کیا آزادکشمیر کو تسلیم کرنا اب ممکن ہے؟

ایک متروک نعرے اور تصور کی صدائے بازگشت

آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے راہنما راجا فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ایک مین اسٹریم جماعت کے راہنما کی طرف سے ایک متروک نعرے اور تصور کی صدائے بازگشت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے جواب میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں یہ ایک معنی خیز اور بڑا مطالبہ ہے جس کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک ملتی ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے سیز فائر اور مہاراجا ہری سنگھ حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے ایک عارضی انتظام کا سہارا لیا تو اُسی وقت سے آزادکشمیر کا اسٹیٹس موضوعِ بحث بنتا چلا گیا۔ اُس وقت یہ سوال بھی اُبھرا کہ آزادکشمیر میں قائم انتظامیہ ایک حکومت ہے یا لوکل اتھارٹی؟ اقوام متحدہ کے کمیشن اور دستاویزات سے دونوں باتوں کے لیے تصدیق اور تائید تلاش اور دریافت کرنے کا عمل بھی پرانا ہے۔ جوزف کاربل نے اپنی کتاب ’’ڈینجر ان کشمیر‘‘ میں آزادکشمیر کو لوکل اتھارٹی قرار دینے کا جواز یہ دیا کہ یہ حکومت جس ملک اور رقبے پر قائم ہے وہاں مقامی معاملات پر اس کا کنٹرول ہے مگر دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کا اختیار حکومتِ پاکستان کے پاس ہے۔

کشمیر پر سیزفائر کے بعد کم و بیش ایک دہائی پاکستان نے ایک موہوم امید پر مغربی بلاک کے قریب ہونے میں لگادی۔ سیٹو، سینٹو اور بغداد پیکٹ میں پاکستان کی شمولیت مغربی بلاک کے لیے خود سپردگی کے مترادف تھی، اور پاکستانی قیادت کو گمان تھا کہ اس کے بدلے مغربی بلاک کشمیر پر پاکستان کی زبانی یا عملی حمایت کرے گا۔ مغربی بلاک نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ یہ معاہدات صرف سوویت یونین کے مقابلے تک محدود تھے، ان کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان معاہدات میں پاکستان کی شمولیت نے سوویت یونین کو کشمیر پر بھارت کی کھلی حمایت کی طرف دھکیل دیا۔ 1957ء میں جب سلامتی کونسل میں کشمیر میں بین الاقوامی فوج کی تعیناتی کی قرارداد پیش ہوئی تو سوویت یونین نے اسے ویٹو کردیا، اور حیرت انگیز بات یہ کہ امریکی نمائندے نے سُکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے ہم ایک مشکل صورتِ حال میں پڑنے سے بچ گئے۔ گویا کہ سوویت یونین کے ویٹو کو مغرب کی درپردہ حمایت بھی حاصل تھی۔ امریکہ کی اس طوطا چشمی سے پاکستان کے مغرب پر انحصار کی پالیسی کی ناکامی عیاں ہوگئی۔

اس عرصے میں کشمیر میں مزاحمت جمود کا شکار ہوگئی اور مایوسی اور نااُمیدی نے کشمیریوں کے اعصاب پر غلبہ پالیا۔ بھارت شیخ عبداللہ کو گرفتار کرنے کے بعد کشمیر پر فوجی اور آئینی طور پر اپنی گرفت مضبوط بنا رہا تھا۔ آزادکشمیر میں اقتدار کی رسّاکشی شروع ہوگئی تھی۔ اُس وقت ایوب خان پاکستان کے صدر اور منظور قادر نامی ایک ذہین شخص اُن کے وزیر خارجہ تھے۔ قائداعظم کے سابق سیکرٹری کے ایچ خورشید آزادکشمیر کے صدر تھے جو تحریکِ آزادی کے حوالے سے اپنا ایک واضح اور ریڈیکل مؤقف رکھتے تھے۔ اُس وقت یہ سوچ اُبھری کہ اب پاکستان بین الاقوامی طور پر کشمیر کا مقدمہ کھلے انداز میں نہیں لڑ سکتا اس لیے کشمیر کا مقدمہ کشمیریوں کے ذریعے لڑنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔

یہ کئی جلاوطن حکومتوں کا زمانہ تھا جبکہ کشمیریوں کے پاس آزادکشمیر کی صورت میں رقبہ بھی موجود تھا اور مقامی انتظامیہ بھی۔ کے ایچ خورشید نے ایوب خان اور منظور قادر کو اس نظریے کا قائل کیا کہ آزاد کشمیر حکومت کو مہاراجا ہری سنگھ کی جانشین اور متبادل حکومت کے طور پر حکومتِ پاکستان نہ صرف خود تسلیم کرے بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں کو بھی اس کام پر آمادہ کرے۔ جس کے بعد کے ایچ خورشید نے بطور صدر آزادکشمیر کراچی میں غیر ملکی سفیروں کو خط لکھ کر ان کی رائے معلوم کی۔ آزادکشمیر کے سابق چیف جسٹس عبدالمجید ملک نے اپنی خودنوشت میں انکشاف کیا ہے کہ 28 ملکوں کے سفیروں نے پاکستان کے تسلیم کرنے کی صورت میں اس حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ چین کے پیکنگ ریڈیو نے 14 دسمبر 1961ء کو اپنے تبصرے میں ہندوستان کو ایشیا کا بڑا جارح ملک قرار دیا اور کہا کہ اگر آزاد حکومت کو کشمیر کی مجاز حکومت تسلیم کروانے کی درخواست کی گئی تو اس پر ہمدردانہ غور ہوگا اور بھارتی زیر تسلط کشمیر کو چھڑانے کے لیے اس حکومت کی بھرپور مدد ہوگی۔

اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس تجویز کو مغرب مخالف بلاک سے حمایت ملنے کا امکان موجود تھا اور امریکہ نے پاکستان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے اس تجویز کو کوڑے دان میں ڈالنے کا راستہ اپنایا۔ اچانک اس تصور کے خلاف آزادکشمیر اور پاکستان میں ایوب مخالف سیاسی لابی تلوار سونت کر میدان میں آگئی اور یوں ذہن اور حالات بدلتے ہی یہ تجویز ’’پرائیویٹائز‘‘ ہوکر تنہا کے ایچ خورشید کے کاندھوں کا بوجھ بن گئی۔ ایوب خان نے اس تجویز کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا اور وزیر خارجہ منظور قادر کو تین ماہ میں اس معاملے کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ یوں لگتا ہے کہ ایوب حکومت اس معاملے پر حتمی فیصلہ کرنے کا ذہن بنا چکی تھی، اسی لیے جب اس رپورٹ پر صدر آزادکشمیر کے ایچ خورشید سے بات چیت کرنے وزیر خارجہ منظور قادر مظفرآباد آئے تو ان کا استقبال ماضی کے دوروں کے برعکس الگ پروٹوکول کے تحت ہورہا تھا، یوں لگ رہا تھا کہ کسی بیرونی ریاست کا مہمان آیا ہو۔ دونوں راہنمائوں کے درمیان مذاکرات کی نشستیں بھی اس انداز سے ترتیب دی گئی تھیں کہ دو الگ مملکتوں کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی شبیہ اُبھرے۔ اس ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا۔ اس دورے سے پاکستان کا پریس چونک گیا اور آزادکشمیر کے کچھ طاقتور سیاست دانوں کا ماتھا بھی ٹھنکا، جس کے بعد اس تصور کے خلاف مہم شروع ہوئی اور اسے خودمختار کشمیر اور پاکستان سے الگ ریاست بنانے کی کوشش قرار دیا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی یہ تصور بھی صحرائی اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز کی طرح دھیما اور بعد میں دور ہوتا چلا گیا۔