سرمایہ دارانہ نظام نے سوشل ویلفیئر ریاستوں کو بھی کھوکھلا کردیا ہے
برطانیہ میں آئے روز ہڑتالیں اب معمول ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کے وہ نتائج ہیں جن سے بتدریج برطانوی عوام نبرد آزما ہورہے ہیں۔ کہنے کو تو مغرب شاید جنت کا کوئی ٹکڑا نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت صورت حال ایسی نہیں جیسی دور سے دکھائی دیتی ہے۔ برطانیہ کیونکہ اب تک ایک سوشل ویلفیئر اسٹیٹ ہے لہٰذا تعلیم، صحت، خوراک اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات کی براہِ راست ذمے دار حکومت ہے۔ لیکن آئے روز کے حکومتی اقدامات نے اس سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کو بہت حد تک دھندلا دیا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صرف برطانوی پرائمری اسکولوں میں آٹھ لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو کہ اسکول میں ملنے والے فری لنچ تک رسائی نہیں رکھتے، اور اس کی وجہ سے وہ پورا دن اور کبھی کبھار اس سے بھی زیادہ بھوکا رہنے پر مجبور ہیں۔ حکومتی قوانین کے مطابق صرف وہ بچے ہی اسکول میں مفت کھانا کھانے کے حق دار ہیں جن کے والدین کی مجموعی آمدن سالانہ 7400 پائونڈ تک ہو، اس سے زائد آمدن ہونے کی صورت میں ان کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔ جبکہ یہ شرحِ آمدن اِس وقت برطانیہ میں دو افراد کے رہن سہن اور کھانے پینے کے لیے ناکافی ہے، یا عام فہم زبان میں یہ سطحِ غربت سے کہیں زیادہ نیچے ہے۔ 7400 پاؤنڈ سالانہ آمدن تک کی شرح 2018ء میں حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ان چار سالوں میں اب تک مہنگائی کی شرح 16 فیصد سے بھی زائد ہے، اور اس کے نتیجے میں اب لاکھوں بچے اس سہولت سے محروم ہیں۔ برطانوی ورک اینڈ پنشن ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی مقرر کردہ شرح سے کم آمدن رکھنے والے گھرانوں میں گیارہ لاکھ بچے پانچ سے سولہ سال کی عمر تک کے ہیں جن کی تعداد مہنگائی میں اضافے کے بعد بارہ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
برطانوی میڈیا میں اس پر اب ایک باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے مہنگائی کی شرح کو یکسر مسترد کرکے اب سالانہ 8575 پاؤنڈ تک کمانے والے کو یہ سہولت میسر ہوگی۔ اس میں طرفہ تماشا یہ ہے کہ برطانوی شرح آمدن جو کہ اب کم سے کم 12570 پاؤنڈ سالانہ تک ہے اس میں شاید ہی دو افراد کی گزربسر ممکن ہو۔ حکومت نے اس کو بھی یکسر فراموش کردیا ہے کہ بچوں کے ساتھ کسی خاندان کا اس میں گزارا کیسے ہوگا؟ اور ایک وقت کھانے کی دی گئی سہولت بھی واپس لی جارہی ہے۔ یہ اقدام سنگل پیرنٹ کے لیے شدید مشکل کا باعث ہے، کیونکہ اگر کسی کے تین بچے ہیں اور اس کی آمدن سالانہ 14000 پائونڈ ہے تو وہ بچے بھی فری کھانا نہیں لے سکتے۔ یاد رہے برطانیہ میں 12570 پائونڈ سالانہ آمدن تک مکمل ٹیکس چھوٹ ہے، یا یہ وہ کم از کم آمدن ہے جو ایک عام فرد ہر قسم کی ملازمت کرکے کماتا ہے۔
صورتِ حال کی سنگینی صرف یہیں تک نہیں ہے بلکہ اب یونیورسٹی کے اساتذہ و ملازمین بھی اس میں شامل ہوچکے ہیں اور برطانیہ کی 150 جامعات کے ستّر ہزار اساتذہ و ملازمین 24-25 اور 30 نومبر کو تین روزہ ہڑتال کریں گے۔ ان کا بنیادی مطالبہ تنخواہوں میں مہنگائی کی شرح سے اضافہ ہے۔ اس تین روزہ ہڑتال سے برطانوی جامعات میں زیر تعلیم پچیس لاکھ طالب علم متاثر ہوں گے۔ اس کے علاؤہ رائل میل کے ملازمین بھی تنخواہوں میں اضافے کے لیے 24-25 نومبر کو ہڑتال کررہے ہیں۔ ان کا مطالبہ بھی تنخواہوں میں اضافے کا ہی ہے۔ برطانوی نرسوں نے بھی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ رائل کالج آف نرسنگ کے اعلامیے کے مطابق ملک بھر کی تین لاکھ نرسوں کی واضح اکثریت نے مہنگائی کی شرح سے تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ بھی ہے کہ رائل کالج آف نرسنگ کی 106 سالہ تاریخ میں پہلی بار بات اس حد تک چلی گئی ہے کہ ہڑتال کی نوبت آگئی ہے۔ اب ایمبولینس ڈرائیوروں اور عملے نے بھی ان ہی مطالبات کے حق میں ہڑتال کی کال دی ہے اور اس ہڑتال میں ایمبولینس ڈرائیور و عملے کے 15 ہزار سے زائد ملازمین حصہ لیں گے۔ یہ ہڑتال ایمبولینس کے عملے کی جانب سے تیس سال کی سب سے بڑی ہڑتال ہے۔ ادھر برطانوی ڈاکٹروں کی تنظیم برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی اوور ٹائم کام اور تنخواہوں میں اضافے کا نہ صرف مطالبہ کیا ہے بلکہ اس کے لیے تنخواہ میں اضافے کی شرح بھی حکومت کو دی ہے۔ تاحال ڈاکٹروں کی جانب سے مکمل ہڑتال کی کوئی کال سامنے نہیں آئی لیکن اوور ٹائم کام کرنے والے ڈاکٹر برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کے مقرر کردہ ریٹ نہ ملنے پر اوور ٹائم نہیں کررہے ہیں جس کے باعث برطانوی شعبہ صحت پر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت بھی ریلوے یونین اور دیگر یونینز کی ہڑتالیں وقتاً فوقتاً جاری ہیں، لیکن شعبہ صحت میں نرسوں اور ایمبولینس عملے کی ہڑتال کے بعد ایک شدید بحران کا خدشہ ہے۔ ایسی ہی صورت حال رائل میل کی ہڑتال کی صورت میں برطانوی نظام ڈاک کو پیش آئے گی۔
برطانوی معیشت کی بدترین کارکردگی اور پھر ان ہڑتالوں نے معیشت کو مکمل تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ گزشتہ سہ ماہی جولائی تا ستمبر میں برطانیہ کی معیشت میں منفی صفر اعشاریہ دو فیصد شرح ترقی نوٹ کی گئی۔ اب برطانوی مرکزی بینک اور خود وزیر خزانہ بھی اعلان کررہے ہیں کہ برطانیہ اب مکمل طور پر معاشی ابتری کا شکار ہے، مہنگائی کی شرح دوبارہ گیارہ فیصد سے تجاوز کرچکی ہے، اور آنے والا یہ معاشی بحران گزشتہ سو سال کا بدترین معاشی بحران ہوگا جس کا موازنہ 1922ء کے معاشی بحران سے کیا جارہا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بحران اس سے بھی بدترین ہوگا اور دو سال تک جاری رہے گا۔
اگر صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام اپنے تمام تر اثرات کے ساتھ مغرب میں موجود ہے۔ اس وقت سود کی شرح میں اضافے کے ساتھ ہی عام فرد کی کمر ٹوٹ چکی ہے، وہ سود کے شکنجے میں پھنس کر محنت و مشقت بھی اصل سرمائے کے بجائے سود کی رقم کی ادائیگی کے لیے کررہا ہے۔ اس وقت قرض پر مکان حاصل کرنے والوں پر بھی شدید مشکل وقت ہے۔ اب ان کو اوسط 300 تا 400 پائونڈ زائد محض سود کی ادائیگی میں ماہانہ دینے پڑ رہے ہیں، اسی وجہ سے اب پراپرٹی کی خرید وفروخت رک چکی ہے اور پراپرٹی کی قیمتوں میں بتدریج کمی کا رجحان ہے۔ برطانیہ جیسی سوشل ویلفیئر اسٹیٹ میں صورت حال یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے سوشل ویلفیئر ریاستوں کو بھی کھوکھلا کردیا ہے، اور اب گیارہ فیصد شرح مہنگائی اور چالیس فیصد تک ٹیکس کے باوجود بھی ریاست اپنے باشندوں کو آئین میں حاصل حقوق دینے سے قاصر ہے۔
اس تمام تر قضیے میں توانائی کمپنیاں بھی بروئے کار آئی ہیں اور انہوں نے بھی توانائی کی قیمتوں میں تقریباً ایک سو فیصد برائے گھریلو صارف قیمت میں اضافے کا اعلان کردیا ہے، اور اب اس کو اِس ماہ سے لاگو بھی کیا جارہا ہے، اس کے برعکس حکومت کی جانب سے نہ صرف ان کمپنیوں کو پابند کرنے کی کوئی مکمل و مربوط کوشش نہیں کی گئی اور صارفین کو حکومت کی گرانٹ کی مد میں محض20 فیصد رقم دی گئی، اس طرح 80 فیصد کا بوجھ صارف برداشت کررہا ہے۔ توانائی کمپنیوں نے روس یوکرین جنگ کا بہانہ بناکر گیس و بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ صرف ایک کمپنی شیل نے ایک سہ ماہی 9.5 ارب ڈالر خالص منافع حاصل کیا جوکہ گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے منافع سے دوگنا سے بھی زائد ہے۔ شیل اس سال تین سہ ماہی میں ریکارڈ 30 ارب ڈالر خالص منافع کما چکی ہے۔ پیٹرولیم کمپنیوں کی چاندی اُس وقت ہوئی جب روس نے یوکرین پر حملہ کردیا جسے جواز بناکر ایک بہت بڑی رقم عوام کی جیب سے لوٹ لی گئی۔ جنگ کے فوری بعد کی سہ ماہی میں صرف شیل نے اپریل تا جون 2022ء میں 11.5 ارب ڈالر خالص منافع کمایا ہے اور دیگر پیٹرولیم کمپنیوں میں سرفہرست رہی۔ ایک طرف یہ بڑے سرمایہ دار عوام کی جیبیں خالی کررہے ہیں اور دوسری جانب حکومت کی جانب سے ان پر کوئی پابندی بھی عائد نہیں کی جارہی۔ نتیجہ یہ ہے کہ مہنگائی کا سیلاب ہے اور عوام کی جیب سے پیسہ نکل کر سرمایہ داروں کو منتقل ہورہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بغاوت اب خود مغرب میں جنم لے رہی ہے، لیکن شاید ان کے پاس بھی متبادل کچھ نہیں۔ مزدور انقلاب کے نام پر برپا سوشلسٹ انقلاب خود اپنی جنم بھومی روس میں ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ شاید بہت جلد خود مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام لندن اور واشنگٹن میں ناکام ہوگا۔ لیکن اصل سوال اب تک یہی ہے کہ کیا اسلام کا معاشی نظام اِس وقت ایسی صورت میں کسی ریاست میں نافذ ہے کہ جو اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو بدل کر عدلِ انسانی پر مبنی اسلامی معاشی نظام کو بطور ایک تجربہ دنیا کے سامنے پیش کرسکے؟ مغرب تاریخ کا ایک طویل سفر طے کرکے اپنے زوال کی جانب گامزن ہے، لیکن نہ اس کی ترقی و عروج کا سفر مختصر تھا اور نہ ہی شاید زوال کا سفر بہت مختصر ہو۔ اس ساری صورت حال میں بحیثیتِ مجموعی مغرب خود ایسے نظام کی تلاش میں ہے جو اُس کے عوام کو اِس ابتری سے نکال سکے۔ اس کے لیے نظام کی نظام سے تبدیلی ہی عمل میں آئے گی، محض نعروں اور دعووں سے یہ کام نہ تاریخ میں پہلے کبھی ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ مغرب کا اضطراب اور سوال اپنی جگہ موجود ہے اور جو اس کا جواب دے گا وہی آئندہ دنیا کا امام ہوگا۔