پاکستان کی سیاست اس وقت دو اہم ایشوز کے گرد گھوم رہی ہے، ایک ایشو یہ ہے کہ نیا آرمی چیف کون ہو گا، اور دوسرا ایشو یہ ہے کہ آئندہ کے لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کس سیاسی جماعت یا جماعتوں کو حاصل ہوگی؟نیا آرمی چیف تنازعات سے پاک ہوگا۔ تحریک انصاف نے نئے آنے والے آرمی چیف کو متنازع نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوازشریف نے سینیارٹی کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیاہے۔ نوازشریف نے وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ لندن میں اپنی حالیہ ملاقاتوں میں انہیں اپنی رائے سے آگاہ کردیا ہے۔ وزیراعظم اہم وجوہات کی بناء پر ہی لندن گئے تھے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک محمد احمد خان، یہی اہم کردار ہیں،جن کو خصوصی طور پر مشاورت کے لیے لندن بلایا گیا تھا، کیونکہ دونوں کی ہی پاکستان میں ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ تحریک انصاف نے حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات اور بات چیت کے لیے شرائط طے کردیں، پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چودھری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں توڑنے کی تجویز پر واضح کیا کہ اگر ہم پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑتے ہیں تو ایک ایسا معاہدہ ہونا چاہیے جس کے ذریعے الیکشن کمیشن بدلا جائے اور سندھ اسمبلی بھی تحلیل ہونی چاہیے۔ تاہم کسی کو فکر نہیں کہ پاکستان کے عوام کس حال میں ہیں، انہیں ہر لمحہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیلاب تنکے کی مانند بہا لے جارہا ہے۔ کسی کو اس بات کی بھی فکر نہیں ہے کہ اس خطہ اور عالمی سیاست میں جس طرح نئی صف بندی ہورہی ہے اس میں اسلام آباد کہاں کھڑا ہے؟ داخلی کشمکش ہمیں کس گرداب اور سیاسی بھنور میں پھنسا رہی ہے؟
تازہ ترین صورتِ حال پر یہی تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ ملکی سیاسی قوتوں اوراسٹیبلشمنٹ دونوں کے پاس عوام کے لیے کسی ریلیف اور ملکی معیشت کی بہتری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ترجیح نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی طلب گار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ عام انتخابات تک اپنے کارڈز اوپن نہیں کرے گی، چاہے آرمی چیف کا تقرر بھی ہو جائے۔ سیاسی جماعتوں سے کہا جارہا ہے کہ مل کر سیاسی استحکام اور میثاقِ معیشت کو حتمی شکل دیں۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی قومی سطح پر چار سال سے جاری سنگین کشیدگی کو ختم یا کم کرنے کے لیے پچھلے کچھ عرصے سے کوشاں نظر آرہے ہیں، لیکن اپنے تازہ ترین اظہارِ خیال میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی کوششیں بارآور نہیں ہوسکی ہیں۔ جس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ انہوں نے سربراہِ ریاست کی حیثیت سے اپنے مصالحتی کردار کا آغاز وقت گزر جانے کے بعد کیا ہے۔انتخابات کے جلد انعقاد کی کوشش میں صدر کے اعتراف ِناکامی کے بعد اب مستقبل کا یہ نقشہ واضح ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت اپنے اعلانات کے مطابق آئینی مدت کی تکمیل پر ہی انتخابات کرائے گی۔ ملک میں 1964ء کے صدارتی انتخاب کے بعد سے آج تک 58 سال گزر گئے ہیں، ہمارا سیاسی نظام دھونس اور سیاسی مکر و فریب سے باہر نہیں نکل سکا۔ 75 سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کوئی مربوط پروگرام نہیں کہ ملک کی معیشت کو کیسے مستحکم کیا جائے، بھارت کے پنجے سے کشمیر کیسے آزاد کرایا جائے، خارجہ پالیسی کیسی ہونی چاہیے، اندرونی سلامتی کے لیے ملک میں رواداری اور ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے، کرپشن ختم کرنے کے لیے زبانی جمع خرچ کے بجائے منظم کوشش کیسے کی جائے؟ ہم یہ بھی فیصلہ نہیںکرپائے کہ ملک کی آبادی 22کروڑ ہے یا زیادہ؟ غربت کی لکیر سے نیچے کتنے عوام ہیں، انہیں کیسے اوپر لایا جائے اور ملک میں مافیائوں کا راج کیسے ختم ہو؟ ایک حکومت آتی ہے، وہ معیشت، زراعت، ٹیکنالوجی میں بہتری کے فیصلے کرتی ہے، اگلی حکومت آکر ان فیصلوں پر سیاہی پھیر دیتی ہے، اور سمجھتی ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا مؤقف ہے کہ ’’ریاست بچانے کے لیے حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ کیا ورنہ پاکستان سنگاپور کے بجائے سری لنکا بن جاتا، ڈالر کو 200 روپے سے کم کرنے کی کوشش ہے، ڈالر کو آزاد چھوڑ کر ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا گیا، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملکی قرضے میں 4 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، پیٹرولیم کی قیمتوں کو کنٹرول اور معاشی اصلاحات پر عمل کررہے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام پورا کریں گے، موجودہ سال 32 سے 34 ارب ڈالر کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ ہے وہ ملکی صورتِ حال جس میں لانگ مارچ جاری ہے، اور دوسری جانب صدر عارف علوی ہیں جو اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’’کوشش کی کہ مذاکرات ہوں اور انتخابات کا راستہ نکل آئے، لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے، انتخابات کا بھی کوئی حل نہیں نکلا، جلد الیکشن ہوجائیں تو بہتر ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر عارف علوی اور اسحاق ڈار الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ ایک پیج پر نظر آرہے ہیں مگر دونوں بے بس بھی ہیں۔ صدر عارف علوی تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بٹھا کر اختلافات کا حل نکالنے کی کوشش میں ہیں، وہ یہ کام ذاتی حیثیت میں کررہے ہیں تاکہ متفقہ طور پر اگلے انتخابات کی تاریخ طے ہوجائے جو آزادانہ، شفاف اور غیرجانب دارانہ ہوں، اس سے امید ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کا خیال ہے کہ انتخابات میں شفافیت کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال پر مذاکرات کا بھی سوچنا چاہیے۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں میں ایسے خودسر سیاسی چہرے ہیں جنہیں’’ نامعلوم‘‘ لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ مسلم لیگ(ن) میں اس کردار کا اصل چہرہ حالیہ سیاسی افراتفری کی دھول بیٹھ جانے کے بعد سامنے آئے گا، اہم تعیناتی کے بعد پورے کا پورا منظرنامہ بدل جائے گا۔ اسی نامعلوم کردارکو تسلی دی گئی کہ آپ کی حکومت کو کسی سطح پرکمزور نہیں کیا جائے گا بلکہ کشتیوں کو جلا کر آپ کی مدد کی جائے گی تو اعتماد بھی بحال ہوا ہے۔
ملکی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ ہماری زیادہ تر سیاسی زندگی محاذ آرائی سے عبارت رہی، تاہم بالغ نظر اور معاملہ فہم رہنما بگڑے ہوئے حالات میں بات چیت اور مفاہمت کے دریچے کھولتے رہے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت بے پیندے کے لوٹے کی طرح کبھی اِدھر لڑھکتی ہے اور کبھی اُدھر۔ پورے ملک میں آپا دھاپی کا ماحول بنا ہوا ہے، کسی کو فکر نہیں کہ بلوچستان اور سندھ میں سیلاب کے باعث فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی جتنی پارٹیاں گزشتہ 12برس میں اقتدار میں رہیں، سب سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کی ذمے دار ہیں۔ حکومت کے دعووں کے برعکس معاشی چیلنج بڑھ رہے ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر بہتر نہیں ہورہے ہیں، محصولات کی وصولی میں بڑی کمی ہوئی ہے اور نئے ٹیکسوں پر آئی ایم ایف اصرار کررہا ہے۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اب الیکشن کرانے اور موجودہ حکومت کے جانے کا وقت ہورہا ہے۔
وزیر آباد میں سابق وزیراعظم عمران خان کا لانگ مارچ ملتوی ہونے کے بعدشاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک بار پھر جی ٹی روڈ روڈ پر روانہ ہوگیا ہے۔پنجاب حکومت نے وزیرآباد حملے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی جے آئی ٹی بھی تشکیل دی ہے۔ ایک عجیب اتفاق ہے،2018ء کے انتخابات میں نوازشریف یہ کہہ رہے تھے کہ ان کا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے، اب لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب میں عمران خان کہہ رہے ہیں ’’مجھے گولیاں لگیں اور میں ایف آئی آر نہیں کٹوا سکتا کیوں کہ سامنے طاقت ور ہے‘‘۔ ہمارے ملک کی سیاست اس حصار سے کب باہر نکلے گی؟