سیاست میں برداشت کا فقدان

اس وقت ہمارا اصل مسئلہ سیاسی ڈائیلاگ کا نہ ہونا ہے

ملک بھر میں جاری سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے معاشرے میں پنپنے والے عدم برداشت، گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے رجحان کا نتیجہ اگر ایک طرف پی ٹی آئی کے سربراہ پر قاتلانہ حملے کی صورت میں سامنے آیا ہے تو دوسری طرف سیاسی بحث و تکرار کے نتیجے میںخیبر پختون خوا کے ضلع دیر لوئر کے علاقے قلعہ گئی کے گائوں سیار درہ کے رہائشی پی ٹی آئی کے کارکن رحیم الدین کے قتل اور اس کے بھائی وقاص الدین کے شدید زخمی ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے مبینہ ملزم کا جو ویڈیو بیان سامنے آیا ہے اس میں اُس نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کی جو وجہ بیان کی ہے وہ ملک میں جاری اسی سیاسی ہیجان کا نتیجہ ہے جس نے کراچی تا خیبر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے ورکرز کی جانب سے وزیراعظم شہبازشریف کے وفد میں شامل وزراء کے خلاف مسجدِ نبویؐ کی بے حرمتی کرتے ہوئے جو اودھم مچایا گیا تھا اور بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو جس طرح لندن ائیرپورٹ پر ہراساں کیا گیا، اور ابھی حال ہی میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اُن کے دورۂ امریکہ کے موقع پر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا یہ ہماری سیاست میں در آنے والے عدم برداشت اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان واقعات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے راہنمائوں احسن اقبال اور خواجہ محمد آصف کے ساتھ ان کے حلقوں میں جو رویہ روا رکھا گیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کو سیاسی مخالفین جس طرح ایک مادر پدر آزاد میڈیم کے طور پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہیں اس کی جانب سنجیدہ حلقے مسلسل اشارے کرتے رہے ہیں اور ان کی جانب سے سیاسی قائدین بالخصوص پارٹی راہنمائوں کو یہ تنبیہ کی جاتی رہی ہے کہ انہیں اپنے کارکنان کو سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین پر گند اچھالنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی اور اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہیے، لیکن چونکہ ان کی باتوں کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا گیا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بے ہودگی اور ناشائستگی میں اضافہ ہوتا رہا، اس لیے آج پورا معاشرہ انارکی اور بے چینی کا شکار نظر آتا ہے۔

سیاسی عدم برداشت کی ایک جھلک پشاور سے تیمرگرہ جانے والی مسافر کوچ میں سیاسی بحث و تکرار میں قلعہ گئی گائوں سیاردرہ کے پی ٹی آئی کے کارکن رحیم الدین کی ہلاکت اور اس کے بھائی وقاص الدین کے زخمی ہونے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس اندوہناک واقعے میں زخمی ہونے والے وقاص الدین ولد غلام محی الدین ساکن قلعہ گئی گائوں سیار درہ نے بٹ خیلہ ہسپتال میں پولیس کو رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ ’’میں 5 نومبر کو اپنے بھائی رحیم الدین کے ہمراہ مسافر کوچ میں پشاور سے تیمرگرہ لوئر دیر جارہا تھا کہ سفر کے دوران میرے بھائی کی ایک دوسرے مسافر نام نامعلوم کے ساتھ سیاسی بحث و تکرار ہوگئی جس سے بات گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، بعد میں مذکورہ ملزم نے فون پر اپنے دیگر ساتھیوں کو بابوزئی انٹر چینج آنے کا کہا، لہٰذا جب کوسٹر مذکورہ مقام پر پہنچی تو وہاں پہلے سے موجود پانچ افراد جو ڈنڈوں اور اسلحہ سے لیس تھے، کوسٹر زبردستی رکواکر میرے بھائی کے ساتھ الجھ گئے اور ان پر لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے حملے کے بعد فائرنگ کردی جس سے میرے بھائی رحیم الدین موقع پر جاں بحق ہوگئے جبکہ مجھے شدید چوٹیں آئیں۔‘‘ بعد ازاں اس واقعے کے خلاف پی ٹی آئی کے مقامی راہنمائوں نے تیمرگرہ میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک کارکن کی ہلاکت اور دوسرے کے شدید زخمی ہونے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کو کھلی دہشت گردی قرار دیا اور صوبائی حکومت سے اس واقعے میں ملوث ملزمان کی فی الفور گرفتاری اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا، بصورتِ دیگر ملزمان کی عدم گرفتاری تک لوئردیر کے عوام کی جانب سے راست اقدام اور شدید احتجاج کا اعلان کیا گیا۔

اسی طرح پشاور میں گزشتہ روز ایک ناخوشگوار صورت حال اُس وقت پیدا ہوگئی تھی جب عمران خان پر قاتلانہ حملے کے خلاف پی ٹی آئی کے بپھرے ہوئے کارکنان تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے کور کمانڈر پشاور کی رہائش گاہ کے سامنے تک نہ صرف پہنچ گئے تھے بلکہ وہ مسلسل فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نعرے بازی بھی کررہے تھے۔

اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت اور بھٹو خاندان واحد سیاسی خاندان ہے جسے ماضی میں سب سے زیادہ تختۂ مشق بنایا جاتا رہا ہے، حتیٰ کہ اس کے قائدین ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کو اس سلسلے میں قیمت اپنی جان کی صورت میں چکانی پڑی ہے لیکن پیپلز پارٹی نے کبھی بھی صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، خاص کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت پر آصف زرداری نے جس طرح پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا اس میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے لیے بردباری پر مشتمل سیاست اورسیاسی برداشت کا بہت بڑا سبق موجود ہے۔

عمران خان پر ہونے والے حالیہ قاتلانہ حملے پر ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے شروع میں جس افسوس اور تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا اس میں پی ٹی آئی کے روایتی طرزِعمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ نہ صرف کمی دیکھنے کو مل رہی ہے بلکہ ان کے بعض سیاسی مخالفین کی جانب سے اس واقعے پر اب طنز و مزاح کے نشتر بھی چلائے جارہے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے جو لب و لہجہ دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے سیاسی فضا میں پہلے سے موجود تنائو میں مزید شدت کے امکانات بعیداز قیاس نہیں ہیں، حالانکہ اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو بیک زبان ہوکر نہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرنی چاہیے،جس سے سیاسی تنائو میں یقینا کمی آئے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہمارا اصل مسئلہ سیاسی ڈائیلاگ کا نہ ہونا، ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا اور ’’میں نہ مانوں‘‘ پر مبنی فاشسٹ رویوں کا پروان چڑھنا ہے۔ ارشد شریف کے قتل پر سوشل میڈیا میں بعض سیاسی جماعتوں اور ان کے ورکر کی جانب سے مدعی، وکیل اور منصف بن کر جو بھد اڑائی گئی وہ ہمارے عدم برداشت اور ہر معاملے کو اپنے زاویۂ نگاہ اور عینک سے دیکھنے کی ایک اور بدترین مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اس حساس معاملے پر ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن بن چکا ہے اور اس ضمن میں کام کا آغاز بھی ہوچکا ہے تو پھر مختلف شخصیات اور اداروں کے خلاف بے سروپا الزامات لگانے اور اُن کے خلاف انگلیاں اٹھانے کی کیا تُک رہ جاتی ہے؟ ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی اور ہلڑ بازی میں رہی سہی کسی سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعے نے پوری کردی ہے جس پر ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ کسی سیاسی مخالف کو دبائو میں لانے اور اسے سیاسی طور پر بلیک میل کرنے کی اس سے بدترین مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس تمام صورت حال کے تناظر میں بہتری اور امید کی کوئی کرن ہوسکتی ہے تووہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سراج الحق کے بقول سیاسی ڈائیلاگ کا راستہ ہی ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں ہم من حیث القوم نہ صرف موجودہ سیاسی تنائو اور عدم برداشت کی کیفیت سے نکل سکتے ہیں بلکہ اس مثبت طرزِعمل سے ملک کو درپیش سنگین خطرات اور چیلنجوں سے بھی عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے۔