بچوں کی بیماریاں اور ماحولیاتی تبدیلی

”تو آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سب کچھ ماحولیاتی تبدیلی یعنی کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ہے! یہ جو بچے اب زیادہ کھانسنے لگے ہیں، بہت دنوں تک کھانستے رہتے ہیں! بیماریوں کی نئی نئی اقسام وغیرہ وغیرہ۔ مگر ڈاکٹر صاحب یہ سب ایک دم کیسے؟مطلب، پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔“
”چلیں ٹھیک ہے ایک ایک کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کا مطلب ہے اب ہمارے شہروں کی فضا، ہوا زیادہ آلودہ ہے۔ کیسے؟ یہ پہلے سمجھ لیں۔ شہر میں زیادہ گاڑیاں، زیادہ دھواں.. شہر میں نئے کارخانے، مزید دھواں.. بجلی کی طلب زیادہ، بجلی پیدا کرنے والے نئے کارخانے، ان سب میں ایندھن کون سا استعمال ہوتا ہے؟ گیس، پیٹرول، ڈیزل، کوئلہ.. ان سب کو فوسل فیول یعنی زمین سے حاصل کردہ ایندھن کہتے ہیں۔
یہ جب جلتا ہے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ننھے ذرات جو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتے وہ بھی فضا میں شامل ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے ہوا کی شفافیت میں فرق آرہا ہے، یعنی ائیر کوالٹی خراب ہورہی ہے۔
ہم نے تو اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ گزار لیا، اب جو بچے پیدا ہورہے ہیں یا پیدا ہونے والے ہیں اُن پر اِن تمام خرابیوں کا جو اثر ہے اس کو سمجھیں۔
حاملہ خاتون جب اس آلودہ فضا میں سانس لیتی ہے… اس میں شہروں میں جلائے جانے والے کچرے کو بھی شامل کرلیں اور دیہات میں فصلوں کو جلانے یا بھٹے سے نکلنے والے دھوئیں کو بھی… تو اُس کے نہ صرف پھیپھڑوں میں آلودہ ہوا جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھری ہوتی ہے، بلکہ آنکھ سے نظر نہ آنے والے وہ ذرات بھی جن کو PM2.5/Particulate material کہا جاتا ہے، اُس کی سانس کی نالیوں سے خون میں اور اُس کے ہونے والے بچے تک پہنچ جاتے ہیں اور بچے کے دماغ تک بھی اس کے اثرات ملے ہیں۔ یعنی جو بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا وہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ اس کی افزائش چاہے وہ پھیپھڑوں کی ہو یا دماغ کی یا اس کے امیون سسٹم (قوتِ مدافعت) کی، سب متاثر ہورہے ہیں۔ جب وہ دنیا میں آئے گا تو زیادہ مسائل کا شکار ہوگا، جس میں Autism Spectrum Disorderکے ساتھ بھی لنک محسوس ہورہا ہے جو کہ صنعتی ملکوں کے ساتھ ساتھ اب پاکستان میں بھی زیادہ رپورٹ ہورہا ہے۔ اگرچہ کہ اس مسئلے میں جینیات (Genetics) کا بڑا حصہ ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلی کے بھی اثرات ہوتے ہیں۔
اس کا یہ اثر بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بچے وقت سے پہلے پیدا ہورہے ہیں، کم وزن کے پیدا ہورہے ہیں، اور تحقیق کرنے والوں نے یہاں تک بتایا کہ نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح کا 20 فیصد اسی ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہے، کیونکہ جو بچے وقت سے پہلے پیدا ہوں گے یا کم وزن کے پیدا ہوں گے ان میں نقائص بھی ہوں گے، اور ان کی وجہ سے اموات بھی۔ بظاہر تو براہِ راست کوئی اثر نہیں، مگر غور کریں تو پیچھے وہی مسائل یعنی انسان کے ہاتھوں زمین کے نظام میں مداخلت اور اس کے اثرات ہی کارفرما نظر آئیں گے۔
اسی طرح بچے ہمارے مقابلے میں زیادہ دیر اس دنیا میں رہیں گے، وہ ہمارے مقابلے میں زیادہ مرتبہ سانس لیں گے جس کی وجہ سے زیادہ گندی ہوا کو اپنے سینے میں لے جائیں گے، زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور وہ خطرناک ذرات ان کے پھیپھڑوں میں جائیں گے۔ بچوں کے پھیپھڑے پیدائش پر مکمل نہیں ہوتے بلکہ کئی سال تک ان کے سانس لینے کے اعضاء جن کو Bronchioles کہتے ہیں، تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں اور پھر ان کا سائز بھی ایک خاص عمر تک بڑھتا ہے۔ سوچیں جب آلودہ ہوا بار بار ان کے پھیپھڑوں میں داخل ہوگی جو کہ بڑھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں تو وہ کتنا نقصان ان کے Bronchioles کو پہنچائے گی، جس کے نتیجے میں ان میں پسلی چلنے، دمہ، الرجی اور نمونیا کی شرح بڑھ رہی ہے، نئے نئے وائرس اور تبدیل شدہ وائرس ہمارے آس پاس موجو ہیں۔
یہی سوال تھا نا آپ کا کہ اب بچوں میں کھانسی، دمہ، نزلہ کیوں بڑھتا جارہا ہے؟
جلد(اسکن) کی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں اسی آلودگی کی وجہ سے۔
اسی طرح اس کلائمیٹ چینج کی وجہ سے گرمی بڑھ رہی ہے تو موسم بھی تبدیل ہورہے ہیں۔ بچوں کو موسمی تبدیلیوں اور تغیرات کا احساس کم ہے، کیونکہ وہ بڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔
زیادہ گرمی میں اگر ان کو محفوظ رکھنے کا انتظام نہ کیا جائے تو ہیٹ اسٹروک کے خدشات ہوتے ہیں۔
اسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید گرمی اور بارشوں کا زیادہ ہونا، جس کی وجہ سے سیلاب اور پھر دیر تک علاقوں میں پانی کھڑا رہنا، اور اس میں مچھروں کی افزائش جس کے نتیجے میں ڈینگی، ملیریا اور زیکا وائرس کی بھرمار، اور پھر سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا اپنے محفوظ ٹھکانوں اور گھروں سے باہر کھلے آسمان تلے یا پھر عارضی قیام کی جگہوں پر رہنا ان ہی ٹھیرے ہوئے پانیوں کے قریب جہاں مچھر موجود ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ بچ جائیں؟
شہروں میں بھی کھڑا ہوا پانی ہی ان بیماریوں کی وجہ ہے۔
صاف پانی کی کمی اور پینے کے لیے آلودہ پانی کی فراہمی، شہری علاقوں میں بارشوں کے بعد سیوریج سسٹم کی خرابی کی وجہ سے آلودہ پانی، یا پھر اُن علاقوں میں جہاں صاف پانی کی لائنیں نہیں وہاں آلودہ پانی پینے سے پیٹ کی بیماریوں کا زور، جیسے پیچش، ٹائیفائیڈ، ہیضہ، پیلیا وغیرہ… غرض آپ سوچنا شروع کریں، سمجھنا چاہیں تو معلوم ہو کہ ہمارے غیر محتاط رویوں سے کتنے مسائل آنے والی نسلوں کے لیے کھڑے ہورہے ہیں۔ ہم درخت کاٹے جارہے ہیں اور شہروں میں گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ گاڑیوں سے، شہر کے کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں اور نظر نہ آنے والے ذرات کی وجہ سے فضا آلودہ ہورہی ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی زیادتی کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کا اثر کم ہورہا ہے، زمین کے مدار میں سورج کی شعاعیں زیادہ پڑ رہی ہیں جس سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، گلیشیئر پگھل رہے ہیں، سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے، سمندر زیادہ گرم ہورہے ہیں، بارشیں زیادہ ہورہی ہیں، سیلاب، طوفان زیادہ آرہے ہیں، اور ان سب کی وجہ سے موجودہ بچے اور آنے والے بچے سب متاثر۔
کہتے ہیں کہ پانچ درخت اپنی پوری عمر میں ایک میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ۔ درخت کم ہوں گے تو کم کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہوگی،اور زیادہ نقصان ہوگا۔
نتیجہ یہ کہ بچوں میں سانس کے امراض میں اضافہ، مچھروں سے ہونے والے امراض میں اضافہ،پیٹ کی بیماریوں میں اضافہ، غذائیت کی کمی جب قحط ہو، دماغی صحت متاثر، ڈپریشن، آٹزم، پریشانی ، دل کی بیماریاں اور بلڈ پریشر وغیرہ۔ اپنے بچوں کو ان مسائل سے بچانے کے لیے آج کام کیجیے تاکہ کل محفوظ ہوسکے۔
درخت لگائیں، پھل بچوں کو ملے گا۔ “
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میںہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ اور رٹگرز یونیورسٹی کے مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے)