ہجرتِ حبشہ۔ دعوتی و سیاسی تناظر میں

اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے پہلی ہجرت رجب 5 نبوی میں حضرت عثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں حبشہ کی جانب کی۔ یہ قافلہ 11 یا 12 مردوں اور 4 عورتوں پر مشتمل تھا۔

دوسری بار مسلمانوں کا جو قافلہ حبشہ کو روانہ ہوا، اس کے سردار حضرت جعفر بن ابی طالبؓ تھے، اور آدمیوں کی تعداد عمار بنؓ یاسر سمیت 38 تھی۔ ان لوگوں کے حبشہ پہنچتے ہی قریش کا ایک وفد بھی نجاشی کے دربار میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ہمارے کچھ مجرمین آپ کے ملک میں بھاگ آئے ہیں، ان کو گرفتار کرکے ہمارے حوالے کیا جائے۔

نجاشی نے مسلمانوں کو بلاکر ان سے ان کا عذر پوچھا تو حضرت جعفرؓ نے ایک نہایت بلیغ تقریر کی، جس کے نتیجے میں قریش کی سفارت بالکل ناکام رہی۔ نہ صرف یہ کہ قریش کی سفارت ناکام رہی بلکہ مہاجرینِ حبشہ کے ذریعے اسلام کا پیغام ایک نئے علاقے میں جا پہنچا، جس سے متاثر ہوکر وہاں سے 20 افراد پر مشتمل عیسائیوں کا ایک وفد مکہ آیا۔ یہ لوگ مسجدالحرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، بیٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قرآن سنایا اور دعوتِ حق پیش کی۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ توحید کی دعوت کو قبول کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔

ہجرتِ حبشہ کا ذکر سیرت کی تمام کتابوں میں ملتا ہے، لیکن ہجرتِ حبشہ کے دعوتی اور سیاسی پہلوئوں پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ پیش ِ نظر کتاب ”ہجرتِ حبشہ۔ دعوتی و سیاسی تناظر میں“ ڈاکٹر حافظ امجد حسین بندیشہ کا درجِ ذیل چار ابواب پر مشتمل ایم۔ فل کا مقالہ ہے:

1۔ حبشہ اور اہلِ عرب تاریخ کے آئینے میں
2۔ ہجرتِ حبشہ اور مہاجرینِ حبشہ
3۔ ہجرتِ حبشہ کا دعوتی مطالعہ
4۔ ہجرتِ حبشہ کا سیاسی مطالعہ

اس کتاب میں نجاشی کے تفصیلی احوال، ہجرت سے پہلے حبشہ کے حکمران، عربوں کے اہلِ حبشہ سے تجارتی و مذہبی تعلقات، ہجرتِ حبشہ کے اسباب و واقعات اور مہاجرین کی واپسی، نیز مہاجرین و مہاجرات، مہاجر بچوں اور حبشہ میں پیدا ہونے والوں کا مختصر تعارف اور6 ہجری میں حبشہ میں موجود مسلمانوں کی تعداد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں نتائج و سفارشات کے تحت مطالعہ ہجرتِ حبشہ سے ماخوذ اہم دعوتی و سیاسی پہلو اور نتائج و سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

معروف سیرت نگار اور محقق ڈاکٹر حافظ محمد سجاد (صدر شعبہ مطالعات بین المذاہب، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد) رقم طراز ہیں:

”بیسویں صدی عیسوی میں سیرت نگاری میں جو جدید جہات متعارف ہوئی ہیں ان میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں جزئیات نگاری بھی ہے، یعنی سیرتِ طیبہ کے کسی بھی واقعے یا گوشے کو اس طرح نمایاں اور واضح کیا جائے کہ اس کے ہر پہلو اور جوانب سامنے آجائیں، اس کے ساتھ عصری مسائل کے حل میں اس واقعے کی اہمیت و معنویت واضح ہوجائے، اور مسائل کے حل کے لیے اس واقعے سے استشہاد و استنباط کیا جاسکے۔ ہجرتِ حبشہ کے حوالے سے عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں اب بڑا قیمتی مواد جمع ہوگیا ہے، تاہم حافظ صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ اردو زبان میں ان کا یہ تحقیقی کام پہلی بار منظرِعام پر آرہا ہے۔ پیش کردہ تحقیقی کام سیرتِ طیبہ کے مکی عہدِ نبوت کے اہم گوشوں کو پیش کررہا ہے اور مطالعہ سیرت کی کئی نئی جہات سامنے آرہی ہے۔“

فاضل مقالہ نگار ڈاکٹر حافظ امجد حسین بندیشہ، گورنمنٹ کالج سمندری میں بحیثیت استاد اسلامیات اور وائس پرنسپل خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حدیث، فقہ، سیرت اور تاریخ میں خاصا درک رکھتے ہیں۔ انھوں نے بڑی محنت، لگن اور جستجو کے ساتھ سیرت اور احادیث کے بنیادی مصادر سے اخذ و استفادہ کرتے ہوئے جز جز اور ذرہ ذرہ جمع کرکے اس اہم موضوع پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے اور موضوعِ تحقیق کے تمام پہلوئوں کا بحسن و خوبی احاطہ کرتے ہوئے غیر مسلم ریاستوں میں بسنے والی مسلم اقلیتوں اور داعیانِ اسلام کے لیے ہجرتِ حبشہ کی روشنی میں قابلِ عمل دعوتی و سیاسی راہنما اصولوں کا استخراج کیا ہے۔ اس عمدہ تحقیقی مقالے کی اشاعت پر فاضل مقالہ نگار لائقِ تحسین و قابلِ صد مبارک باد ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین