سیاسی تصادم میں شدت

سابق وزیراعظم پر قاتلانہ حملہ، ایف آئی آر درج کرنے کا عدالتی حکم

تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک انسانی جان کے نقصان کے علاوہ کئی ساتھیوں سمیت عمران خان کے زخمی ہوجانے کا معاملہ الجھتا چلا جارہا ہے۔ اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج ہوگئی اور ایک بڑی پیش رفت بھی ہوئی۔ ایک کے ساتھ بالواسطہ رابطہ ہوا ہے اور اب صورتِ حال بدلنا شروع ہوجائے گی۔ دوسری خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف دبائو بڑھاتی رہے گی تاکہ مسلم لیگ(ن) اپنے حق میں کوئی ’’سودا‘‘ نہ کرسکے، باقی تمام فیصلے جیسے ہونے ہیں ہوتے چلے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے وزیراعظم شہبازشریف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک فوجی افسر کو اس واردات کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے استعفوں کا مطالبہ کیا تھا۔

وفاقی حکومت نے ملزم کے ابتدائی بیان کی روشنی میں اس واقعے کے مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہونے کا گمان ظاہر کیا ہے، تاہم عمران خان کے بقول یہ مؤقف انہیں سلمان تاثیر جیسے انجام سے دوچار کرنے کے لیے اپنایا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج میں، تاخیر کی صورت میں تحقیقاتی عمل متاثر ہوتا ہے اور عدالتوں میں مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے۔ تاخیر کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب سیاسی ایف آئی آر درج کرانے سے عمران خان کو باز رکھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم عمران خان کہتے رہے کہ جب تک یہ لوگ اپنے عہدوں پر موجود ہیں شفاف تحقیقات ممکن نہیں، لہٰذا ہمارا احتجاج ان تینوں کے مستعفی ہونے تک جاری رہے گا۔ اب ایف آئی آر بھی درج ہوگئی ہے اور یوں معاملہ کسی نہ کسی حد تک حل ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے، لیکن عمران خان نے جو مؤقف اپنایا کہ انہیں قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، وہ ابھی تک موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ بھی کیا کہ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ چار افراد نے بنایا، اور اس کی تفصیل وہ ایک ویڈیو میں اس ہدایت کے ساتھ ریکارڈ کرا چکے ہیں کہ اگر انہیں ایسی کوئی صورتِ حال پیش آئے تو بیرون ملک موجود یہ ویڈیو سامنے لے آئی جائے۔ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’مذموم مقاصد کے لیے بے بنیاد الزام تراشی سے افسروں اور سپاہیوں کو بدنام کیا جارہا ہے، کسی ثبوت کے بغیر لگائے گئے الزامات ناقابلِ قبول ہیں، لہٰذا حکومت عمران خان کے جھوٹے الزامات پر قانونی کارروائی کرے اور اداروں کو بدنام کرنے والے افراد کے خلاف تحقیقات کرائے‘‘۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر تحریک انصاف ملک بھر میں احتجاج کررہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے عمران خان کے الزامات پر چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے فل کورٹ کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ ’’عمران خان فوج پر دشمن کی طرح حملہ آور ہیں، ملک میں خانہ جنگی کا ماحول بنایا جارہا ہے، عمران نیازی کے الزامات پر بھارت میں خوشیاں منائی جارہی ہیں، عسکری ادارے کی درخواست پر حکومت اپنا فرض ادا کرے گی، عدالتِ عظمیٰ خاموش بیٹھی تو یہ ملک کے ساتھ ظلم ہوگا، سازش ثابت ہوئی تو مجھے وزیراعظم رہنے کا حق نہیں، الزام ثابت ہوا تو سیاست چھوڑ دوں گا‘‘۔ وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں چیف جسٹس سے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کی بھی درخواست کی ہے۔ جب یہ کمیشن بن جائے گا تو اس کے روبرو قابلِ غور سوالات اٹھائے جائیںگے۔ امید ہے کہ عدالتی تحقیقات سے بہت سی گتھیاں سلجھائی جاسکیں گی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جلدازجلد فل کورٹ کمیشن کا قیام عمل میں لاکر تحقیقات کا آغاز کریں اور کمیشن کی رپورٹ لازماً قوم کے سامنے لائی جائے، تاکہ ملک کو غیر ذمے دارانہ سیاست سے نجات ملے اور الزامات کے درست یا غلط ہونے کی بنیاد پر ذمے دار عناصر کے خلاف آئین کے مطابق کارروائی ہوسکے۔

کمیشن کا قیام اپنی جگہ، سب جانتے ہیں کہ سارا تنازع28 نومبر کے پس منظر میں ہے۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے اُس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2019ء میں تین سال کی توسیع دی گئی، تاہم بعد میں ایک پیج کی کہانی دم توڑ گئی، اس کے بعد ہی تحریک عدم اعتماد آئی۔ جنرل باجوہ کو عمران خان نے خود توسیع دلائی اور سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر ان کی توسیع کا قانون بنوایا۔ اگر عمران خان بھی 2019ء میں میرٹ کا خیال رکھتے تو آج یہ نہ بتا رہے ہوتے کہ ’’مجھ پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہورہی، یہ اس لیے کہ میرٹ پر عمل نہ کرنے سے قانون پیچھے رہ گیا ہے‘‘۔ عمران خان کو اپنے ذاتی نرگسی خول سے نکلنا چاہیے، انہیں اپنی پارٹی کے نظریات اور لائحہ عمل پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کس طرح کا عوامی ترقی کا ماڈل اختیار کریں گے؟ ملک کے معاشی حالات اتنے سنگین ہیں کہ اگر چینی و سعودی زرمبادلہ نکال دیا جائے تو اسٹیٹ بینک میں 40 کروڑ ڈالر رہ جاتے ہیں اور آئندہ برس کے لیے کوئی 33 ارب ڈالر درکار ہوں گے جس کے لیے اب تک چین اور سعودی عرب سے 13 ارب ڈالر کے وعدے سامنے آئے ہیں۔

جہاں تک وزیرآباد واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے کا تعلق ہے، عمران خان اور پرویزالٰہی ایک پیج پر نظر نہیں آرہے، اس سے ہٹ کر اگر قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو مختلف آراء ملتی ہیں۔ قانون یہ کہتاہے کہ ایف آئی آر درج ہونا متاثرہ شخص کا حق ہے اور پولیس قانونی طور پر مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔ قانون کے مطابق متاثرہ شخص مقدمے میں جو کچھ لکھوانا چاہے پولیس اسے درج کرنے کی پابند ہے۔ یہ دورانِ تفتیش علم ہوگا کہ مقدمے میں درج کرائی گئی باتیں سچ ہیں یا جھوٹ؟ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں قتل کرنے کی سازش کی گئی، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109(کسی جرم میں سہولت کاری کرنا) یا دفعہ 120 (جرم کرنے کی کسی سازش کا حصہ ہونا) کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی مثال سامنے ہے، اُن پر قتل کا الزام اسی نوعیت کا تھا کیونکہ جس شخص کو قتل کیا گیا، اس میں ذوالفقار علی بھٹو مرکزی ملزم نہیں تھے لیکن اُن پر سازش کا الزام لگایا گیا تھا، گو بعد میں بھٹو کی پھانسی کو ’عدالتی قتل‘ کہا گیا۔ یہاں بھی مقدمہ درج ہوگا چاہے متاثرہ شخص کچھ بھی کہے۔ اگر متاثرہ شخص الزام ثابت نہ کرسکے تو اُس کے خلاف کارروائی کے لیے قانون موجود ہے۔ ایک مقدمہ 2014ء میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا جو لاپتا ہونے والے افراد کے حوالے سے تھا۔ متاثرین نے حساس ادارے کے ایک ملازم پر الزام لگایا تھا جس پر مقدمہ درج کیا گیا، لیکن مقدمہ درج کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا۔ اس مقدمے میں اُس وقت کے اٹارنی جنرل اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملٹری قوانین کے مطابق آرمی کے اہلکاروں پر قانون کے مطابق کیس درج ہوسکتا ہے۔ مقدمے کے بینچ میں شامل جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کے اہلکاروں پر مقدمہ درج ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مقدمہ فوجی عدالت میں سنا جائے گا یا سول عدالت میں؟ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ کسی بھی فوجی کو جس پر مقدمہ درج کیا گیا ہو، سول پولیس سے ملٹری پولیس کو حوالے کرنے کا باقاعدہ قانون بنانا چاہیے۔ ہماری سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ حکومتوں میں رہنے والے ہمارے بیشتر سیاست دان بھی قانون سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اس کیس میں عدالت نے کہا تھا ’’سول پولیس سے آرمی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی ملزم کو حوالے کرنے کا ایک ٹھوس ثبوت بھی ہونا چاہیے‘‘۔ قانونی طور پر متاثرہ شخص یا اس کی فیملی یا کوئی بھی شخص، جس کا مقدمے سے کسی طرح کاتعلق ہو ایف آئی آر درج کرا سکتا ہے، اور پولیس جتنا جلدی ہوسکے مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔ اگر کسی وجہ سے پولیس مقدمہ درج نہیں کرتی تو متاثرہ شخص کرمنل پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 22(A)کے تحت عدالت میں درخواست جمع کرا سکتا ہے کہ پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی۔ اس کیس میں دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی یا کسی متاثرہ شخص نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی؟ اگر درخواست نہیں دی تو اس پر سوالیہ نشان اٹھ سکتا ہے، اور اگر دی ہے لیکن پولیس مقدمہ درج نہیں کررہی تو پھر پی ٹی آئی ابھی تک عدالت کیوں نہیں گئی؟ جب مقدمہ درج نہیں ہوا تو تفتیش کیسے ہوگی؟ کیونکہ تفتیش شروع کرنے کی پہلی سیڑھی ایف آئی آر ہے، اس کے بعد متاثرہ شخص اور دیگر لوگوں کا عدالت کے روبرو بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے اور کیس آگے لے جایا جاتا ہے۔ پولیس نے موقع پر موجود نوید نامی ایک حملہ آور کو پستول سمیت گرفتار کیا ہے لیکن کچھ ایسے سوالات سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آور محض ایک نہیں تھا، تاہم پولیس نے واقعے کا سارا ارتکاز ملزم نوید پر رکھا۔ عمران خان کا کنٹینر سیل کردیا گیا اور تحقیقاتی ٹیموں نے وہاں سے شواہد اکٹھے کیے۔

ملک میں قانونی حلقوں نے اس بات کو شدت سے اٹھایا ہے کہ حملہ آور نوید کا ویڈیو بیان کیوں اور کیسے جاری ہوا؟ جس میں اس نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف عمران خان کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا تھا اور اسے وہاں کسی نے نہیں بھیجا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعے پر متعلقہ تھانے کا پورا عملہ معطل کردیا۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ عمران خان پر سوچا سمجھا قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے، تحریک انصاف کے ایک راہنما اعجاز چودھری نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ میں نے واقعے سے ایک روز پہلے ٹیلی فون پر احمد چٹھہ کو بتایا تھا کہ وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوگا، اس اطلاع کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب انتظامیہ (جہاں پی ٹی آئی ہی کی حکومت قائم ہے) فوری کارروائی عمل میں لاتی تاکہ یہ خطرناک واردات رونما ہی نہ ہوتی۔ اس سے سیکیوریٹی کے ناقص انتظامات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ آنے والے دنوں میں سیاسی تصادم میں جو شدت آتی دکھائی دے رہی ہے یہ ملک کو کسی بھی صورتِ حال سے دوچار کرسکتی ہے۔