بلوچستان، تضاد پر مبنی سیاست

گوادر میں حق دو تحریک کا دھرنا

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بلوچستان کے اندر نری تضاد پر مبنی سیاست کررہی ہے۔ صوبے میں ناشائستہ اور غیر موزوں حکومتی در وبست پی ڈی ایم ہی کا ’’کارنامہ‘‘ ہے۔ جام کمال عالیانی کی حکومت گرانے میں پی ڈی ایم اور تحریک انصاف ایک صفحے پر تھے، جہاں پی ڈی ایم، تحریک انصاف کے مقتدر رہنما کی ہدایت اور اشاروں پر چل رہی تھی۔ سردار اختر مینگل کی نفرت کی اور بھی وجوہات تھیں۔ جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی شعوری طور پر اس معیوب کھیل کا حصہ بنیں۔ 2018ء میں صوبے میں مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا مپ کی حکومت کے خلاف بھی ان ہی بازی گروں کی رہنمائی میں عدم اعتماد کی تحریک آئی۔ عوامی نیشنل پارٹی تب اس قبیل کی ہم کار تھی۔ حیرت پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی پر ہے کہ جن حلقوں نے اس کی حکومت کے خلاف سیاہ سیاست کا مظاہرہ کیا ان ہی کا اکتوبر 2021ء میں جام کمال کے خلاف ساتھ دیا! جو الفاظ تحریک انصاف کے مقتدر لوگ ادا کرتے، اس کے رکن اسمبلی نصراللہ زیری بھی جے یو آئی، بی این پی اور عبدالقدوس بزنجو حلقے کے اراکینِ اسمبلی کی دیکھا دیکھی ادا کرتے۔ پشتون خوا میپ کا رکن اسمبلی بھی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ کلی الماس کے فارم ہائوس میں داخل رہا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ساری بازیگری وہی لوگ کررہے تھے جنہوں نے صوبے میں مسلم لیگ (ن)، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت گرائی تھی۔ محمود خان اچکزئی نے ذرا بھی سوچ بچار نہ کی کہ ان کا رکن اسمبلی عبدالقدوس بزنجو وغیرہ کی حکومت لانے کے گناہ میں کیوں شامل ہو؟ جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے پچھلی حکومت کی طرح اِس بار بھی حزب اختلاف کا دکھاوے کا جامہ پہن رکھا ہے جبکہ تب کی طرح آج بھی یہ پوری طرح حکومت کا حصہ ہیں، بڑے بڑے فنڈز لے چکی ہیں، افسر شاہی کے تقرر و تبادلے ان کی مرضی کے تحت ہورہے ہیں۔ گوادر میں حق دو تحریک نے پھر سے دھرنا دے دیا ہے تو متبادل بیانیہ اور ترقیاتی کاموں کا ڈنکا بی این پی کے حمل کلمتی بجا رہے ہیں۔ بیانات محکمہ تعلقاتِ عامہ سے جاری ہوتے ہیں۔ اب بی این پی صوبے کے اندر گورنر کے منصب پر اپنی جماعت کا بندہ بٹھانے کی خواہاں ہے۔ محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے اندر تطہیر کا آغاز کررکھا ہے۔ اچھا ہو وہ اگر عبدالقدوس بزنجو حکومت کا ساتھ دینے پر ندامت کا اظہار بھی کریں۔

نرالی جے یو آئی کی سیاست ہے کہ2018ء میں صوبے کے اندر نواز لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کی حکومت گرائی، عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے میں ساتھ دیا۔ جب جولائی2018ء کے عام انتخابات ہوئے تو اس کے رہنما حافظ حمداللہ نے ہاکی گرائونڈ جلسے میں جس کی صدارت مولانا فضل الرحمان کررہے تھے، کہا کہ یہ الیکشن کسی پریزائیڈنگ آفیسر اور آر او نے نہیں بلکہ بریگیڈیر خالد فرید نے کرائے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ’’نکے‘‘کے ابا وغیرہ کے استہزائی لطیفے سنایا کرتے تھے۔ آج یہ حضرات اپنی تقاریر، بیانات، جلسوں اور لطیفوں سے مکر رہے ہیں۔ سردار اختر مینگل موجودہ حکومت کا ساتھ بھی حصے داری کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت میں حصہ لے رکھا ہے۔ گاہے بگاہے حکومت کو تڑیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔ عمران حکومت کے قیام میں ساتھ دیا۔ موقع محل دیکھ کر اس حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ محمود خان اچکزئی کا البتہ نواز لیگ کے ساتھ اتحاد میں نکتہ نظر واضح ہے۔ اچکزئی اپنی جماعت کے بعض سرکش افراد پر بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ پارٹی کے اس فیصلے سے انحراف کی کوشش نہ کریں۔ 2013ء کی حکومت میں پشتون خوا میپ نے مرکزی حکومت میں وزارت نہیں لی تھی تب عثمان کاکڑ مرحوم محمود خان اچکزئی کے برعکس وفاقی حکومت اور پنجاب مخالف مؤقف متواتر دہراتے، جس سے پارٹی کے اندر غالب طور پر متوازی سوچ اور مؤقف کا تاثر اُبھرتا تھا۔ چناں چہ اب محمود خان اچکزئی پارٹی کے اندر گروہ بندی کے سدباب اور تطہیر کے عمل پر گامزن نظر آتے ہیں۔ مقصد پارٹی پالیسی میں تغیر لانا دکھائی دیتا ہے۔

جے یو آئی اور بی این پی کی برکت ہے کہ 2018ء کی مانند دوسری بار عبدالقدوس بزنجو صوبے کے حکمران بنادیے گئے ہیں۔ پچھلی بار اس عمل میں عوامی نیشنل پارٹی شریک تھی، اِس بار پشتون خوا میپ نے اکلوتے رکن اسمبلی کے ساتھ حصہ ڈالا ہے۔

گوادر میں حق دو تحریک نے27 اکتوبر سے پھر دھرنا دے رکھا ہے۔ حق دو تحریک کہتی ہے کہ ان سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ حال یہ ہے کہ حکومت اسمبلی اجلاسوں میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ 22 سے 27 اکتوبر تک منعقد ہونے والے پانچ میں سے چار اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی بنا ملتوی کرنے پڑے ہیں۔ یعنی حکومتی ارکانِ اسمبلی اجلاس کے حوالے سے قطعی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے پانچ کوآرڈی نیٹر لینے کا فیصلہ بھی عوامی حلقوں میں اچھا نہیں سمجھا جارہا ہے۔