جلیس سلاسل اردو صحافت کے مردِ میدان ہیں اور عرصۂ دراز سے جذبۂ حب الوطنی اور صحافتی تقاضے کے تحت محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی شخصیت اور کارناموں پر متعدد کتابوں اور مضامین کے ذریعے بھرپور روشنی ڈالتے رہے ہیں، اورڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کی قومی، سائنسی اور فلاحی خدمات کو اجاگر کرکے خراجِ تحسین پیش کرتے رہے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی پہلی برسی کے موقع پر قومی اہمیت کے ایک اہم پہلو اور دشمنانِ پاکستان اور ناعاقبت اندیش فوجی حکمراں اور امریکی کاسہ لیس جنرل پرویزمشرف جنہوں نے ایک سازش کے تحت اقتدار پر قبضہ کرکے پاکستان کے قومی تشخص اور محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی خدمات اور کارناموں کو سراہنے کے بجائے ان کی شخصیت اور کارناموں کی نفی کرنے اور دشمنانِ اسلام اور پاکستان کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور ڈاکٹر صاحب موصوف کی گرفتاری اور مستقل نظربندی کا اہتمام کیا، اور ڈاکٹر صاحب کی حب الوطنی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں قوم کی خاطر مجبور کرکے بہتان تراشی پر مبنی اور پہلے سے تیار شدہ ایک جھوٹا اعترافی بیان نشر کرنے کا اہتمام کیا، اور انکل سام کی غلامی میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ قومی مفادات، تشخص اور فخر کو پیروں تلے روند ڈالا، اور پاکستان کے محسن کو ہیروں اور جواہرات میں تولنے کے بجائے اپنے آقا اور انسانیت دشمن متحدہ ہائے امریکہ کے احکام کی بجاآوری کی خاطر محسن کُشی کرتے ہوئے نہ صرف محسنِ پاکستان کو جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی تحفظ فراہم کرکے ناقابلِ تسخیر مملکت بنادیا تھا، ذہنی اور جسمانی اذیتوں میں مبتلا کیا بلکہ قید و بند اور سلاسل اور بیڑیوں کا تحفہ دیا۔ جبکہ اس کے برخلاف پاکستان اور مسلمانوں کے کٹر دشمن ملک بھارت کے حکمرانوں نے بھارت کو ایٹمی قوت بنانے والے مسلمان سائنس دان عبدالکلام کو اپنے ملک کا سب سے بڑا اعزاز دینے کے ساتھ ساتھ ان کو صدارتی منصب بھی عطا کیا تھا۔
جلیس سلاسل نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں مرحوم سے ان کی حیات میں وعدہ کیا تھا کہ ان کی شخصیت پر لگائے گئے جھوٹے الزامات اور بہتان تراشی پر بھرپور جوابات تحقیق کرکے مستند اور مصدقہ حوالوں کے ساتھ کتابی شکل میں پیش کریں گے۔ ’’اظہارِ تشکر‘‘ کے عنوان سے انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کیے گئے اس وعدے کو ان کی خواہش اور حکم سمجھتے ہوئے پورا کرنے کا جو عہد کیا تھا، وہ ڈاکٹر صاحب کی حیات میں تو پورا نہ ہوسکا مگر ان کی پہلی برسی (10 اکتوبر 2022ء) کو یہ وعدہ وفا ہوگیا اور زیرنظر ضخیم کتاب مستند حوالوں، حواشی و تحقیقی مواد کے ساتھ شائع ہوگئی۔
زیرتبصرہ کتاب کا دیباچہ/ مقدمہ معروف معلم اور سینئر صحافی پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد زبیری نے سپردِ قرطاس کیا ہے۔
جلیس سلاسل نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لیے گئے پہلے انٹرویو کی داستان بھی تحریر کی ہے جس پر پابندی عائد کردی گئی تھی، یہ انٹرویو بہت مشہور ہوا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کے جس انٹرویو پر پابندی لگائی گئی تھی اس میں ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال جلیس سلاسل نے یہ بھی پوچھا تھا کہ بھارتی وزیراعلیٰ اور سابق چیئرمین بھارتی ایٹمی توانائی کمیشن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ بھارت ایٹمی ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں پاکستان سے آگے ہے، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ڈاکٹر سیٹھنا اور بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے بیانات کہ بھارتی ایٹمی پروگرام پاکستان سے بہت آگے ہے، غلط ہے۔ انہوں نے اپنے عوام کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ گھڑا ہے تاکہ ان کے حوصلے پست نہ ہوں، جبکہ اٹل حقیقت یہ ہے کہ یورینیم کی افزودگی کی ٹیکنالوجی میں نہ صرف یہ کہ ہمیں موثر کامیابی حاصل ہوئی ہے بلکہ ہم نے بھارت کو کئی سال پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور جب کوئی ملک یہ دسترس حاصل کرلیتا ہے تو وہ ایٹم بم تو کیا ہائیڈروجن بم بھی بناسکتا ہے، لیکن ہمارا ایٹمی پروگرام فقط پُرامن مقاصد کے لیے ہے جو ہمارے آئندہ برسوں کی توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔
یہ انٹرویو آل انڈیا ریڈیو سے بھی نشر ہوگیا جس سے بھارت کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے فوری طور پر ڈاکٹر سیٹھنا کو طلب کرکے حکم دیا کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے دعوے اور بھارتی ایٹمی پوزیشن کے بارے میں ان کے بیان کا جواب دیں۔ اس پر ڈاکٹر سیٹھنا نے کہا کہ یہ دعویٰ جس ڈائجسٹ میں شائع ہوا ہے اس کا مطالعہ کرکے ہی اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنے وزیر خارجہ کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر اس ڈائجسٹ کو حاصل کرکے ہمیں فراہم کریں۔ بھارت کے وزیر خارجہ نے پاکستان میں اپنے سفیر کو حکم دیا کہ یہ ڈائجسٹ حاصل کرکے فراہم کریں۔ انہوں نے لاہور کے روزنامہ امروز کے مدیر سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بھارتی سفیر کو بتایا کہ یہ خبر ہمارے کراچی کے نمائندے نے ہمیں بھیجی تھی۔ ہمیں مذکورہ ڈائجسٹ نہیں ملا۔ جلیس سلاسل کا کہنا تھا کہ مجھے پریشانی یہ تھی کہ سندھ کے کسی اخبار نے یہ انٹرویو نہیں چھاپا تھا کیونکہ وفاقی حکومت نے ڈاکٹر موصوف کے انٹرویو چھاپنے پر کڑی پابندی عائد کررکھی تھی۔
جلیس سلاسل کا کہنا ہے کہ اس پریشانی میں مجھے یاد آیا کہ جب میں جسارت میں عالمی اسلامی ڈائجسٹ میں شائع شدہ ڈاکٹر صاحب کا انٹرویو والا شمارہ دینے گیا تھا تو جسارت کے مدیر جناب عبدالکریم عابد ایک ہفتے کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے۔ یہ بات ان کے علم میں نہیں تھی کہ حکومتِ سندھ نے ڈاکٹر صاحب کے انٹرویو کی اشاعت پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ میں عبدالکریم عابد صاحب کے گھر گیا، وہ ابھی لاہور نہیں گئے تھے، ان کی فیملی لاہور جاچکی تھی۔ میں نے انہیں عالمی اسلامی ڈائجسٹ کا ڈاکٹر صاحب کے انٹرویو والا رسالہ دیا اور درخواست کی کہ اس انٹرویو کو خبر کی صورت میں شائع کردیں۔ انہوں نے انٹرویو پر ایک نظر ڈالی اور کہا کہ رات کو یہ پرچہ لے کر جسارت آجائو، اہم انٹرویو ہے اسی وقت خبربنوا کر شائع کرادوں گا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، اور دوسرے روز صبح چار کالمی سرخی اور کئی ذیلی سرخیوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا تفصیلی انٹرویو میرے نام اور عالمی اسلامی ڈائجسٹ کے حوالے سے شائع ہوا جس کی سرخی یہ تھی ’’پاکستان اب ہائیڈروجن بم بھی بناسکتا ہے‘‘۔ اس خبر کے نمایاں طور پر شائع ہونے سے میرا سیروں خون بڑھ گیا اور مجھے اپنے 900 شمارے ضبط ہونے کے نقصان کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ ڈان اخبار نے اس خبر کا انگریزی میں ترجمہ کراکر اپنے شام کے اخبار Daily Star میں صفحہ اول پر آٹھ کالمی سرخی کے ساتھ اس انٹرویو کو شائع کیا۔
چند روز بعد محترم استاد عبدالکریم عابد صاحب نے مجھے ٹیلی فون کرکے مطلع کیا کہ ہندوستانی قونصل جنرل نے مجھے ٹیلی فون کرکے بلوایا اور تمہارا پتا معلوم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ بھارتی حکومت جلیس سلاسل کو دعوت دینا چاہتی ہے کہ وہ ہمارے ایٹمی پلانٹ کا دورہ کریں اور ہم ان کو بتائیں گے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا دعویٰ غلط ہے۔ ہم نے انہیں تمہارا پتا نہیں دیا بلکہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں جلیس سلاسل کی طرف سے یہ شمارہ موصول ہوا تھا جس میں ڈاکٹر قدیر کا یہ انٹرویو شائع ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی سختی سے منع کیا کہ میں ان سے کسی قیمت پر بھی نہ ملوں کیونکہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، تمہاری جان کو خطرہ ہے اور وہ کوشش کریں گے کہ کسی طرح کہوٹہ کے بارے میں ساری تفصیلات معلوم کرلیں۔
بھارت کے سابق وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کے دورِ حکومت میں 1987ء کے آغاز میں را کے ایک انتہائی قریبی رابطے نے را کو اطلاع دی کہ اس نے پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کے مکمل اسکیچ حاصل کرنے کا بندوبست کرلیا ہے، اورا س راز کے عوض دس ہزار ڈالر مانگے گئے ہیں۔ را کے ڈائریکٹر سوکھ سنگھ نے جب وزیراعظم ڈیسائی سے اس سلسلے میں رابطہ کیا توڈیسائی نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی غلط کام کے لیے اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتا۔
اداکار راحت کاظمی نے ایک معروف سیاستدان کی سرپرستی میں ڈاکٹر موصوف کے خلاف کراچی میں ایک ڈرامہ اسٹیج کیا، اس اطلاع پر ایوان صدر سے محکمہ اطلاعات کی جواب طلبی ہوئی اور ڈرامے پر پابندی عائد کردی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف ڈرامے کی سازش میں پس پردہ سب سے اہم کردار ایک سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور معروف سیاستدان جو آئی جے آئی کے رہنما بھی تھے، نے ادا کیا تھا۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب نے (بقول جلیس سلاسل) ان کو ایک خط میں بھی تحریر کی تھی۔ اس ڈرامے پر پابندی پر ڈاکٹر صاحب نے جلیس سلاسل کو شکریہ کا خط بھی لکھا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف سازشیں ابتدا سے ہی شروع ہوگئی تھیں، اس کارنامے کا سہرا ان سے چھیننے کے لیے ایٹمی توانائی کمیشن کے سربرہا کے علاوہ بھی کئی لوگوں کو ’’ہیرو‘‘ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ ایٹمی دھماکے کے بائیس سال بعد یوم تکبیر 28 مئی 2020ء کو ایک خصوصی فیچر شائع کیا گیا۔ اس فیچر میں ثمر مبارک مند کو ایٹمی دھماکے کے وقت ہیرو بنانے کی جو ناکام کوشش کی گئی تھی، اسے حقیقت ثابت کیا جائے۔ جلیس سلاسل نے ڈاکٹر صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کا جواب دیں گے۔
جلیس سلاسل کا کہنا ہے کہ بھرپور کوشش اور جدوجہد کے بعد ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا وہ انٹرویو بھی مل گیا جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خاں عطیۂ خداوندی ہیں اور محسن پاکستان ہیں‘‘۔ ستمبر 2021ء میں ڈاکٹر صاحب کو اس کامیابی کی اطلاع دے دی گئی اور عرض کیا گیا کہ اِن شاء اللہ کتاب اس سال ضرور شائع ہوجائے گی لیکن اس کا پیش لفظ آپ لکھیں گے۔
مذکورہ کتاب بہت اہم دستاویزی ثبوتوں کی حامل ہے جس میں پاکستانی حاسد اور غیرملکی کاسہ لیس صحافیوں اورغداروں کے بارے میں خاصی معلومات فراہم کی گئی ہیں اور حوالوں اور حواشی کے ذریعے اور اہم بیانات اور واقعات اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ مصنف کی ملاقاتوں، انٹرویو اور خط کتابت کے ذریعے ٹھوس ثبوت اور گواہیاں پیش کی گئی ہیں، جس سے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی شخصیت اور کارنامے مزید روشن اور واضح ہوکر محب وطن پاکستانیوں کے لیے فرطِ مسرت کا سبب بنے۔
یہ اہم کتاب 432 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 16 تصاویر بھی ہیں جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی نادر تصاویر اور مصنف کے ساتھ ان کے روابط پر بھرپور روشنی پڑتی ہے۔
خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ الجلیس پبلشرز نے یہ کتاب شائع کی ہے، البتہ حروف چینی (Proofreading) کی طرف خاطرہ خواہ توجہ نہیں دی گئی، جبکہ یہ کتاب ایک اہم دستاویز ہے اور ہر محب وطن پاکستانی کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔