مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ ایک روشن چراغ

یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے کسمپرسی کے عالم میں ویران بستیوں میں علمِ دین کی شمعیں روشن کیں

ایک ایسے وقت میں جب مسلمانانِ ہند و پاک کو بردبار، سنجیدہ اور معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے والی اور ملّی و ملکی تنازعات میں ثالثی کی صلاحیت رکھنے والی دانش مند قیادت کی ضرورت پہلے سے زیادہ تھی، کراچی سے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے کی غمناک خبر موصول ہوئی ہے۔ 1995ء میں حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی وفات کے بعد آپ کو علماء نے مفتیِ اعظم پاکستان کے باوقار منصب پر فائز کیا تھا۔

آپ کے والدِ ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کا شمار برصغیر کے چوٹی کے مفسرینِ قرآن، فقہا اور مفتیانِ کرام میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے عظیم والد کے حقیقی معنوں میں جانشین تھے۔

آپ کی ولادت مورخہ 21 جولائی 1936ء بھارت کے مردم خیز قصبے دیوبند میں ہوئی۔ ولادت پر آپ کا نام اپنے وقت کے عظیم مصلح حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے محمد رفیع رکھا تھا۔ آپ کے تینوں بھائیوں مولانا محمد ذکی کیفی، مولانا محمد ولی رازی اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مختلف دینی وعلمی میدانوں میں بڑی ناموری پائی، آخرالذکر کو تو اس وقت نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالم اسلام میں دینی و فقہی امور میں ایک اہم مرجع کی حیثیت حاصل ہے۔

آپ نے ابھی دیوبند میں حفظِ قرآن شروع کیا تھا اور نصف قرآن ہی مکمل کر پائے تھے کہ تقسیم ہند پیش آئی، اور آپ اپنے والدِ ماجد کے ساتھ مئی 1948ء میں صغر سنی ہی میں پاکستان ہجرت کرگئے۔ شاید اللہ تعالیٰ کو اس خاندان سے اس نئی بستی میں اپنے دین کی سربلندی کا عظیم کام لینا مقصود تھا۔

کبھی ہم سوچتے ہیں کہ تقسیم ہند اور پھر اس کے نتیجے میں اپنی جائے پیدائش کو چھوڑ کر نئے ملک کو آباد کرنا کتنی غیر دانشمندی کی بات تھی، لیکن جب بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جن علماء و اکابر نے اپنی زمین چھوڑی اور دیارِ غیر میں ہجرت کی تو اس میں اللہ کی کوئی بڑی حکمت پوشیدہ تھی۔ دیکھیے یہی چند افراد تھے جنہیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، جنہوں نے نئے ملک کے چپے چپے پر دینی تعلیم کے دارالعلوم اور مراکز قائم کیے، اور ارشاد و اصلاح کی مسندیں بچھادیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اُس وقت ان کے دل میں یہ بات نہ ڈالی ہوتی تو اسلام کے نام پر قائم شدہ یہ ملک شرک و بدعات کی سب سے بڑی آماج گاہ بن گیا ہوتا، اور یہاں پر صحیح دین بتانے والوں کا کال پڑ گیا ہوتا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے کسمپرسی کے عالم میں ویران بستیوں میں علمِ دین کی شمعیں روشن کیں، اور دارالعلوم اور جامعات قائم کرکے دین کی صحیح تفہیم اور پیغام و اشاعت کے لیے اپنی اپنی عمریں نچھاور کردیں۔ اگر تخمینہ لگایا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تناسب کے لحاظ سے علمائے حق کے ماننے والوں کی مملکتِ خداداد میں اکثریت نہیں ہے، بدعات اور غلط پیر پرستی کا ہر طرف غلغلہ ہے، لیکن دینی تعلیمی میدانوں پر نظر دوڑائیں تو اپنی تعداد کے تناسب سے ان کے نامور ادارے زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ ان بزرگانِ دین کی تقسیم کے ہنگامے کے زمانے میں اپنائی گئی حکمتِ عملی تھی، جس کا پھل آج کی نسلیں کھارہی ہیں۔

مفتی رفیع عثمانیؒ نے ارام باغ، باب الاسلام کراچی میں حفظِ قرآن مکمل کیا، اور حفظِ قرآن کا آخری سبق مفتیِ اعظم فلسطین شیخ امین الحسینیؒ کے ساتھ پڑھا۔ آپ 1951ء میں اپنے والدِ ماجد کے قائم کردہ دارالعلوم کراچی میں داخل ہوئے، جہاں سے آپ نے1960ء میں درس نظامی مکمل کیا۔ اسی دوران آپ نے 1958ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی اور منشی کے امتحانات پاس کیے، 1960ء میں آپ نے افتاء کا کورس مکمل کیا۔

دارالعلوم کراچی میں آپ کے اساتذہ میں مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ، مولانا اکبرعلی سہارنپوری، مولانا سبحان محمود، مولانا سلیم اللہ خان وغیرہ کا نام آتا ہے، اور جن اکابر سے آپ نے حدیث کی اجازت لی تھی ان میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، حضرت مولانا ظفر احمد تھانویؒ جیسے عظیم علماء ومحدثین شامل ہیں۔

اپنے والدِ ماجد کی سرپرستی میں آپ نے تدریس و افتاء سے وابستگی اختیار کی، اور عارف باللہ حضرت مولانا عبدالحئی عارفیؒ خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی رحلت کے بعد آپ دارالعلوم کراچی کے صدر نامزد ہوئے، اور تادم آخر اپنی اس ذمے داری کو کامیابی سے نبھاتے رہے۔

اس ذمے داری کے ساتھ آپ پاکستان علماء کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی، حکومتِ سندھ زکوٰۃ کونسل کے رکن رہے، شریعت اپیلٹ بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مشیر، اور این ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ کے رکن رہے، اور وفاق المدارس کی مجلسِ انتظامیہ کے رکن رہے۔

انتظام وانصرام سے وابستہ رہنے کے باوجود آپ نے (27) کتابیں یادگار چھوڑیں، جن میں البلاغ کراچی، اور جنگ کراچی کے مضامین کے علاوہ پراسرار بندے، احکام زکوٰۃ، عالمِ قیامت، التعلیقات النقیۃ، بیع الوفاء، اسلام میں عورت کی حکمرانی، حیات مفتی اعظم، کتابت حدیث عہدِ رسالت یا عہدِ صحابہ میں، میرے مرشد حضرت عارفیؒ، نوادر الفقہ وغیرہ شامل ہیں۔

مولانائے مرحوم کو ہمیں دو مرتبہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، پہلی مرتبہ 1995ء میں جب ابوظبی میں موتمر الفقہ الاسلامی جدہ کی کانفرنس میں دونوں بھائی مولانا مفتی محمد رفیع اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی تشریف لائے تھے، اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے القصیص میں قدیم تبلیغی مرکز میں علماء کا ایک اجتماع رکھا گیا تھا، ان حضرات کی میزبانی اُس وقت ہمارے دوست سلمان احمد صدیقی صاحب نے کی تھی، اُس وقت ان حضرات کا مستقل دو تین دن ساتھ رہا، بازار میں خریداری کے لیے جانا ہوا، جس سے محسوس ہوا کہ اپنے چھوٹے بھائی کی بہ نسبت آپ زیادہ خوش پوشاک وخوش خوراک ہیں، اللہ نے وجاہت بھی دی تھی، کلائی میں رولکس گھڑی بڑی سجتی تھی۔ دراصل ان حضرات کا ذریعہ معاش دارالعلوم کی خدمت پر منحصر نہیں تھا، ان کے بھائی مولانا محمد ذکی کیفی مرحوم نے جن کا عین جوانی میں انتقال ہوا تھا، پاکستان میں کتابوں کی اشاعت کا کاروبار کافی پھیلایا تھا۔ دیوبند، ندوۃ المصنفین دہلی وغیرہ کی کتابیں انہی حضرات کے اداروں سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ خود والدِ ماجد اور ان کی اپنی تصانیف تھیں جن کی بڑی مارکیٹ تھی۔ مفتی صاحب کو ہم نے خوش مزاج پایا۔ دوسری بار 2008ء میں پاکستان ایسوسی ایشن کی دعوت پر آپ کی تشریف آوری کے موقع پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔

ایک ایسے وقت جب کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت کا بھوت اپنا منہ پھلائے ہوئے رطب ویابس کو نگل رہا ہے، آپ جیسی شخصیات بڑی غنیمت تھیں، اپنے والدِ ماجد کی طرح یہ بھی مسلکی اور نظریاتی اختلاف رہنے کے باوجود انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے تھے، عقیدے اور نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے میں انہیں عار محسوس نہیں ہوتا تھا، بعض دفعہ مفتی صاحب کی بردبارانہ حکمت عملی کو اُن کے ہم مسلک لوگوں نے برداشت نہیں کیا، اور آپ کے خلاف غیروں نے نہیں بلکہ خود اپنوں نے زبانیں کھولیں۔ اس کے باوجود اعلیٰ مفاد کی حفاظت کے لیے آپ نے ان باتوں کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا، اور اپنی زبان کو داغ دار نہیں کیا۔

آپ کے زیر اہتمام دارالعلوم کورنگی کراچی نے بڑی ترقی کی، 1976ء میں حضرت مولانا مفتی ٘محمد شفیعؒ کی رحلت کے بعد سے نصف صدی کا طویل عرصہ اس ادارے نے آپ ہی کے زیر اہتمام گزارا۔ نہ جانے اس دوران کتنی نسلیں قال اللہ و قال الرسول کی شمعیں لے کر یہاں سے نکلیں، جن سے قیامت تک دنیا کو روشنی ملتی رہے گی، اور اِن شاء اللہ ان سے آپ کے درجات بلند ہوتے رہیں گے۔ اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ۔