حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک
انصاری مرد پر گزرے وہ اپنے بھائی کو سمجھا رہا تھا اتنی شرم کیوں کرتا ہے
آپؐ نے اس سے فرمایا:” جانے دے کیونکہ شرم تو ایمان میں داخل ہے“۔
(بخاری ،جلد اول کتاب ایمان نمبر:23)
’’ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پچھلے پیغمبروں کی تعلیمات سے لوگوں نے یقیناً یہ بات بھی حاصل کرلی کہ ’’جب تم شرم ہی محسوس نہ کرو تو پھر جو چاہے کرو۔‘‘
[اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
حیا ء کے معنی
حیاء کے معنی شرم کے ہیں۔ اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیاء سے مراد وہ ’’شرم‘‘ ہے جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور اپنے خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ یہ حیاء وہ قوت ہے جو انسان کو فحشاء اور منکر کا اقدام کرنے سے روکتی ہے اور اگر وہ جبلتِ حیوانی کے غلبے سے کوئی برا فعل کر گزرتا ہے تو یہی چیز اس کے دل میں چٹکیاں لیتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیاء کے اسی چھپے ہوئے مادے کو فطرتِ انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و فہم اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرتی ہے اور ایک مضبوط حاسّۂ اخلاقی بناکر اس کو نفسِ انسان میں ایک کوتوال کی حیثیت سے متعین کردیتی ہے۔‘‘
[’پردہ‘ از مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، ص: 262]
اس حدیثِ رسولؐ کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم کوئی کام کرنے کا ارادہ کرو اور وہ کام ایسا ہو کہ اس کے کرنے پر تمہیں نہ اللہ سے کوئی شرم محسوس ہو اور نہ کسی انسان سے، تو یہ کام کر گزرو۔ اور اگر تمہیں شرم محسوس ہو تو پھر یہ کام نہ کرو۔ اسلام کا سارا دارومدار اسی حدیث پر ہے۔ مذکورہ مفہوم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’جو چاہو کرو‘‘ جائز کاموں کو کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کیونکہ جو کام شریعت میں ممنوع نہ ہوگا وہ جائز ہوگا۔
کچھ لوگوں نے اس حدیث کی وضاحت یہ کی ہے کہ جب تم اللہ سے شرم اور خوف محسوس نہ کرو تو اپنے نفس کو ممنوع کام کے حوالے کردو اور جو چاہو کرتے پھرو۔ اس مفہوم میں، کام کرنے کا جو حکم ہے اس میں تنبیہ ہے نہ کہ جواز۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرح ہے جو اس نے انسان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ’’تم جو چاہو کرتے پھرو (کیا فرق پڑتا ہے) کیونکہ وہ تمہارے کرتوتوں سے بخوبی واقف ہے‘‘(فصّلت:40)۔ اور اسی طرح فعلِ امر پر مشتمل قرآن کی یہ آیت بھی ہے، جس میں اللہ نے شیطان کو چیلنج کیا:
’’اے ابلیس! تُو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس۔‘‘
(الاسراء:64)