دارالاسلام سے لاہور تک

مولانا مودودیؒ کے پٹھان کوٹ سے لاہور منتقلی کے اسباب تحریک اسلامی کی تاریخ کا ایک اہم باب

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ احیائے دین کی تحریک کا آغاز کرنے کے لیے حیدرآباد (دکن) سے پٹھان کوٹ پنجاب منتقل ہوگئے تھے اور علامہ اقبال کے مشورے پر چودھری نیاز علی خاں کے ادارے ’’دارالاسلام‘‘ کے انتظام کو سنبھال لیا تھا، لیکن اچانک مولانا مودودیؒ پٹھان کوٹ چھوڑ کر لاہور آگئے تھے۔ اس واقعے کا تذکرہ فرائیڈے اسپیشل کے مقبول کالم ”غلطی ہائے مضامین“ میں احمد حاطب صدیقی نے کیا اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اقبال کا ’’دیدہ ور‘‘ قرار دیتے ہوئے ماہر اقبالیات اور ممتاز محقق ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’اقبال کی دعوت پر مولانا دکن چھوڑ کر پنجاب میں پٹھان کوٹ، گورداس پور منتقل ہوگئے جہاں اقبال کے ایما پر اقبال کے دوست چودھری نیاز علی خاں نے اپنا ادارہ ’’دارالاسلام‘‘ مولانا کے حوالے کردیا۔ حالات خراب ہوئے تو مولانا لاہور آگئے‘‘۔ لندن سے جناب رضوان احمد فلاحی نے اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ حالات خراب ہوگئے تھے۔ انہوں نے اس واقعے کے عینی شاہد اپنے والد ، تحریکِ اسلامی کے فکری رہنما، جید عالم دین مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کا مضمون بھیجا ہے جس میں مولانا کی پٹھان کوٹ سے لاہور منتقلی کا اصل سبب بیان کیا گیا ہے۔ یہ مضمون بھیجنے پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

یہ بات تو سبھی لوگ جانتے ہوں گے کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی تحریک کا آغاز دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے کیا تھا، اور اس بات سے بھی لوگ بالعموم واقف ہی ہوں گے کہ مولانا حیدرآباد سے دارالاسلام ، ڈاکٹر اقبالؒ کے مشورے اور چودھری نیاز علی خاں کی دعوت پر آئے تھے، لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا اپنی تحریک کی عملی بِنا ڈالتے ہی چند دنوں کے اندر اندر دارالاسلام کو چھوڑ کر لاہور کیوں منتقل ہوگئے تھے۔ پچھلے چار مہینوں کے دوران کچھ لوگوں کے ایسے مضامین دیکھنے میں آئے جن میں اس انتقالِ مکانی کی عجیب اور بے سروپا قسم کی وجوہات بتائی گئی ہیں، اور ان میں سے ایک بزرگوار نے تو حسبِ معمول ’’قاہسِ زور‘‘ سے بھی کام لینے میں قباحت محسوس نہیں کی ہے۔ چوں کہ اس وقت کم از کم ہندوستان کی حد تک میں تنہا وہ شخص ہوں جو اس معاملے سے براہِ راست متعلق رہا ہے، اس لیے یہ میری ذمے داری قرار پاتی ہے کہ اس حقیقت کوبیان کردوں جو اس نقلِ مکانی کی پہلی اور آخری وجہ تھی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس بارے میں مذکورہ بالا غلط باتوں کی تصحیح ہوجائے گی اور لوگ اصل صورتِ واقعہ سے واقف ہوجائیں گے، بلکہ ساتھ ہی مولانائے مرحوم و مغفور کی سیرت کا ایک خاص اور اہم پہلو بھی سامنے آجائے گا۔

پہلے اس واقعے کا پس منظر جان لیں۔ مولانا 14 مارچ 1938ء کو حیدرآباد سے دارالاسلام، جمال پور (نزد پٹھان کوٹ) منتقل ہوئے تھے۔ یہ منتقلی ڈاکٹر اقبال مرحوم کے مشورے اور چودھری نیاز علی صاحب مرحوم ساکن جمال پور، نزد پٹھان کوٹ کی دعوت پر ہوئی تھی، اور اس لیے ہوئی تھی کہ یہاں مرکز بناکر احیائے اسلام کی دعوت کا کام منظم طور سے شروع کیا جائے۔ یہاں آکر مولانا نے ان فکر انگیز مضامین کا سلسلہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا جو ان کی مشہور تصنیف ’’موجودہ سیاسی کشمکش اور مسلمان‘‘ میں موجود ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین میں مولانا نے اس دعوت و تحریک کا ایک عملی خاکہ بھی پش کیا تھا جس کے مطابق اُن کے نزدیک برصغیر میں احیائے اسلام کا کام منظم طور پر کیا جانا چاہیے تھا۔ اسے پڑھ کر ملک کے بہت سے اصحاب نے مولانا کو تائیدی خطوط لکھے اور تجویز پیش کی کہ اللہ کا نام لے کر ان خطوط پر کام شروع کردیا جائے۔ اس تجویز یا اس مطالبے کے بعد مولانا نے 1938ء کے اواخر میں ایک دستور کا خاکہ مرتب کیا جس میں پیش ِ نظر تحریک کے مقصد، طریق کار اور اصول وضوابط کی تفصیل درج تھی۔ اس مسودۂ دستور کی انہوں نے اس طرح کتابت کروائی کہ ایک طرف کے صفحات سادے رکھے گئے تھے اور مقابل کے صفحات پر مسودے کی عبارت درج تھی۔ طباعت کے بعد انہوں نے اس مسودئہ دستور کی کاپیاں اُن تمام حضرات کو بھجوادیں جو اس کام سے دل چسپی ظاہر کرچکے تھے، اور ان کے علاوہ بھی بہت سے اربابِ علم وفکر کے پاس روانہ کرائیں، اور ان سب لوگوں سے گزارش کی کہ اس مسودۂ دستور کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کے اندر جہاں جہاں بھی وہ کوئی حذف یا اضافہ یا ترمیم تجویز کریں اس کو خالی صفحات پر درج کرتے جائیں تاکہ جب اس مسودے کو آخری شکل دینے کے لیے مشاورتی اجتماع ہو تو یہ ترمیمات اور حذف و اضافے بھی غوروبحث کے وقت سامنے رہیں۔ پھر ایک مناسب مدت کے بعد موصوف نے ان تمام حضرات کو دارالاسلام میں ایک متعینہ تاریخ پر اکٹھے ہونے کی دعوت دی۔ کچھ لوگوں کا تو کوئی جواب موصول نہ ہوسکا، کچھ لوگوں نے کسی بنا پر شریکِ اجتماع ہونے سے معذوری ظاہر کی اور لکھا کہ ہم اپنی ترمیمات اور مشورے مسودۂ دستور میں درج کرکے بھجو رہے ہیں۔ باقی لوگ تشریف لائے۔ 1939ء کے اوائل میں یہ مجوزہ اجتماع دارالاسلام میں مولانا کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ حاضرین میں اکثریت مغربی ہند کے لوگوں کی تھی۔ یوپی سے شریک ہونے والوں میں مولانا منظور نعمانی صاحب بھی شامل تھے۔ باہمی غوروبحث کے بعد دستور اپنی آخری شکل میں منظور ہوگیا اور اسی وقت سے چودھری نیاز علی صاحب کا اختلاف بھی شروع ہوگیا۔ اس اختلاف کا منبع منظور شدہ دستور کی وہ خاص دفعہ تھی جس میں تحریک کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام بتایا گیا تھا۔ بہرحال اجتماع ختم ہوا تو اسی دن یا اگلے دن بعد نماز عصر شرقی صاحب کی رہائش گاہ کی بیٹھک میں وہ لوگ اکٹھے ہوئے جنہوں نے اس دستور کے مطابق تحریک کے قیام اور اس میں شریک ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ یہ کُل پانچ آدمی تھے۔ سب سے پہلے مولانا نے تجدیدِ شہادت کی، اس کے بعد باقی چار آدمیوں نے۔ دوسرے لفظوں میں تحریک کی باقاعدہ بِنا ڈال دی گئی، جس کے بعد چودھری صاحب کے اختلاف نے اپنا عملی اثر دکھانا شروع کردیا۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق نہایت نرم اور شائستہ انداز میں، مگر اصرار کے ساتھ مولانا سے کہتے رہے کہ دستور میں اسلامی حکومت کا لفظ نہیں رہنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ الفاظ اور اصطلاحات میں کیا رکھا ہے، اصل چیز تو کام ہے، آپ اپنا کام کرتے رہیں، مگر دستور میں اسلامی حکومت کی اصطلاح کے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چودھری صاحب کی اس رائے یا خواہش کے پیچھے کیا مصلحت کام کررہی تھی میں اس کرید میں پڑنا نہیں چاہتا، خصوصاً اس لیے کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ مولانا نے ان کے جواب میں نہایت صفائی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا کہ اگر ہمیں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا تو ہم کہیں اور جاکر یہ کام کریں گے۔ چناں چہ انہوں نے لاہور منتقل ہوجانے کا فیصلہ کرلیا۔ مولانا کے اس فیصلے سے چودھری صاحب سخت پریشان ہوگئے۔ انہوں نے مولانا کو منانے کی بڑی کوشش کی۔ جب اپنی کوشش میں وہ کامیاب نہ ہوسکے تو قصبہ دینانگر کے شیخ نصیر صاحب کو بلایا جو دارالاسلام ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں سے تھے۔ شیخ صاحب تشریف لائے اور انہوں نے بھی اپنی سی پوری کوشش کی کہ مولانا دارالاسلام سے نہ جائیں، مگر بات جہاں تھی وہیں رہی۔ مولانا اپنے فیصلے میں اٹل رہے اور شیخ صاحب مایوس اور دل گرفتہ واپس چلے گئے۔ ان ہی دنوں مولانا کا فرمایا ہوا یہ جملہ مجھے اب تک یاد ہے کہ ”عجیب مشکل ہے، جن لوگوں کے پاس روپیہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ عقل بھی ان ہی کے پاس ہے“۔ غرض منتقلی کا فیصلہ برقرار رہا۔ کتابیں رات گئے تک پک کی گئیں۔ صبح کو ٹرک پر سامان لادا گیا اور ہم لوگ اس حال میں لاہور روانہ ہوگئے کہ یہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اب پاؤں ٹکانے کی جگہ کب اور کہاں ملے گی۔ مزید لطف کی بات یہ کہ ادارے کے مالی حالات بھی اُن دنوں مسلسل صبرآزما چل رہے تھے۔ سہ پہر کے وقت لاہور پہنچ کر ترجمان القرآن کے مینجر سید محمد شاہ صاحب کے ذاتی مکان (واقع محلہ مصری شاہ) میں سامان اتار کر رکھ دیا گیا، اور شام کو قیام گاہ اور دفتر کے لیے مکان کی تلاش شروع ہوئی جو کئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد کامیاب ہوسکی۔ یہ تھی دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے لاہور منتقل ہوجانے کی اصل وجہ، اور یہ تھا اس نقلِ مکانی کا اصل واقعہ۔

اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب ڈھائی تین سال بعد مولانا پھر دارالاسلام لوٹے تھے تو کس شرط پر لوٹے ہوں گے۔ میں اُن دنوں لاہور میں موجود نہیں تھا اس لیے براہِ راست علم کی بنا پر کوئی روایت نہیں کرسکتا۔ مگر دارالاسلام لوٹنے سے چند ماہ قبل مولانا نے مجھے اس بارے میں جو اطلاع دی تھی اس سے حقیقت ِ واقعہ پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے۔

یکم فروری1941ء کے اپنے ایک گرامی نامہ میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا کہ:
’’کچھ مدت سے چودھری نیاز علی خاں صاحب اور شیخ نصیر صاحب نے پھر اصرار شروع کیا ہے کہ تم پھر پٹھان کوٹ والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس سلسلے میں بہت کچھ خط کتابت ہوئی اور بات چیت کی نوبت بھی آئی۔ آخر میں اب یہ تصفیہ ہوا ہے کہ وہ عمارات مع چار چھ ایکڑ زمین کے 50 سال کے پٹے پر میں اُن سے لے لوں گا اور شرح کرایہ سو روپیہ سالانہ یا اس کے قریب قریب ہوگی۔ اس صورت میں ہمارے ادارے کا اُن کے ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہ رہے گا اور نہ کسی قسم کی مداخلت کا ان کو حق ہوگا۔ ہم محض کرایہ دار کی حیثیت سے وہاں رہیں گے جس طرح یہاں لاہور میں کرایہ دے کر رہتے ہیں۔‘‘

(زندگی، رام پور، جون 1980ء)