پروفیسر غازی علم دین اردو زبان سے محبت کرنے والے ایک دردمند محقق اور ماہرِ لسانیات ہیں۔ اردو زبان سے ان کی وابستگی غیر معمولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کے معیاری ڈھانچے کی حفاظت کرنا اور اسے مسخ کرنے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ غازی صاحب ایک عرصے سے اردو زبان کے اطلاقی پہلوؤں کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہوئے اس کی درست نحوی اور صرفی حالتوں کو واضح کررہے ہیں اور زبان کے نئے سے نئے پہلوؤں کو اجاگر اور غلط استعمالات کو سامنے لاتے جارہے ہیں۔ اصلاح زبان کی اہمیت کے پیش نظر انھوں نے روزمرہ بول چال سے لے کر اعلیٰ سطح کی تحقیق تک معاشرے میں رائج غلط طرز بیان و گفتگو کو اپنا موضوع تحقیق بنایا ہے اور خود کو اس کے لیے وقف کردیا ہے۔
اصلاحِ زبان کے حوالے سے غازی صاحب کے مقالات اور کتابیں گزشتہ سالوں میں پاکستان کے متعدد موقر اداروں سے شائع ہوچکی ہیں، جن پر پاکستان، ہندوستان، برطانیہ، ترکی اور کینیڈا کے متعدد اہل قلم نے بھرپور تنقیدی مضامین لکھے۔ ہندوستان میں غازی صاحب کی کتاب ”لسانی مطالعے“ کے بطن سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ”لسانی لغت (غازی علم الدین کےحوالے سے)“ مرتب کی۔ بعد ازاں انھوں نے ”لسانی مطالعے“ پر اردو دنیا میں شایع ہونے والے مضامین کو ”اردو: معیار اور استعمال (غازی علم دین کی کتاب ”لسانی مطالعے“ کے حوالے سے)“ کے عنوان سے مرتب کیا۔
پیش نظر کتاب ”اردو لسانیات کے عصری مباحث۔ غازی علم الدین کا لسانی زاویہ نظر: ایک عصری محاکمہ“، اردو کے ممتاز محقق اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی مرتب کردہ ہے۔ یہ کتاب دراصل غازی صاحب کی اصلاحِ زبان کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کا ثمرہ اور اس ضمن میں غازی صاحب کی کاوشوں کا ایک خوبصورت اعتراف ہے۔ بقول معروف ادیب اور صحافی ندیم صدیقی (ممبئی):
”غازی صاحب پر اپنے نام کا خوب خوب اثر ہے، انھوں نے اپنے کردار سے اس نام کی لاج ہی نہیں رکھی بلکہ اس کی حرمت کو جِلا دینے کی سعیِ بلیغ بھی کی اور نتیجتاً کامیابی ان کا مقدر بنی۔“
کتاب کا انتساب قومی زبان کے اُن قلم کاروں کے نام ہے جو عصرِ حاضر میں قومی زبان کے تقاضوں کو سمجھتے اور اُن کے مطابق اپنے قلم کو اُن کی تکمیل کے لیے وقف رکھتے اور قومی زبان کا یوں حق ادا کرتے ہیں۔
جن اہلِ قلم کے بصیرت افروز مضامین اس کتاب کی زینت ہیں ان کے نام درجِ ذیل ہیں:
پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر نجیب جمال، پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر منور عثمانی، ندیم صدیقی، ڈاکٹر رخسانہ صبا، ڈاکٹر علی محمد خان، ڈاکٹر اصغر ندیم سیّد، پروفیسر ڈاکٹر جلیل عالی، محمد اسلام نشتر، خلیل الرحمٰن چشتی، احمد حاطب صدیقی، سید ظہیر احمد گیلانی، یعقوب نظامی، پروفیسر ظفر حجازی، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، ڈاکٹر محمد اویس سرور، عبدالوہاب قاضی، ڈاکٹر مختارظفر، انجم جاوید، سردار عتیق احمد خان، حیات رضوی امروہوی، یاسمین گل، شاہد محمود وڑائچ، رئیس نذیر احمد، پروفیسر ڈاکٹر رشید ارشد۔ ان اہل علم و ادب نے نہ صرف غازی صاحب کی کاوشوں کا بھرپور تنقیدی جائزہ لیا ہے بلکہ اصلاحِ زبان و ادب پر ہونے والی گفتگو کے اس سلسلے کو مزید آگےبڑھایا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹرمعین الدین عقیل رقم طراز ہیں: ”آج کے ماحول میں جیسی کوششیں غازی علم الدین صاحب انجام دے رہے ہیں یہ سونے پہ سہاگہ ہیں، اور جو دراصل بتا رہے ہیں کہ لسانیات اور عملی لسانیات کے تقاضے کیا ہیں اور ہم اپنے اپنے طور پر بھی صحتِ زبان سے کس طرح فائدے اٹھا سکتے ہیں اور اپنی زبان کو کس کس طرح بنا سنوار کر اور اس میں صحت و عمدگی پیدا کرکے اپنے دیگر علوم میں بھی اس کے ذریعے اظہار و پیشکش کو کس طرح سائنسی بنیادوں پر استوار کرسکتے ہیں اور خیالات و علوم کو سائنٹفک معیارات سے نواز سکتے ہیں۔ اگرچہ جدید تر علم لسانیات کی جانب ہمارے اربابِ اختیار کی توجہ کبھی نہیں رہی، اور اسی لیے یہ علم ہماری جامعات کے نصابات میں شامل نہ ہوسکا جس کی وجہ سے بھی یہ قوم قومی زبان کی نعمتوں کی طرح علمِ لسانیات کے فوائد سے بھی محروم ہے۔ ایسی صورتِ حال میں غازی صاحب جیسے اکابر علم و ادب اپنی ذاتی دلچسپیوں کے سبب واقعتاً کم از کم زبان کے فوائد سے ہمیں محروم ہونے سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں، جو ایک طرح تلافی ہی کی ایک مثال ہے جس پر ساری اردو دنیا کو غازی صاحب کا شکر گزار رہنا چاہیے۔“
اردو زبان کے مردِ مجاہد پروفیسر غازی علم الدین صاحب ان دنوں سخت علیل ہیں۔ قارئین سے ان کی مکمل صحت یابی اور درازیِ عمر بالخیر کے لیے دعا کی خصوصی درخواست ہے۔