آج ملّتِ اسلامیہ انتشار و خلفشار سے دوچار ہے۔ یہ انتشار ایسی بھیانک صورت اختیار کرگیا ہے کہ اسے دور کرنے کی ہر کوشش مزید انتشار کا سبب بنتی ہے۔ لوگوں کو متحد کرنے کے لیے نئی نئی تنظیمیں اور انجمنیں بنائی جاتی ہیں۔ کچھ دنوں بعد خود وہ انجمنیں اور تنظیمیں تقسیم ہوجاتی ہیں، ان میں باہم رسّاکشی شروع ہوجاتی ہے اور پچھلا انتشار و خلفشار اور زیادہ سنگین صورت اختیار کرجاتا ہے۔ آج ملّتِ اسلامیہ کی صورتِ حال یہ ہے کہ ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“۔ ضرورت ہے آج ملّتِ اسلامیہ اس معاملے میں بھی رحمۃ للعالمینؐ کے اسوہ سے رہنمائی حاصل کرے۔ آپؐ نے اوس و خزرج کے پھٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لیے جو نسخہ کیمیا استعمال کیا تھا، آج اس ملت کے رہنما اور قائدین بھی وہی نسخہ کیمیا استعمال کریں۔ آپؐ نے دلوں کو جوڑا تھا محبت سے، دل سوزی سے، عام نصح و خیر و خواہی سے!
آپؐ نے صحابہؓ کرام کو اتنی محبت دی تھی کہ ہر ایک کا احساس یہ ہوتا کہ آپؐ اسے سب سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں، بلکہ خود اپنی ذات پر اسے ترجیح دیتے ہیں۔ آپؐ کی یہی شانِ دل نوازی تھی، جس نے دلوں کو موہ لیا تھا، جس نے آپؐ کی عقیدت و محبت سے انہیں سرشار کردیا تھا۔
اس سلسلے میں آپؐ کے ایک غلام ثوبانؓ کا واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ثوبانؓ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ رات دن فکر میں ڈوبے رہتے، غم میں گھلتے رہتے، یہاں تک کہ بہت کمزور ہوگئے، سوکھ کر بالکل کانٹا ہوگئے۔
رحمۃ للعالمینؐ نے ان کے حزن و غم اور ناتوانی کی وجہ پوچھی، تو عرض کیا:
اللہ کے رسولؐ! میرا حال یہ ہے کہ جب کسی دن آپؐ کو دیکھتا نہیں ہوں تو میرا دل بے چین رہتا ہے، اور مجھے ہر چیز کاٹنے لگتی ہے!
میں سوچتا رہتا ہوں، مرنے کے بعد اگر مجھے جنت مل بھی گئی، تو آپؐ کو تو دیکھ نہیں پائوں گا، آپؐ تو فردوسِ بریں میں ہوں گے، جو خالص انبیائے کرامؑ کی جنت ہوگی اور وہ ہماری جنت سے بہت دور بلندی پر ہوگی۔ بس یہی فکر ہے، جو مجھے گھلائے دے رہی ہے!!
اللہ اللہ!! رحمۃ للعالمینؐ کی شانِ دل نوازی!
کس طرح آپؐ ساتھیوں کے دلوں میں سما گئے تھے!
کس طرح آپؐ کی محبت ان کی رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی!
آپؐ کی اسی شانِ دل نوازی نے سب کو آپؐ کی محبت کی لڑی میں پرودیا تھا اور آپس میں انھیں شیر و شکر کردیا تھا، جس کا اشارہ خود اس آیت میں موجود ہے۔
فَبِمَا رَحْمَةٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ- (آل عمران:159)
(اللہ تعالیٰ کی ہی یہ رحمت ہے کہ تم ان کے لیے نرم خو ثابت ہوئے۔ اگر تم سخت دل اور سخت گیر ہوتے، تو سب تمہارے آس پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔)
ضروری ہے کہ آج رحمۃ للعالمینؐ کے نائبین بھی اپنے سینوں کو کشادہ کریں، وہ دوسروں کے ساتھ فراخ دلی اور عالی ظرفی کا شیوہ اپنائیں، ایثار و محبت اور عفوو درگزر کے خوگر بنیں، اخوت کی زباں اور محبت کا بیاں ہوجائیں، دوسروں کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیں، دوسروں کی راحت کو اپنی راحت پر مقدم رکھیں، دوسروں کی رایوں اور دوسروں کے جذبات کا احترام کریں، کہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ملت کی شیرازہ بندی کا!
(” اسوۂ رسولؐاور ہم“-محمد عنایت اللہ سبحانی)
مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے
نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔