پچھلے کالم میں ’روزمرہ‘ پر بات ہوئی تھی۔ بات سے بات نکلتی ہے تو نکلتی ہی چلی جاتی ہے۔ کفیل آزرؔ امروہوی کہتے ہیں کہ ’’بات نکلے گی تو پھر دُور تلک جائے گی‘‘۔ ایسا ہی ہوا۔ پچھلے کالم پر بات کرتے ہوئے ایک باتونی دوست نے باتوں باتوں میں یہ فرمائش کر ڈالی کہ
’’حضت! روزمرہ تو آپ نے خوب سمجھایا۔ اب ذرا بچوں کو محاوروں اور ضرب الامثال کی بابت بھی کچھ بتا دیجیے‘‘۔
بات دل کو لگی۔ سو، اُن کی بات رکھنے کو آج محاوروں اور ضرب الامثال ہی پر بات کیے لیتے ہیں کہ ان کے بغیر تو بات بنتی نہیں۔ اور بقولِ غالبؔ: ’’کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے‘‘۔
روزمرہ ہی نہیں، ہمارے محاورے اورہمارے ضرب الامثال بھی ہماری زبان کا زیور ہیں۔ زبان کی دلہن کو انھیں سے سنوارا جاتا ہے۔ ان ہیرے موتیوں سے بات کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ تحریر میں دِل کشی پیدا ہوتی ہے۔ سادہ سی بات سحر انگیز ہوجاتی ہے۔ کلام کی فصاحت بھی بڑھ جاتی ہے اور بلاغت بھی۔ فصاحت کے معنی ہیں ’واضح ہونا، ظاہر ہونا اور بالکل صاف صاف ہونا‘۔ فصاحت سے مراد ایسی خوش بیانی ہے کہ جس سے تحریر یا گفتگو میں روانی پیدا ہوجائے۔ کسی لفظ یا کسی فقرے کو پڑھتے ہوئے طبیعت میں کراہت و انقباض پیدا نہ ہو۔ جب کہ بلاغت کے معنی یہ ہیں کہ سننے والے یا پڑھنے والے تک جو بات آپ پہنچانا چاہتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک پہنچ جائے۔ سامع یا قاری کی سمجھ میں اچھی طرح آجائے۔ اُس کے دل میں اُتر جائے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کہتے ہیں:
سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں
اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں
لہٰذا روز مرہ ہو، محاورہ ہو یا ضرب المثل اور کہاوت، یہ اجزا تحریر میں چاشنی پیدا کردیتے ہیں۔ ان سے زبان رسیلی ہوجاتی ہے، کرخت نہیں رہتی۔ سننے یا پڑھنے میں لطف آنے لگتا ہے کہ ’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘۔ یا ایسی کسی تحریر کو کوئی شخص پڑھنا شروع کردے تو پڑھتا ہی چلا جائے، چھوڑنے کا جی نہ چاہے۔ پڑھتے ہوئے اُکتاہٹ بالکل نہ محسوس ہو۔
’محاورہ‘ کے لغوی معنی ہیں گفتگو کرنا یا جواب دینا۔ اگر کسی خاص علاقے کے لوگ گفتگو میں کوئی خاص انداز یا کوئی خاص طریقہ اختیار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ’یہ اس علاقے کا محاورہ ہے‘۔ مگرمحاورے کے اصطلاحی معنی اور ہیں۔ اصطلاحاً اُن کلمات کو ’محاورہ‘ کہا جاتا ہے جن کی مدد سے کوئی بھی زبان بولنے والے انوکھے اور نرالے انداز میں اپنا اظہارِ مدعا کرتے ہیں۔ ان کلمات یا ان الفاظ کے حقیقی معنی نہیں لیے جاتے۔ کچھ اور معنی ان سے وابستہ کرلیے جاتے ہیں اور ہمیشہ وہی مراد ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ ’’میں گھر پہنچا تو بچوں نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا‘‘۔ تو اُس کے سر پر نہ چڑھ جائیے کہ ’’جھوٹے! لپاڑیے! بچے بھلا اتنے بلند و بالا اور وسیع و عریض آسمان کو سر پر کیسے اُٹھا سکتے ہیں؟ جھوٹ بولو تو ایسا بولو کہ جو چل جائے‘‘۔ لکھنے کو ہم نے لکھ تو دیا، مگر ’’سر پر چڑھ جانا‘‘ بھی عملاً ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر مطلوبہ سر بالکل ہی چٹیل ہوا تو ایسی کوشش انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کسی کے کندھے پر چڑھا جا سکتا ہے۔ پھر بھی ایک حضور فیض گنجور کویہ کہتے سنا کہ ’’صاحب! میں نے اُس سے نرمی سے بات کی تو وہ تو سر پر چڑھ گیا‘‘۔ یہ سن کر، کبھی ہم اُن کو کبھی اُن کے سر کو دیکھتے تھے۔ ایک اور صاحب شیخی بگھارتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ’’اتفاق سے میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا‘‘۔ ہم حیران رہ گئے۔ بڑے بڑے قلابازوں اور کرتب دکھانے والے نٹوں کے لیے بھی ایسا تماشا دکھانا آسان نہیں۔ چین کی چست خواتین کو ورزشی کرتب دکھاتے ہوئے ہم نے سرپر پاؤں رکھتے تو دیکھا ہے مگر اس حالت میں بھاگتے اُنھیں بھی نہیں دیکھا۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ فرما لیجیے کہ محاوروں کے الفاظ نہیں بدلے جا سکتے۔ بھاگنا پڑے تو ’سر پر پاؤں‘ ہی رکھ کر بھاگنا پڑے گا۔ ’سر پر پیر‘ رکھ کر بھاگے توآپ کا بھاگنا خلافِ محاورہ ہوجائے گا۔ یہ الگ بات کہ صورتِ حال ہی کچھ ایسی ہو کہ آپ کو کہنا پڑے:’’میاں! اِس وقت تو بس بھاگنے کی فکر کرو، محاورہ بعد میں دیکھا جائے گا‘‘۔
ایک دن ایک معزز ادیب ہمارے محقق دوست ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’ارے صاحب! وہ تو کتاب کا کیڑا ہے‘‘۔ اُس وقت ہمارے ہاتھ میں 727صفحات کی ایک ضخیم کتاب تھی۔ آپا سلمیٰ یاسمین نجمی کا معرکہ آرا ناول ’’سانجھ بھئی چودیس‘‘۔ یہ ناول وادیِ پوٹھوہار کی تہذیبی، تمدنی، ثقافتی اور توہماتی تاریخ کی کہانیاں سنانے کے ساتھ ساتھ آلۂ حرب و ضرب کا کام بھی دیتا ہے۔ ہمارا جی چاہا کہ عقیل بھائی جیسے تن درست و تنومند و توانا شخص کو ’کیڑا‘ قرار دینے والے کے منہ پر یہی ناول کھینچ ماریں۔ مگر وہ معزز ادیب تھے۔ ہم خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ وہ تو کہیے کہ حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن حفظہٗ اللہ خود بھی ماہر لسانیات ہیں اور اُردو محاوروں پر عبور رکھتے ہیں، ورنہ ہمارے ’خون کے گھونٹ پی جانے‘ پر فوراً فتویٰ جاری کردیتے کہ خون حرام ہے۔ تم نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔ توبہ استغفار کرو، صدقہ خیرات دو، مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ اُس شخص کو بھی کھلا سکتے ہو جو شکل ہی سے مسکین نظر آتا ہو۔
القصہ مختصر، محاورہ زیادہ ترفعل ہی کی ایک شکل ہوتا ہے۔ مگر اس کے حقیقی معنی نہیں لیے جاتے، مجازی معنی لیے جاتے ہیں۔ مثلاً اپنے پاؤں پر آپ کلھاڑی مارنا،(کلھاڑی مار کر فارغ ہونے کے بعد)ٹامک ٹوئیاں مارنا،دن میں تارے دکھائی دینا،چادر سے باہر پاؤں پھیلانا،حاتم طائی کی قبر پر لات مارنا،رائی کا پہاڑ یا بات کا بتنگڑ بنادینا، غصہ ناک پر رکھنا،کاٹ کھانے کو دوڑنا اور ناک میں دم کر دینا وغیرہ۔
’ضرب الامثال‘ کے لفظی معنی ہیں ’مثالیں دُہرانا‘۔ قرآنِ مجید میں جہاں جہاں مثالیں دی گئی ہیں اُن میں اکثر مقامات پر ’ضَرَبَ‘ ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ کثیرالمعانی لفظ ہے۔ یہاں ہم صرف ایک معنی لے رہے ہیں۔ ’ضرب المثل‘ میں (’مثل‘ کے ’م‘ اور’ث‘ دونوں پر زبر ہے) بالعموم کوئی نہ کوئی مثال پیش کی جاتی ہے۔ ضرب المثل کی جمع ضرب الامثال ہے۔ اصطلاحاً اس سے مراد وہ اقوال، فقرے، اشعار یا مصرعے لیے جاتے ہیں جو زندگی کے کسی خاص اُصول، حقیقت یا رویّے کو مختصر الفاظ میں بیان کردیں۔ ہندی زبان میں اسی کو ’کہاوت‘ کہتے ہیں۔ ’کہاوت‘ کا مطلب ہے کہی ہوئی بات۔ اچھی بات کسی نے بھی کہی ہوئی ہو، دل کو بھا جائے تو لوگ اسے اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ عام طور پر ایسی باتیں دانش مندانہ اور حکیمانہ اقوال پر مشتمل ہوتی ہیں۔ بہت سی کہاوتیں اور ضرب الامثال ایسی ہیں جن سے حکایتیں اور قصے وابستہ ہیں۔ مثلاً چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔انگورکھٹے ہیں۔ کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا۔ بلی شیر کی خالہ ہے۔ ان سب سے قصے جڑے ہوئے ہیں۔یہ مصرع بھی ضرب المثل بنا ہوا ہے کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔ اور نظیرؔ اکبر آبادی کا یہ شعر بھی :
ہُشیار یارِ جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چُوکی اور مال دوستوں کا
کہاوتوں میں سو سُنار کی ایک لوہار کی، اونچی دُکان پھیکے پکوان اور پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں جیسی کہاوتیں ہمارے ہاں زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ ہر کہاوت یا ہر ضرب المثل کے استعمال کا ایک خاص موقع ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی حکومت کام کرکے دکھانے کے بجائے اپنی ہر نااہلی اور نالائقی کا الزام پچھلی حکومت کو دینے لگے تو ایسے موقعے پر کہا جاسکتا ہے کہ ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘۔