اقبال دیدۂ بینائے قوم

خوبی قسمت سے ڈاکٹر تحسین فراقی اپنے تحقیقی و تنقیدی مضامین سے جو بجا مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوچکے ہیں، بے اعتنائی نہیں برتتے، اسی لئے اب تک ان کے مضامین کے کئی مجموعے سامنے آچکے ہیں۔ آپ وقتاً فوقتاً ان پر نظرثانی کرتے رہتے ہیں۔ آپ کے مضامین محض مضامین نہیں ہیں بلکہ مقالات کہلائے جانے کے قابل ہیں۔ آپ تنقیدی مقالات میں بھی تحقیقی انداز اپناتے ہیں۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبان و ادب کی گہری واقفیت کی بنا پر آپ کے تجزیے بہت جاندار ہوتے ہیں۔ آپ کا طرز تحریر مدلل ہوتا ہے، آپ کا انداز بیاں سہل اور رواں ہے۔ اوق الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں، اسی لئے آپ کی تحریر پڑھتے ہوئے لغت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس بر قدر اول کا اطلاق ہوتا ہے۔ج آپ کے مقالات فارسی اور انگریزی اقتباسات سے مزین ہوتے ہیں، بعض جگہ آپ انگریزی متن کا اردو ترجمہ بھی کردیتے ہیں۔ آپ کے حواشی بھی بہت معلومات افزا ہوتے ہیں۔ نہ صرف مبتدی بلکہ محقق بھی آپ کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

اقبال کے حوالے سے قبل ازیں آپ کی ایک کتاب’’اقبال چند نئے مباحث‘‘ بھی منصہ شہود پر آچکی ہے۔ مثنوی لیس چہ باید کرد کو آپ نے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ Bed: I in the light of Bergosan کی تدوین بھی آپ کا کارنامہ ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اقبال دیدۂ بینائے قوم‘‘ اقبال پر لکھے گئے قابل قدر مضامین کا مجموعہ ہے۔ آپ کی تحریریں شاہد ہیں کہ آپ نے اقبال کا بہ دقت نظر مطالعہ کیا ہے۔

کتاب کے عنوان ’’اقبال دیدۂ بینائے قوم‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ فراقی صاحب اقبال کی تراکیب کو نثر میں بلاتکلف استعمال کرنے پر قادر ہیں جیسا کہ آپ کے مقالات سے داخلی شہادت ملتی ہے۔ کتاب ہذا میں کل گیارہ مقالات ہیں جن میں سے ہر مقالہ اپنی جگہ اہم ہے۔
’’ایران میں اقبال شناسی کے دس سال‘‘ نامی مقالے میں آپ نے اہل ایران کی اقبال فہمی کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس ضمن میں اہل ایران کی بعض اغلاط کی نشاندہی بھی آپ نے کی ہے۔

’’بانگ درا‘‘ کا پہلا مکمل انگریزی ترجمہ میں آ نے اے کے خلیل کی کتاب Call of the marching bellکا جائزہ لیا ہے۔ اس ترجمہ میں بعض اغلاط بھی راہ پاگئی ہیں جن کی نشاندہی آپ نے کی ہے۔ ’’کلیات باقیات شعر اقبال ایک تجزیہ‘‘ میں آپ نے ڈاکٹر صابر کلوروی کی تحقیق کا جائزہ لیا ہے۔ کلوروی صاحب کی تحقیق بہت اہم ہے، کیونکہ انہوں نے اقبال کی بیاضوں، ڈائریوں، کاغذات اور اخبار و رسائل سے غیر متعداولہ کلام اقبال یکجا کیا ہے جو مطبوعہ کلیات اقبال میں شامل نہیں ہے۔ ایسی تحقیق کا تجزیہ کرنا بجائے خود ایک کار تحقیق ہے جس سے فراقی صاحب بخوبی عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ کسی بھی انسانی کام میں کمی بیشی رہنے کا امکان ہوتا ہے اسی طرح اس کتاب میں بعض دیگر شعرا کا کلام بھی اقبال سے منسوب ہوگیا تھا۔ بعض اشعار ایک سے زائد جگہ بھی موجود تھے۔ ان سب باتوں پر فراقی صاحب نے فاضل محقق کی کتاب پر بجا تنقید کی ہے۔ ’’اقبال کے شعر و فلسفہ پر رومی کے اثرات‘‘ بہت اہم مقالہ ہے۔ اس بات کی صراحت بھی ضروری ہے کہ اقبال خود کو مثیل رومی کہتے تھے۔ قرآن مجید کے بعد مثنوی معنوی سے آپ نے بہت اثر قبول کیا۔ ان تمام پہلوئوں پر آپ نے خامہ فرسائی کی ہے۔

ہر مقالہ اپنی جگہ مکمل ہے، جس موضوع پر بھی فراقی صاحب نے قلم اٹھایا ہے لکھنے کا ادا کردیا ہے، کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ کتاب اس لائق ہے کہ ہر باذوق شخص اس کا مطالعہ کرے اور یہ ہر لائبریری کی زینت بنے۔