تہران کی مصروفیات سے فارغ ہوئے تو ہماری اگلی منزل مشہد تھی۔ تہران اگر ایران کا سیاسی دارالحکومت ہے تو مشہد اس کی روحانی راجدہانی ہے۔ صبح کے نورانی دھندلکے میں ایک فوجی ڈکوٹا میں مشہد کے لیے روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر جہاز کے عملے نے ایک جگہ اعلان کیا کہ ہم نیشاپور کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو نگاہیں دور درختوں کے ایک جھنڈ پر پڑیں، یہ نیشاپور تھا۔ معاً خیالات کا ایک سلسلہ ذہن میں ابھر آیا۔ ناممکن تھا کہ خیام یاد نہ آتا۔ خیام کے نام سے اوّل اوّل تیس برس قبل آشنا ہوا تھا۔ استادِ محترم پروفیسر تاثیر ایک روز جب کلاس روم میں آئے تو کہنے لگے: عمر خیام کی ایک رباعی کا ترجمہ کیا ہے، سنیے
اٹھ جاگ کہ شب کے ساغر میں سورج نے وہ پتھر مارا ہے
جو مے تھی وہ سب بہہ نکلی ہے جو جام تھا پارہ پارہ ہے
مشرق کا شکاری اٹھا ہے کرنوں کی کمندیں پھینکی ہیں!
ایک پیچ میں قصرِ اسکندر اک بیچ میں قصرِ دارا ہے
رباعی سنی تو خیام سے محبت پیدا ہوگئی، لیکن اس راہ میں ابھی دوچار قدم ہی چلے ہوں گے کہ ٹھٹک کے رہ گئے۔ ’’زمیندار‘‘ میں ایک خبر پڑھی کہ سری نگر کے ایک باغ میں ہندو نوجوان کی لاش ملی ہے جس کے پاس رباعیات کا ایک نسخہ اور ایک مختصر سا رقعہ پڑا تھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا: ’’اے اہلِ دنیا، اب صبر ناممکن ہے۔ خیام سے ملنے جارہا ہوں‘‘۔ خیال آیا کہ انھی درختوں میں گھری ہوئی وہ قبر ہوگی جس پر پچھلی چھے صدیوں سے بادِ شمال کا ہر جھونکا شفتالو کے شگوفے بکھیر جاتا ہے، اور جس کے مکین کی ملاقات کے لیے ایک ہندو جوان کشمیر کے خطہ مینوسواد کو خیر باد کہہ گیا۔
لیکن نیشاپور سے ایک یاد اور بھی وابستہ ہے۔ کہتے ہیں کہ چوتھی صدی ہجری میں جب سامانی خاندان کے نصر بن احمد نے خراسان زیر کیا تو فتح مندی کا جشن نیشاپور میں رچایا۔ کھلے میدان میں خیمے ایستادہ کیے گئے۔ ایک رشکِ فلک خیمے کے نیچے تخت زرنگار بچھایا گیا جس پر جواں سال نصر آکے بیٹھا۔ سر پر مرصع تاج، پہلو میں شمشیر خارا شگاف۔
تخت پر بیٹھتے ہی حکم دیا کہ جشن کی ابتدا قرآن کریم کی تلاوت سے کی جائے۔ ہجوم میں سے ایک مردِ درویش آگے بڑھے اور انہوں نے سورہ مومن کی وہ مشہور آیت تلاوت کی جس میں حشر کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کس طرح اس روز رب ذوالجلال پکاریں گے
لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ-لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
آج کس کا دبدبہ و اختیار ہے؟ اسی بے مثال اور بے ہمتا خدائے قہار کا۔ـ
اتنا سننا تھا کہ نصر تخت سے نیچے اترا۔ سر سے تاج اتار کر زمین پر رکھ دیا اور سر بسجود ہوکے کہنے لگا: ’’مولیٰ! بادشاہی تیری ہے، میری نہیں‘‘۔
ذہن میں اس واقعے نے ایک تجسس پیدا کردیا کہ یہیں کہیں وہ گز بھر زمین ہوگی جس پر کھڑے ہوکے اس مردِ درویش نے ایک فاتح عالم کو بتلادیا کہ تیری اوقات کیا ہے۔
جی چاہا کہ وہ سلطان و درویش کہیں سے پھر لوٹ آئیں۔ لیکن پھر خیام ہی نے آہستہ سے کان میں کہا:
از جملہ رفتگان راہ دراز
باز آمدہ کیست تابما گوید راز
(مولوی محمد سعید، آہنگ بازگشت، ایک صحافی کی خودنوشت سے انتخاب)
مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔