زرعی زمینوں کی تباہی وبربادی

پشاور اور پورے صوبہ خیبرپختونخوا میں قانونی اور غیر قانونی ہائوسنگ اسکیموں کی بہتات

تیمرگرہ کے علاقوں خزانہ کس گھڑی، لنڈاکور، مٹہ خزانہ، ملالہ اور قلعہ گئی کے رہائشیوں اور مالکانِ اراضی نے تیمرگرہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے علاقے کی زرعی زمینوں پر یونیورسٹی کی تعمیر کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے مجوزہ یونیورسٹی زرعی اراضی کے بجائے غیر آباد زمینوں پر تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مقامی مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم اور یونیورسٹی کی تعمیر کے خلاف نہیں ہیں بلکہ یونیورسٹی کی زرعی زمین پر تعمیر کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ زمینوں پر ان کے خاندان سال ہا سال سے مختلف فصلیں کاشت کررہے ہیں جس سے ان کی گزر اوقات ہوتی ہے، اگر ان کی زرعی زمینوں پر یونیورسٹی تعمیرکی جائے گی تو اس سے ان کی زرعی زمینیں ختم ہوجائیں گی اور ان کی آمدن اور روزگار کا ایک اہم وسیلہ ختم ہوجائے گا۔ بقول ان کے: اگر حکومت یہاں پر یونیورسٹی بنانا ہی چاہتی ہے تو اس کے لیے وہ قریبی غیر آباد اور بنجر زمینیں دینے کے لیے تیار ہیں۔

اس بات میں کوئی دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ معاشرے کی ترقی کا راز تعلیم کے فروغ میں پوشیدہ ہے، اور مقامی سطح پر اگر کوئی یونیورسٹی بنتی ہے تو اس کا لامحالہ فائدہ اس علاقے کے مکینوں بالخصوص اس خطے کی نئی نسلوں کے لیے زندگی کی دوڑ میں کامیابی کی صورت میں سامنے آئے گا، لیکن اس حوالے سے اہلِ علاقہ کی اس بات میں خاصا وزن نظر آتا ہے کہ ایساکوئی منصوبہ ان کی زرعی زمینوں پر روبہ عمل نہیں آنا چاہیے بلکہ اس مقصد کے لیے وہ قریبی غیر زرعی زمین دینے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے بھی ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کے مقولے کے مطابق کسی قوم یا علاقے کے افراد زیورِ تعلیم سے تب ہی آراستہ ہوسکیں گے جب ان کی جان میں جان ہوگی، اور جان کا تعلق چونکہ خوراک سے ہے اس لیے اگر کوئی بھی عمارت بغیرکسی مناسب منصوبہ بندی کے غیر زرعی اور بنجر زمین کے بجائے آباد اور زرخیز زرعی زمین پر تعمیرکی جائے گی تو اس کا نقصان جہاں زمین کے مالکان اور کاشت کاروں کو اس زرعی زمین پر پیدا ہونے والی زرعی اجناس کی کمی یا مکمل خاتمے کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا وہاں اس کمی اور نقصان کا خسارہ پورے علاقے اور خطے کوبھی زرعی اجناس کی نایابی کی صورت میں بھگتنا ہوگا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک کام کی تکمیل اور ایک مقصد کے حصول کی خاطر بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات ایسے فیصلے کر بیٹھتے ہیں جس کا نتیجہ کچھ وقت بعد شدید نقصان اور پشیمانی کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہترین اور برموقع مثال ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے راتوں رات ہزاروں کی تعداد میں بننے والی ہائوسنگ اسکیمیں ہیں۔ پچھلے پندرہ بیس سال کے دوران اس سیکٹر میں راتوں رات امیر بننے کے چکر میں بے دریغ سرمایہ کاری ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہماری زرعی زمینیں،کھلے میدان، جنگلات اور کھیت کھلیان مسلسل سکڑ رہے ہیں۔ یہ ہائوسنگ اسکیمیں چونکہ زیادہ تر زرعی زمینوں پر بنائی گئی ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس لیے اگر ان ہائوسنگ اسکیموں کی یہی رفتار رہی تو تھوڑے عرصے بعد شاید ہمیں کاشت کاری اور زراعت کے لیے ڈھونڈے سے بھی زرعی زمین نہیں ملے گی۔ صوبے کے کے دیگر علاقوں سے قطع نظر اگر اس حوالے سے صرف پشاور ہی کا جائزہ لیا جائے تو اس تلخ حقیقت کو ہمارے سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی کہ پشاور جو کبھی اپنی زراعت اور زرعی پیداوار کے لحاظ سے مثالی حیثیت رکھتا تھا، آج ہائوسنگ اسکیموں، صنعتی یونٹوں، نت نئی آبادیوں اور تعمیر وترقی کے نام پر کنکریٹ اور مصنوعی آبادی کا منظر پیش کررہا ہے۔ پشاور کبھی گندم، کپاس، مکئی،گنے، سبزیوں اور مختلف پھلوں کے باغات کے لیے اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا، آج آنکھیں ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں۔ پشاور اسلام آباد موٹر وے پر پشاور کی حدود میں داخلے پر سڑک کے دونوں کناروں پر لگے بل بورڈز جن پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ یہ علاقہ ملک بھر میں آلوچے اور ناشپاتی کی پیداوار کے لیے بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے، آج ان علاقوں میں ہمیں نت نئی ہائوسنگ اسکیموں کی کثرت توملتی ہے لیکن یہ باغات اب کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ یہ زرعی زمینیں اور باغات پشاور شہر کے چاروں اطراف کے مضافاتی دیہات میں موجود تھے لیکن آج ان چاروں سمتوں سے پشاور میں داخل ہوتے ہی ہمیں زرعی زمینوں، فصلوں اور باغات کے بجائے مختلف ہائوسنگ اسکیموں کے سائن بورڈز، زرعی زمینوں کو چیرتی ہوئی سڑکیں اور ان کی چاردیواریاں ملتی ہیں۔ کوہاٹ روڈ، چارسدہ روڈ، ناصر باغ روڈ، ورسک روڈ، جی ٹی روڈ… الغرض آپ کسی بھی سمت کسی بھی شاہراہ پر نکل جائیں، وہاں آپ کو فصلوں اور باغات کی جگہ طرح طرح کی ہائوسنگ اسکیمیں ملیں گی۔

ایک معصومانہ سوال یہ ہے کہ اِس وقت پشاور اور سارے صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں لاکھوں پلاٹوں پر مشتمل جو قانونی اور غیر قانونی ہائوسنگ اسکیمیں ہمیں نظر آتی ہیں کیا کسی نے کبھی یہ حساب کتاب لگانے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ آیا یہ اتنی بے تحاشا اسکیمیں رہائش کے لیے ہماری ضرورت ہیں بھی یا یہ محض کالے دھن کو سفید کرنے اور رشوت وکرپشن کی لوٹی ہوئی ناجائز دولت کو محفوظ کرنے کا ایک آسان نسخہ اور شریفانہ شارٹ کٹ ہے! کم از کم پشاور کی حد تک تو میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں وجود میں آنے والی چھوٹی بڑی اکثر ہائوسنگ اسکیمیں زرعی زمینوں پربنائی گئی ہیں جس کے تدارک اور روک تھام کے لیے ہمارے پاس کوئی خاطر خواہ میکنزم نہیں ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ وہ لوگ جوکبھی اپنی زرعی زمینوں کو ماں کے برابر درجہ دے کر ان کی خرید وفروخت کو گناہ سمجھتے تھے، آج وہ بھی راتوں رات امیر بننے کے چکر میں اپنی زمینوں پر پلاٹنگ کرکے زرعی پیداوار کی کمی میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ یہ اسی ناقص اور خودغرضانہ طرزعمل کا نتیجہ ہے کہ ہم جو کبھی غلے اور اناج میں خودکفیل ہوا کرتے تھے آج دانے دانے کو ترستے ہوئے کبھی ایک در پر اور کبھی دوسرے در پر بھیک مانگنے کے لیے دستک دے رہے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم جس علاقے سفید ڈھیری میں پلے بڑھے ہیں وہاں کی زرعی زمینیں دریائے باڑہ کے پانی سے سیراب ہواکرتی تھیں، یہ پانی مختلف کھالوں اور نالوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے باڑہ کے نشیبی علاقوں شیخ محمدی، سنگو لنڈے، سربند اور پشتخرہ بالا سے ہوتا ہوا ہمارے گائوں میں پہنچ کر وہاں سے یونیورسٹی ٹائون، پائوکہ اور آبدرہ کے راستے تہکال تک کے علاقوں کو سیراب کرتا تھا۔ اس پانی کو بڑے شوق سے پینے اور نہانے دھونے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ وہ مناظر اب بھی ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں جب شام ڈھلتے ہی گائوں کی خواتین مٹکے اپنے سروں پر اٹھاکر اور بغل میں داب کر قریبی ندی نالوں سے پانی بھرنے کے لیے ٹولیوں کی شکل میں گھروں سے نکلتی تھیں۔ اس بہانے گائوں کی خواتین کی جہاں چھوٹی موٹی آئوٹنگ ہوجایا کرتی تھی وہاں انہیں راہ چلتے ہوئے اور گودر پر پانی بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی بپتا سناکر اپنی دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب نہ تو آبادیاں اتنے بے ہنگم طور پر پھیلی ہوئی تھیں اور نہ ہی ابھی ٹیلی وژن، ٹیلی فون، موبائل اور انٹرنیٹ اتنے عام ہوئے تھے کہ اب جن سے فرصت کے لمحات نکالنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اب تو ہماری سستی و کاہلی، اخلاقی پستی اور خودغرضی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں اپنے گھروں کے فلش ان ہی متذکرہ صاف پانی کے نالوں میں شامل کرنے پر بھی کوئی شرم نہیں آتی، اور نہ ہی اب اس عمل کوکوئی برا سمجھتا ہے۔ سڑکیں اور نئی نئی بستیاں زندگی کی ضرورت ہیں، لیکن یہ ضروریات زرعی زمینوں کی بربادی کی قیمت پر پوری نہیں ہونی چاہئیں۔ رنگ روڈ بلاشبہ وقت کی ضرورت تھی لیکن اس کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے ساتھ جوسلوک کیا گیا ہے وہ اس کے فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنا ہے ۔ رنگ روڈ کو اگر محض ٹریفک کے متبادل نظام کے طور پر لاگوکرکے اس کے اردگرد قیمتی زرعی زمینوں کو جنگلے لگاکر یا کسی بھی طرح، حتیٰ کہ قانون سازی کے ذریعے ضائع ہونے سے محفوظ بنایا جاتا تو اس کا زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کے بجائے فائدہ ہوتا، لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ رنگ روڈ کے آرپار ہمیں کئی کئی میل تک زرعی زمینیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں، بلکہ ان کی جگہ بھانت بھانت کی ہائوسنگ اسکیمیں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ اسی رنگ روڈ کے اردگرد واقع زرعی زمینوں پرکبھی لوگ سائبیریا اور وسطی ایشیا سے غول درغول آنے والے جنگلی پرندوں کا شکار کیاکرتے تھے، لیکن اب نہ تو ہمیں وہ پرندے نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ شکاری اور شکار گاہیں دیکھنے کوملتی ہیں جوکبھی شکاریوں کی دلچسپیوں کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ حسرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ افراتفری اور بدانتظامی حکومتی اداروں اور منتخب نمائندوں کی آنکھوں کے سامنے اور ان کی ناکوں کے نیچے ہورہی ہے، اور بدقسمتی سے کسی بھی سطح پر اس پریشان کن صورت حال کی روک تھام اور اصلاحِ احوال کے لیے نہ تو کوئی آواز اٹھتی ہوئی نظر آرہی ہے اور نہ ہی کوئی قدم اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، لہٰذا اس بحث کے پس منظر میں اگر تیمرگرہ کے مضافاتی علاقوں کے مکینوں نے اپنی قیمتی زرعی زمینوں کو بچانے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے آواز اٹھائی ہے تو اگر ایک طرف وہ اس کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں تو دوسری جانب توقع ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارے بھی زرعی زمینوں کے غیر حقیقت پسندانہ بنیادوں پر ہائوسنگ اور دیگر ترقیاتی اسکیموں میں ڈھلنے کے اس اہم ترین مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس کی اصلاح احوال میں اپنا کردار ادا کریں گے۔