اُن کے مقابل کھڑے تھے۔ اگر ماضیِ قریب کی بات کریں تو گزشتہ سال عین انہی دنوں میں پی ڈی ایم سڑکوں پر تھی اور فوری انتخابات کا مطالبہ کررہی تھی، آج تحریک انصاف سڑکوں پر ہے اور فوری انتخابات کی تاریخ مانگ رہی ہے جس کے لیے عمران خان لاہور سے لانگ مارچ کرتے ہوئے راولپنڈی تک پہنچ رہے ہیں، ان کا دوسرا مطالبہ ہے کہ آرمی چیف کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہیے، وہ سائفر کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کرتے آئے، تاہم اب وہ آرمی چیف کی تقرری اور سائفر سمیت اپنے بہت سے مطالبات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، تاہم لانگ مارچ جاری ہے۔ اس تمام پریشان کن صورتِ حال کے باوجود اچھی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ صدر عارف علوی اپنے منصب کے تقاضوں سے ہٹ کر نجی کوشش کے ذریعے معاملات سدھارنے کی کوشش میں ہیں، اور کسی حد تک انہیں محدود کامیابی ملی، تاہم مکمل کامیاب نہیں ہوسکے۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے میڈیا اور دیگر اہم شخصیات سے بہت ملاقاتیں کیں۔ سیاسی حلقوں کا تجزیہ یہی ہے کہ موجودہ سیاسی مسئلے کا حل ممکنہ حد تک جلد اور یقینی شفاف انتخابات کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی کوشش رہی کہ پاکستان میں سیاست ہنگامہ آرائی کی نذر نہ ہو، ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہو، اور سیاسی استحکام کے لیے دوچار ماہ پہلے الیکشن کروانے میں حرج بھی کیا ہے! ان کی کوششوں کا حتمی نکتہ یہی ہے۔

بہرحال ان تمام حالات میں ملکی سیاست کا منظر نامہ نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر افہام و تفہیم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ پیش رفت ملک کے لیے نیک فال ہے۔ آرمی چیف کے منصب کے لیے جنرل ساحر شمشاد ہوں، یا جنرل عاصم منیر یا جنرل اظہر عباس… یہ تینوں فوج کی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں، پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں آرمی چیف کی تقرری گلی محلوں میں زیربحث ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ 1954ء سے پاکستان میں فوجی مداخلت کا آغاز ہوگیا جس نے تمام سیاسی،آئینی، ریاستی اور حکومتی اداروں کو مفلوج کردیا۔اس تقرری کے آئینی تقاضے ہیں، اور آئین وزیراعظم اور صدر کو کچھ اختیارات دیتا ہے، مگر صدر کے پاس وزیراعظم کی ایڈوائس واپس بھیجنے، مزیدغور کرنے کا آپشن بھی ہے۔ حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ ملک میں غیر معمولی سیاسی صورت ِحال کے باعث صدر کے اس آئینی اختیار کی وجہ سے بھی گومگو کا شکار تھی، لہٰذا حکومت نے اس ضمن میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے رابطہ کیا، وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ان سے ملاقات میں آئینی امور پر تعطل ختم کرنے کا پیغام پہنچایا اور صدرِ مملکت نے صراحت کی کہ انہیں ایڈوائس روکنے کا اختیار نہیں،آرمی چیف کی تقرری سے متعلق وزیراعظم کی ایڈوائس آئی تو اس پر عمل کریں گے۔ اس یقین دہانی کے بعدوزیراعظم ہائوس میں ہونے والی مشاورتی ملاقاتوں میں تیزی دیکھی گئی۔ اب حکومت اور اتحادی جماعتوں کی مشاورت مکمل ہوچکی ہے اور وزیراعظم کے پاس مکمل اختیار اور انہیں اتحادیوں کی حمایت میسر ہے۔ صدر کی یقین دہانی کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کو اہمیت نہ دی جائے۔حکومتی اتحادیوں میں ایک بڑا فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی اتحاد برقرار رہے گا۔ وزیراعظم کی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ نواز شریف کی ٹیلیفو ن پر مسلسل گفتگو ہوتی رہی اور حتمی فیصلہ یہی ہوا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ کسی صورت بھی سیاسی نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ تمام تھری اسٹار جنرل آرمی کی سربراہی کے مکمل اہل ہیں،تعیناتی قانون کے مطابق وزیراعظم کریں گے۔ یہ تازہ سیاسی منظرنامہ پُر سکون انداز میں معاملات حل کرنے کا باعث بناہے۔

آرمی چیف کا تقرر مستحکم جمہوری ملکوں میں معمول کی کارروائی ہوتی ہے اور طے شدہ آئینی طریق کار کے مطابق اپنے وقت پر انجام پاجاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں عسکری قیادت نے ابتدائی برسوں ہی سے جو سیاسی کردار اپنایا اور سات عشروں کے دوران کاروبارِ مملکت چلانے میں جس طرح کبھی براہِ راست اور کبھی پس پردہ رہ کر اصل فیصلہ ساز قوت کی حیثیت سے حصہ لیا اُس کی وجہ سے آرمی چیف کا تقرر قومی سیاست میں مرکزی اہمیت کا حامل چلا آرہا ہے۔ تاہم فوج نے بحیثیت ادارہ سیاسی معاملات سے مستقل طور پر لاتعلق رہنے، آئینی حدود سے تجاوز نہ کرنے، اور سیاسی قوتوں کے درمیان غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا ہے جس میں آئندہ عشروں میں ادارے کی قیادت سنبھالنے والے افسران بھی شامل ہیں۔ فوج کے اس فیصلے کا جہاں سیاسی جماعتوں نے خیرمقدم کیا اور اسے ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کی جانب اہم قدم قرار دیا، وہیں تحریک انصاف کی قیادت نے اس کے خلاف پُرزور مہم چلائی۔ آرمی چیف کے تقرر میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت کی جانب سے بھی رکاوٹ پیدا کرنے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے تھے، لیکن تازہ ترین سیاسی منظرنامے سے خدشات کے بادل چھٹ گئے ہیں، ان سطور کی اشاعت تک آرمی چیف کے لیے سمری وزارتِ دفاع سے وزیراعظم کو پہنچ چکی ہوگی۔

نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر جاری رسّاکشی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سینیارٹی کے اصول کو اپنا کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور آرمی چیف تعینات کردیا جائے، اس اصول کی پاسداری پر سب مطمئن ہوں گے اور فوج کی قیادت بھی اس پر کیوں معترض ہوگی؟

ملک میں معاشی بحران بڑھ رہا ہے اور سیلاب زدگان کی بحالی کا کام پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود ادھورا ہے۔ عالمی امداد کی اپیلوں پر 200ملین ڈالر سے بھی کم مدد مل سکی، اور مصر میں ماحولیاتی کانفرنس میں وزیر ماحولیات شیری رحمان کی نقصانات و تباہی کے ازالے کے لیے فنڈنگ کی زبردست کاوشوں کے باوجود فی الحال کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونے کی امید کم ہی ہے۔ 32ارب ڈالر کے نقصانات کے ازالے کے لیے 16ارب ڈالر کا تخمینہ اور اس کے حصول کا امکان دور دور تک نظر نہیں آرہا، اوپر سے جو 23 ارب ڈالر کی بیرونی فنڈنگ (قرض) کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اس میں اب تک بمشکل 4ارب ڈالر موصول ہوسکے ہیں، جب کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 62 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے جس میں 12ہزار ارب روپے قرض کا اضافہ پچھلے تین ماہ کے عرصے میں ہوا ہے، اور اس سال قرض کی ادائی کے لیے 4.7کھرب ارب روپے چاہئیں۔ سندھ اور بلوچستان میں غیر معمولی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی تھی، سیلاب کا حجم 120 ملین ایکڑ فٹ تھا، اس سیلاب نے 33 ملین سے زیادہ آبادی کو تباہ اور بے گھر کردیا، معیشت کو 30بلین ڈالرکے مساوی نقصان پہنچا۔ ورلڈ بینک کا تازہ ترین تخمینہ ہے کہ نقصانات 14.9 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے، کُل اقتصادی نقصانات تقریباً 15.2 بلین امریکی ڈالر تک ہوں گے، بحالی اور تعمیرنو کے لیے کم از کم 16.3بلین ڈالر درکار ہیں۔ ہائوسنگ، زراعت اور لائیو اسٹاک کو بالترتیب 5.6، 3.7 اور 3.3 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ سندھ میں دیگر علاقوں سے 70فیصد زیادہ نقصان ہوا،کئی علاقے ابھی تک زیرآب ہیں جہاں تعفن زدہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اندازہ ہے کہ سندھ میں غربت کی شرح 8.7 سے بڑھ کر 9.7 فیصد ہوسکتی ہے، جو ممکنہ طور پر 4 سے 5ملین مزید لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دے گی۔ عالمی مالیاتی اداروں سے معاشی مدد کا حصول وطنِ عزیز کو دیوالیہ پن ہونے سے بچانا ہے۔ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ سے سخت ترین شرائط پر قرض کے حصول کے لیے مذاکرات کیے اور بہت سے مواقع پر بظاہر یہ محسوس ہوا کہ یہ مذاکرات ناکام ہوجائیں گے جس کی وجہ گزشتہ دورِ ِحکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے، جب کہ اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ آئی ایف ایم پر امریکی اثر رسوح غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جمعرات کو مذاکرات کا ایک اور دور ہوا لیکن سیلاب اور درآمدی کنٹرول کے باعث پیدا شدہ معاشی دبائوکے پیش نظر قرض پروگرام کے نویں جائزے پر باضابطہ بات چیت کے شیڈول کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ حکومت آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے حصول کے علاوہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے پوری کوشش کررہی ہے جو موجودہ حالات میں ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پر خدشہ ہے کہ ہم ڈیفالٹ نہ کرجائیں اور ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔ 5کھرب کا قرض ادا کرنے کے بعد خزانہ خالی نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ ان دگرگوں معاشی حالات میں پاکستان میں مہنگائی 26 فیصد سے زیادہ ہوتی جارہی ہے، تقریباً 38 فیصد پاکستانی غربت کا شکار ہیں اور مزید 13فیصد اس کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ 11کروڑ پاکستانی یعنی ملک کی نصف آبادی بدترین افلاس کا شکار ہے، اور اس بے رحم معاشی بحران کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایک مفت خور خرچیلی ریاست اگر اپنے خرچے آدھے سے کم کرنے پر تیار نہیں ہوتی تو دھڑام سے گر سکتی ہے۔ آدھی معیشت ٹیکس دائرے سے باہر رہتی ہے تو مملکت کی گاڑی چلنے والی نہیں۔ ہر آمدنی والے کو ٹیکس میں نہیں لایا جاتا اور امراء کی تمام مراعات کو ختم نہیں کیا جاتا تو خزانہ خالی ہی رہے گا۔ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی تنخواہیں اور وظائف تین چوتھائی ختم کیے بنا چارہ نہیں۔ اُمرا کا قبضہ، مفت خوری اور عیاشی کو ختم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ اقدامات تو فقط بدتر حال سے نکلنے کے لیے اشد ضروری ہیں۔ موجودہ حکمران طبقوں میں اس کی صلاحیت نہیں، بلکہ یہی لوگ اس بحران کے ذمے دار ہیں۔ عمران خان اور موجودہ حکومت کی اتحادی جماعتیں جو مرضی دھما چوکڑی مچاتی رہیں، یہ بحران ٹلنے والا نہیں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، وہ راز جو پہلے چند سینوں میں ہی دفن ہوجایا کرتے تھے آج کل چند لمحوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی تک پہنچ جاتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ عمران خان کو اقتدار کس طرح حاصل ہوا؟ کون سی قوتیں تھیں جنھوں نے پلیٹ میں رکھ کر اقتدار عمران خان کے حوالے کیا۔ جب عمران خان حکومت قائم کرنے کے لیے عددی برتری حاصل نہ کرسکے تو کس نے اور کس طرح اُن سیاسی جماعتوں کو جو عمران خان کی سخت نظریاتی مخالف تھیں، عمران خان کا اتحادی بنایا۔ لیکن ساڑھے تین سال کے عرصے میں جب ملک سیاسی اور معاشی افراتفری کا شکار ہوگیا تو اتحادی جماعتوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑا اور ان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ یہاں سے عمران خان کا پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں سے اختلاف شروع ہوا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے وقت خان کی حکومت بچانے کے لیے مدد کیوں نہ کی گئی! اس کے بعد سے بحران کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔