حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :
”بلاشبہ نہایت پاکیزہ آمدنی وہ ہے جو تم حلال کمائی کرکے حاصل کرتے ہو
اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے“۔
(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
’’ابو عبداللہ جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا:
آپؐ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں فرض نماز ادا کروں، رمضان کے روزے رکھوں، حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانوں اور اس کے علاوہ کوئی عمل نہ کروں تو کیا میں جنت میں چلا جائوں گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘
اس حدیث میں اسلام کے دو بنیادی اور اساسی تقاضوں کا ذکر ہوا ہے، اور یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کی زندگی میں ان کا دخل نہ ہو۔ اسلام کے ارکان خمسہ شہادت‘ نماز‘ روزہ، حج اور زکوٰۃ میں سے یہاں صرف نماز اور روزے کا ذکر آیا ہے اور اس کے ساتھ حرام و حلال کا تذکرہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ چیزیں ہیں جنہیں ادا کرنے کا موقع ہر مسلمان کو میسر آتا ہے۔ کلمۂ شہادت تو ادا کرکے ہی انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور بقیہ ارکانِ اسلام میں زکوٰۃ اور حج کی باری تب ہی آئے گی جب انسان صاحبِ نصاب اور صاحبِ استطاعت ہوگا۔ لہٰذا ان کو ادا کرنا اُس وقت تک اس کے اوپر فرض نہیں ہوتا جب تک وہ صاحب ِنصاب و صاحب ِاستطاعت نہ ہوگا۔ باقی رہ گئے نماز اور روزہ، تو ان میں بھی روزہ ایسا فرض ہے جس کا ادا کرنا ایک سال بعد متوقع ہوتا ہے۔ اب ان تمام فرائض و ارکان میں سے اگر کوئی فرض اور رکن ایسا باقی رہ جاتا ہے جس کا تعلق انسان کے شب و روز سے ہے تو وہ نماز ہے۔ لہٰذا اس فرض کو ادا کرنا ہی ایسی چیز ہے جو ایک مسلمان کے اسلام و ایمان کی نشانی ہوسکتی ہے اور اگر کوئی یہ بھی ادا نہیں کرتا تو اس کے اندر اسلام کی کون سی خوبی رہ جاتی ہے جس کی بنا پر وہ یہ دعویٰ کرے کہ میں مسلمان ہوں!
نماز کے ساتھ دوسری چیز صحابیؓ نے جو ذکر کی ہے وہ اگرچہ ارکانِ اسلام میں شامل نہیں تاہم اس کی اہمیت ایک رکن جیسی ہے۔ یہ چیز حرام کو حرام سمجھتے ہوئے ترک کردینا اور حلال کو حلال جانتے ہوئے استعمال کرنا ہے۔ حلال ایسی چیز ہے جس کے فعل اور عمل کا مطالبہ فرائض میں شامل نہیں بلکہ انسان کے ارادہ و اختیار پر منحصر ہے کہ وہ جس حلال کام کو چاہے اور جس حلال چیز کو چاہے استعمال کرے، لیکن اس کے مقابلے میں حرام سے اجتناب کا مطالبہ فرض ہے اور اس فرض کا تارک اور اس امر کا مرتکب گناہِ کبیرہ کا مجرم ہوجاتا ہے۔
حدیث میں صرف فرض نماز کو ادا کرنے اور حرام سے اجتناب پر عمل کے ذکر کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اسلام کے دیگر فرائض اور تقاضے مسلمانوں سے ساقط ہوجاتے ہیں۔ بلکہ یہاں صرف اس بنیادی اصول کی بات کی گئی ہے جو جنت میں داخلے کے لیے ایک کم از کم تقاضے کے طور پر ہر مسلمان کی زندگی میں پیش نظر رہتا ہے۔ باقی سب فرائض و مطالبات کو ادا کرنے کا اگر کسی شخص کی زندگی میں کوئی موقع نہیں آتا تو یہ دو امور تو ایسے ہیں جن سے کسی مسلمان کو مفر نہیں، اور جو شخص ان امور کو انجام دے لے گا وہ جنت میں داخلے کا حقدار قرار پائے گا۔