بلوچستان میں جاری سیاسی کھیل جام کمال کی اسمبلی آمد

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان ماہ اکتوبر کے پہلے عشرے میں کوئٹہ آئے، کچھ دن مقیم رہے اور اسمبلی اجلاس میں شرکت کی۔ جام کمال کی آمد نے عبدالقدوس بزنجو، ہمنوائوں اور سیاسی پشتیبانوں کے اوسان خطا کردیے۔ جمعیت علمائے اسلام اور عبدالقدوس بزنجو کی بن نہیں سکی ہے۔ جے یو آئی یقیناً حکومت میں زیادہ حصے پر مُصر تھی جو دینا بوجوہ عبدالقدوس بزنجو کے لیے آسان نہ تھا۔ اس بات چیت کے دوران کابینہ کے کئی ارکان وہم و تردد کا شکار رہے کہ کہیں جے یو آئی سے بات بننے کی صورت میں ان کا کابینہ سے اخراج نہ ہوجائے۔ جے یو آئی بلوچستان کے امیر نے جو وفاقی وزیر ہائوسنگ اینڈ ورکس بھی ہیں، آخرکار 10 اکتوبر کو کھل کر گفتگو کی اور کہا کہ عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش جے یو آئی کے شایانِ شان نہیں۔ مولانا نے پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے حزبِ اختلاف میں بھرپور کردار ادا کرنے کا کہا۔ جب بات نہ بنی تو مولانا نے یہ بھی کہا کہ انہیں توقع نہیں کہ اس حکومت میں جے یو آئی اپنا کردار ادا کرسکے گی۔ دلیل حکومت میں شامل ہونے کی خواہش کی یہ دی گئی کہ جے یو آئی چاہ رہی تھی کہ حکومت کا باقی ماندہ عرصہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی خدمت و مدد کی جاسکے ۔ نیز عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں شمولیت کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ میں وہی اسلامی نظام کا نفاذ، صوبے میں قاضی عدالتیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات مدنظر رکھنا وغیرہ بھی شامل تھا، جیسے جے یوآئی پہلے کبھی حکومت میں رہی نہ ہو۔ دراصل بات کابینہ میں بڑے حصے کے تقاضے کی وجہ سے آگے نہیٖں بڑھ سکی ہے۔ پیش نظر اگر واقعی اسلامی نظام، قاضی عدالتیں وغیرہ ہوتیں تو اس کے لیے بدیہی طور پر جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی بھاگ دوڑ موقع تھا۔ تحریک انصاف کے بااثر افراد اور عبدالقدوس بزنجو وغیرہ کے سامنے یہ مطالبات رکھے جاتے، تب اُن کو ارکانِ اسمبلی کی حمایت کی بہرحال اشد ضرورت تھی، جن کے کہنے اور اشارے پر یہ سب کئی دنوں تک کلی الماس فارم ہائوس میں مقیم رہے۔ اور اس عرصے میں طرح طرح کی محفلیں ان کی موجودگی میں سجائی جاتی رہیں۔ اب انہیں صوبے کے اندر جاری کشمکش، غیر یقینی کیفیت، خراب گورننس، اسامیوں کی فروخت یاد آئی ہے۔ کہا کہ خامیوں اور برائیوں کی نشاندہی کی جائے گی، مگراب تک نشاندہی بھی نہیں کرسکی ہے۔ گویا اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے کردار کی ادائی اب محض دعوے اور سیاسی ملمع کاری کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھا جائے تو اسمبلی میں وہی ’’سب کچھ ٹھیک‘‘ اور تضادات کی سیاست چل رہی ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ جام کے خلاف عدم اعتماد لاکر برائیاں جنم لیں گی۔ صوبے کے اندر حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے سرکار میں شمولیت کی یہ روایت جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے رکھی ہے۔ مولانا عبدالواسع نے بی این پی پر بھی جملہ کسا کہ ان کے اراکین اسمبلی عبدالقدوس کے بیڈ روم تک رسائی رکھتے ہیں۔ حالاں کہ یہ رسائی جے یو آئی کے ارکانِ اسمبلی کو بھی حاصل ہے جو آج کے دن تک بزنجو سے شیر و شکر ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ہوتے ہوئے آئے روز مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے والے ملازمین شاہراہوں اور اسمبلی عمارت کے سامنے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ آئے روز پولیس کو مظاہرین کو گاڑیوں میں ٹھونس کر تھانوں میں بند کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ جام کمال دور میں ایسے کسی بھی احتجاج میں جے یو آئی اور بی این پی عملاً شریک ہوجایا کرتی تھیں، یہاں تک کہ 18 جون2021ء کو بجٹ اجلاس کے موقع پر پُرتشدد احتجاج کی مثال بھی قائم کردی، اسمبلی کے داخلی دروازوں کو تالے لگادیے، جام کمال پر جوتے اور پانی کی بوتلوں کے وار کیے۔ پولیس نے مین گیٹ بکتربند گاڑی سے توڑا تو اس کے بعد یہ بجلی روڈ تھانہ گرفتاری دینے پہنچ گئے۔ کئی دن تھانے میں ماحول بنائے رکھا۔ اس سارے سیاسی کھیل تماشے میں عبدالقدوس بزنجو شریک تھے۔ ایسا وہ اسمبلی کے اسپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر کررہے تھے، اور پھر اسی منصب پر بیٹھے عدم اعتماد کی تحریک کی کھلم کھلا لابنگ کرتے رہے۔ کسی مجاز ادارے نے نہ پوچھا کہ اسمبلی اسپیکر کس قانون کے تحت حکومت مخالف لابنگ اور رابطوں کا حصہ بن سکتا ہے! حیرت ہے کہ صوبے میں پی ڈی ایم کی جماعتوں نے تحریک انصاف کی حامی حکومت بنانے میں ہر طرح سے ساتھ دیا۔ جام کمال خان کے خلاف وہ لوگ متحرک تھے جو تحریک انصاف کی پشت پر تھے۔ پیسوں کی ریل پیل ہوئی، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس دوران رابطہ کار کا کردار ادا کیا۔ سردار اختر مینگل صادق سنجرانی کے اب بھی وکیل بنے ہوئے ہیں اور اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے مخالف ہیں۔ وہ یہاں تک حامی ہیں کہ باقی جماعتوں کو بھی باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قیمتی تحائف کا دور دورہ ہے۔ کسی کو پروا نہیں کہ صوبے کی حکومت کن ابتر حالات سے دوچار ہے اور صوبے میں نظام اور جمہوریت کس قدر بدنما ہوچکی ہے۔ زیر زمین معدنیات کے معاہدوں میں شراکت داری ہورہی ہے۔ بقول جام کمال کے، بلوچستان میں معدنی لیز ایک موبائل فون سے بھی سستی اور آسان ہے۔ یہ بات جام کمال نے لسبیلہ کے ساحلی علاقوں میں مائننگ کے نام پر زمینوں کی الاٹمنٹ کے پس منظر میں کہی۔ لشکری رئیسانی کہا کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ265 پرقاسم سوری کے خلاف ان کی پٹیشن میں بی این پی اور پی ڈی ایم نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ 52ہزار ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے پر الیکشن ٹریبونل بلوچستان نے قاسم سوری کی کامیابی کو کالعدم قرار دیا تھا، وہ آخر تک سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے سبب رکن اسمبلی رہے۔ گویا لشکری رئیسانی کا شکوہ ظاہر کرتا ہے کہ اُن کی جماعت کو قاسم سوری کا رکن اسمبلی برقرار رہنا ہی مقصود تھا۔

بہرکیف جام کمال10 اکتوبر کو مولانا عبدالواسع کی رہائش گاہ گئے۔ 2021ء کے بجٹ اجلاس میں پیش آنے والے واقعے جس میں جے یو آئی کے رکن اسمبلی واحد صدیقی کا بازو فریکچر ہوا تھا، پر معذرت کی۔ اسمبلی گیٹ بکتربند گاڑی کے ذریعے توڑنا اور اراکین کے لیے اندر جانے کا راستہ صاف کرانا آئی جی پولیس محمد طاہر رائے کے حکم پر ہوا تھا، اس بات کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں۔ اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں کے سامنے بھی اس بات کا اظہار کیا جنہیںعشائیے پر مدعو کیا تھا۔ سلیم شاہد، شہزادہ ذوالفقار احمد زئی، نسیم حمید یوسف زئی، نورالٰہی بگٹی، عرفان سعید، افضل مغل، رشید بلوچ اور دوسرے صحافیوں کی موجودگی میں راقم کے پوچھنے پر محمد طاہر رائے نے کہا کہ گیٹ توڑنے کا حکم انہوں نے دیا تھا

تاکہ راستہ کھلے اور اراکین اسمبلی بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے اندر جاسکیں۔ انہوں نے یہ بات تب کہی جب عبدالقدوس بزنجو وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آئی جی پولیس محمد طاہر رائے صاف اور کھرے افسر تھے، جنہوں نے قانون اور اس پر عمل درآمد مقدم رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ جام کمال خان کے بعد بننے والی حکومت نے ترجیحی بنیاد پر اُن کا تبادلہ کرادیا۔ یہ پوچھنے اور تحقیقات کی باتیں ہیں کہ آئی جی محمد طاہر رائے کا تبادلہ کن وجوہات کی بنا پر کرایا گیا؟ یہ بھی بازپرس کا متقاضی معاملہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے چیف سیکریٹری مطہر نیاز رانا کے تبادلے کی کہانی کیا ہے؟ مطہر نیاز رانا نے کن کن چیزوں پر گرفت کر رکھی تھی؟