منگل 8 نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات کئی اعتبار سے تاریخی ہیں۔ اِس بار بھی حکمراں پارٹی کو تھوڑی بہت مشکلات تو آئیں لیکن روایت کے برخلاف وسط مدتی انتخابات میں حکمراں جماعت کا صفایا نہیں ہوا۔ گورنروں کے انتخابات میں خواتین کی کارکردگی غیر معمولی رہی، بہت سے اہم معرکے خواتین نے سر کیے اور کئی نئے سنگِ میل نصب ہوئے۔ انتخابات کے تجزیے سے پہلے اس موضوع پر چند سطور:
اس بار 36 ریاستوں میں گورنر کے انتخابات ہوئے جن میں 25 خواتین نے قسمت آزمائی کی، گویا دونوں جماعتوں میں گورنر کے عہدے کے لیے ایک تہائی پارٹی ٹکٹ خواتین نے جیت لیے۔ 15 خواتین نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ حاصل کیے جبکہ ریپبلکن پارٹی کے نام پر 10 خواتین سامنے آئیں۔ گزشتہ وسط مدتی انتخابات میں 16 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ اب تک گورنر کے لیے صرف سفید فام اور ہسپانوی نژاد خواتین کو نامزد کیا جاتا تھا، لیکن 8 نومبر کو تین سیاہ فام خواتین بھی میدان میں تھیں اور ان تینوں کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔ اتفاق سے یہ سب ہار گئیں۔
پانچ ریاستوں میں خاتون بمقابلہ خاتون تھی یعنی دونوں جماعتوں نے خواتین کو ٹکٹ دیا تھا۔ ریاست مین (Maine)، الابامہ، مشی گن، آیووا، جنوبی ڈکوٹا، کنساس (Kansas)، اوریگن اور نیو میکسیکو پر پہلے ہی سے حوا کی بیٹیاں حکمرانی فرما رہی ہیں۔ ان تمام خواتین نے نئی مدت کا انتخاب جیت لیا۔ اوریگن میں محترمہ کیٹ برائون اپنے چار سال مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوئیں تو ان کی جانشین بھی ایک عورت ہیں۔
ریاست میساچیوسٹس (Massachusetts) اور آرکنساس (Arkansas)نے 9 نومبر کو گورنری کا تاج خواتین کے سر رکھ دیا۔ ایریزونا(Arizona) میں گنتی جاری ہے لیکن یہاں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں نے خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں، یعنی صنفِ نازک کے لیے ”جیتوں تو تجھے پائوں، ہاروں تو پیا تیری“ والا معاملہ ہے۔ نیویارک میں محترمہ کیتھی ہوکل (Kathy Hochul)کامیاب ہوگئیں۔ کیتھی صاحبہ نائب گورنر تھیں لیکن جب گزشتہ سال گورنر اینڈریو کومو خواتین سے ٹھِرک اور دست درازی کے اسکینڈل کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے تو موصوفہ بقیہ مدت کے لیے بربنائے عہدہ گورنر بنادی گئیں۔ منگل کو اہلِ نیویارک نے انھیں چار سال کے لیے اپنی گورنر منتخب کرلیا۔ مختصر یہ کہ ایوان ہائے گورنر کی 26 کنجیوں کے لیے ہونے والی دوڑ میں 12 خواتین نے منزلِ مقصود حاصل کرلی۔
کچھ سماجی سنگِ میل بھی طے ہوئے۔
میساچیوسٹس کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہم جنس پرست (Lesbian) خاتون گورنر منتخب ہوئیں۔ اکیاون سالہ مورا ہیلی اپنے اس میلان کا کھل کر اعلان کرچکی ہیں۔ صنفی ترجیح کے اعتبار سے اوریگن کی سبکدوش ہونے والی 62 سالہ کیٹ برائون اور ان کی نومنتخب جانشین محترمہ ٹینا کوٹیک بھی صنفی میلان کے اعتبار سے ہم جنس پرست ہیں۔ وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کے بعد اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
امریکہ میں صدر کی مدت چار اور ایوانِ نمائندگان کی دو سال ہے، جبکہ سینیٹ کے ارکان چھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنے کے لیے سینیٹ کا نظام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر دوسال بعد ایک تہائی ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ جو انتخابات صدر کی مدت کے درمیان منعقد ہوں انھیں وسط مدتی کہا جاتا ہے۔
وسط مدتی انتخابات عام طور سے حکمراں جماعت کے لیے بڑے بھاری ہوتے ہیں۔ اوباما دورِ اقتدار میں ہونے والا 2014ء کا وسط مدتی انتخاب حکمراں صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی کو دیوالیہ کرگیا۔ سینیٹ کی 9 نشستیں چھین کر ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ بالا میں 46 کے مقابلے میں اپنی پارلیمانی قوت کو 54 کرلیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ایوانِ نمائندگان میں پیش آیا جہاں حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی سے 13 نشستیں ہتھیا لی گئیں اور 435کے ایوان میں 247 نشستیں جیت کر ریپبلکن پارٹی نے دونوں ایوانوں میں واضح برتری حاصل کرلی۔ اس کے نتیجے میں اوباما انتظامیہ عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی۔ اِن انتخابات کے بعد صدر اوباما کی لاچاری کا یہ عالم تھا کہ جب فروری 2016ء میں سپریم کورٹ کے قاضی جسٹس اسکالیا کا انتقال ہوا تو ریپبلکن پارٹی نے آنجہانی جسٹس کے جانشین کے لیے سینیٹ کا توثیقی اجلاس بلانے سے صاف انکار کردیا، حتیٰ کہ جنوری 2017ء میں اوباما حکومت کی مدت ختم ہوگئی اور صدر ٹرمپ نے جسٹس اسکیلیا کی جگہ ایک انتہائی قدامت پسند قاضی کا تقرر کیا۔ امریکہ میں وفاقی جج، فوج کے سربراہ، سفیروں، ارکانِ کابینہ اور دوسری اہم تقرریاں سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہیں۔
دورِ ٹرمپ کے وسط مدتی انتخاب میں حکمراں ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ پر اپنی گرفت برقرار رکھی، لیکن 199 کے مقابلے میں 235 نشستیں جیت کر ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوانِ نمائندگان پر قبضہ کرلیا۔ یہ انتخابات 2018ء میں ہوئے تھے۔
اِس بار بھی فضا کچھ ایسی ہی تھی۔ زبردست مہنگائی اور بڑھتی ہوئی شرح سود سے ہر گھر کے اخراجات اوسطاً 350 ڈالر ماہانہ بڑھ گئے ہیں جبکہ اجرتوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ پیٹرول اور گھر کے کرائے سے لے کر دوا اور غذا تک تمام اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔ بازارِ حصص میں شدید مندی ہے۔ پینشن کے منتظم مالیاتی ادارے سرمایہ کاری کے لیے حصص کی خریدو فروخت کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق بازارِ حصص میں لگی عمر رسیدہ امریکیوں کی جمع پونجی 35 سے 40 فیصد تک بے قدر ہوچکی ہے۔
ریپبلکن پارٹی نے مہنگائی اور اقتصادی خرابیوں کا ذمے دار صدر بائیڈن کی بائیں بازو کی طرف مائل پالیسیوں کو ٹھیرایا۔ دوسری طرف اسقاطِ حمل، خواتین کے تولیدی حقوق، صنفی مساوات اور جمہوری روایات کا تحفظ ڈیموکریٹک پارٹی کا منشور تھا۔ حال ہی میں امریکی عدالتِ عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں اسقاط کی اجازت و پابندی کا اختیار ریاستوں (صوبوں) کو سونپ دیا ہے۔ فیصلہ ہوتے ہی ریپبلکن پارٹی کے زیرانتظام ریاستوں نے اسقاط کو قابلِ سزا جرم بنادیا اور بعض ریاستوں میں یہ قوانین اتنے سخت ہیں کہ خاتون کو اسقاط کے لیے ہسپتال یا مطلب لے جانے والی ٹیکسی کا عملہ بھی شریکِ جرم سمجھا جاتا ہے۔ ریپبلکن پارٹی اسے ”حفاظتِ حیات“ یا pro-life مہم کا نام دیتی ہے۔
نوجوان خواتین کی اکثریت ”میرا جسم میری مرضی“ کی قائل ہے اور pro-choiceکے عنوان سے منظم ان خواتین کا موقف ہے کہ تولیدی حقوق میں مداخلت بنتِ حوا کے اختیار میں کٹوتی ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما ہلیری کلنٹن صنفی مساوات اور خواتین کے تولیدی اختیار کو بنیادی انسانی حق قرار دیتی ہیں۔ اسی کے ساتھ سماجی مساوات، رنگ داروں کے ساتھ بدسلوکی کے خاتمے، پولیس اصلاح، ماحولیاتی آلودگی اور تعلیم کے لیے جاری ہونے والے قرض کی جزوی معافی کو حکمراں جماعت نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا۔ رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ عوام کی اکثریت سماجی معاملات پر ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ہے، لیکن معاملہ جب یہاں آپہنچا کہ ”فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم؟“ تو بڑی اکثریت کی اولین ترجیح پیٹ نظر آئی۔
ان انتخابات میں سابق صدر ٹرمپ نے غیر معمولی دلچسپی لی بلکہ یوں کہیے کہ وسط مدتی انتخابات سے انھوں نے اپنی 2024ء کی صدارتی انتخابی مہم کا غیر اعلانیہ آغاز کردیا۔ جناب ٹرمپ نے اب تک 2020ء کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور پرائمری انتخابات کے دوران انھوں نے اپنی جماعت کے ٹکٹ کے خواہش مند اُن امیدواروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جنھوں نے گزشتہ انتخابات کو شفاف و منصفانہ قرار دیا ہے۔ امریکہ میں ریاستیں انتخابات کی نگرانی کرتی ہیں اور نتائج کی تصدیق ریاست کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ذمے داری ہے جو براہِ راست منتخب کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے جن سیکریٹری آف اسٹیٹ نے صدارتی انتخابات کے نتائج کی بلا اختلافی نوٹ تصدیق کی اُن سب کے خلاف صدر ٹرمپ نے مورچہ لگایا اوران کی اکثریت اِس بار پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوگئی۔ یہی حال گورنر، سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے پارٹی ٹکٹ کے اُن خواہش مندوں کا ہوا جو گزشتہ انتخابات کو شفاف قرار دیتے ہیں۔ ”عظمتِ رفتہ کی طرف واپسی“ کے نام سے مشہور اس مہم کا انگریزی مخفف MAGA ہے۔ اس مہم کے نتیجے میں اکثر جگہ ان کے حامی ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور سابق صدر نے کئی بُرج گرا دیے۔
دوسری جانب سماجی و اقتصادی معاملات کے ساتھ صدر بائیڈن اور سابق صدر بارک حسین اوباما نے امریکی نظامِ انتخاب کے بارے میں سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنے آخری انتخابی خطاب میں صدر بائیڈن نے زور دے کر کہا کہ شفاف انتخابی نظام امریکی جمہوریت کی بنیاد ہے، اور جڑوں پر تیشہ چلانے والے جمہوریت اور مملکت سے مخلص نہیں۔ سابق صدر اوباما نے جارجیا میں ایک بہت بڑے انتخابی جلسے میں متنبہ کیا کہ خواتین اور اقلیتوں کے غصب کیے ہوئے بنیادی حقوق بیلٹ کے ذریعے ہی واپس آسکتے ہیں لیکن انتخابی نظام کے بارے میں شک پیدا کرکے پرچہِ انتخاب کی حرمت پامال کی جارہی ہے۔ آنے والے انتخابات میں مقابلہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کا نہیں بلکہ democracy is on the ballot یعنی جمہوریت داو پر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن اور اوباما کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔
انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح رہے:
سینیٹ کی جن 20 نشستوں کا ریپبلکن کو دفاع کرنا تھا ان میں سے ایک یعنی پنسلوانیا کی نشست ڈیموکریٹک پارٹی نے چھین لی۔ ڈیموکریٹک سینیٹروں کی مدت مکمل ہونے پر جو 14 نشستیں خالی ہوئی تھیں ان سب کا حکمراں جماعت نے کامیابی سے دفاع کیا۔ نتائج کے مطابق سینیٹ کی 100 میں اسے 50 نشستیں ڈیموکریٹس کے پاس ہیں، 49 پر ریپبلکن براجمان ہیں جبکہ جارجیا کی نشست پر دوسرے مرحلے کے لیے 6 دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔
ایوانِ نمائندگان کی 435 نشستوں میں ریپبلکن پارٹی کے 211اور ڈیموکریٹک پارٹی کے 204 امیدوار کامیاب ہوئے، 20 نشستوں پر مقابلہ اتنا سخت ہے کہ حتمی نتائج میں ہفتے لگ سکتے ہیں۔
گورنروں کا مقابلہ بھی ٹکّر کا رہا۔ میساچیوسٹس کی گورنری حکمراں جماعت نے ریپبلکن سے چھینی تو نیواڈا (Nevada)کے ڈیموکریٹ گورنر کو ہراکر ریپبلکن نے معاملہ برابر کردیا۔ نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی نے گورنری کے 18 اور ریپبلکن نے 17معرکے سر کیے۔ ایک نشست پر گنتی کا اعصاب شکن مرحلہ جاری ہے۔
یہ نتائج صدر بائیڈن کے لیے بے حد حوصلہ افزا ہیں۔ انتخابات کی رات تک ماہرین اور خود صدربائیڈن کا خیال تھا کہ ایوانِ نمائندگان کے ساتھ سینیٹ بھی خطرے میں ہے، لیکن سابق صدر اوباما کی جانب سے democracy is on the ballotکا نعرہ نوجوان تعلیم یافتہ طبقے میں خاصا مؤثر رہا۔ اس رجحان کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ انتخاب پر شک کا کھلم کھلا اظہار کرنے والے ٹرمپ کے حامی 28 ریپبلکن امیدوار شکست کھاگئے، جن میں 8 سینیٹ، 12 گورنر اور 8 سیکریٹری آف اسٹیٹ کے لیے مقابلے پر اترے تھے۔ شکست سے دوچار ہونے والے مشاہیر میں سینیٹ کے لیے میساچیوسٹس سے محمد چنگیز آز، ایریزونا سے آدم لکسالٹ، گورنر کے لیے نیویارک سے لی زیلڈن، پنسلوانیا سے ڈگ
ماسٹریانو اور مشی گن سے محترمہ ٹیوڈر ڈکسن شامل ہیں۔ ان تمام افراد نے 2020ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ اور نظامِ انتخاب کو غیر شفاف کہا تھا۔ وسط مدتی انتخابات میں صدر بائیڈن کی توقع اور جائزوں سے کہیں بہتر کارکردگی کو سیاسی مبصرین نے anti-Democratic, extremist, MAGA Republicans یعنی جمہوریت دشمن، انتہاپسند ماگا ریپبلکن یا ”ٹرمپ ازم“ کی شکست قرار دیا ہے۔
………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔