جنگ پر بے تحاشا اخراجات نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید اقتصادی مشکلات میں مبتلا کردیا ہے
یوکرین روس جنگ نویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ جب 24 فروری کو صدر پیوٹن نے طبلِ جنگ بجایا اُس وقت ان کے جرنیلوں کا خیال تھا کہ عسکری کارروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائے گی۔ جنگ کے ابتدائی ایام میں لگ بھی کچھ ایسا ہی رہا تھا۔ روسی افواج نے جارحانہ پیش قدمی کرکے جنوب مشرقی یوکرین کے بڑے حصے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ دنباس (Donbas)کے نام سے مشہور اس علاقے کے دو صوبوں یعنی دینیاتسک (Donetsk)اور لوہانسک (Luhansk) کے کچھ حصوں پر روس 2014ء میں قبضہ کرکے اپنی مرضی کی حکومت بناچکا تھا، چنانچہ پیش قدمی کرتی فوج کو ابتدائی مرحلے میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف فضا سے داغے جانے والے تباہ کن میزائلوں نے یوکرین کے دفاعی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق جنگ کے آغاز سے وسط اکتوبر تک روس نے یوکرین پر 4500 میزائل برسائے۔
جنگ شروع کرتے ہی روس نے اپنی سرحد سے متصل مشرقی یوکرین میں زاپوریژیا (Zaporizhzhia)کے جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کرلیا جو زاپوریژیا صوبے کے شہر اینرہودار (Enerhodar)میں دریائے دنیپر(Dniper)کے کنارے واقع ہے۔ سوویت دور کا یہ پلانٹ 1986ء میں مکمل ہوا تھا جس میں 6 جوہری ری ایکٹر نصب ہیں، اور پلانٹ میں بجلی پیدا کرنے کی مجموعی گنجائش 5700 میکاواٹ (MW)ہے۔ یہ یورپ کی سب سے بڑی جوہری تنصیب ہے، جبکہ گنجائش کے اعتبار سے اس کا شمار دنیا کی دس بڑی جوہری تنصیبات میں ہوتا ہے۔ چند ہی دنوں میں جوہری پلانٹ کے قریب واقع تھرمل (پن بجلی گھر) پلانٹ بھی روس کے قبضے میں آگیا۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں یوکرینی فوج کا سب سے مہلک اسلحہ ترک ساختہ ڈرون تھے۔ ان ڈرونوں کے ذریعے یوکرین نے روسی فوج کی صفوں کی پشت پر حملے کرکے ان کی رسد میں خلل ڈالا اور کئی محاذوں پر روسی کمک کے راستے مسدود ہوگئے۔ اسی کے ساتھ امریکہ نے یوکرین کو جدید ترین ہمارس (HIMARS) راکٹ فراہم کردیے۔ ہمارس راکٹ اپنے دشمن کو پچاس میل دور سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹِن نے یہ راکٹ 1990ء میں تیار کیے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے مزید مہلک اور تیر بہدف بنادیا گیا ہے۔ اس ہتھیار کی عملی آزمائش نہتے افغانوں پر کی گئی تھی۔ امریکی حملے کے آغاز پر جارح فوج کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کا طبعی جغرافیہ تھا۔ ملک کا بڑا علاقہ کوہستان پر مشتمل ہے۔ کھائیوں، غاروں اور چٹانوں کی اوٹ کو افغان جنگجو حفاظتی مورچوں کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ ان راکٹوں پر خصوصی بارودی مواد نصب کیے گئے جن کی ہلاکت خیزی کا یہ عالم تھا کہ ان کی ضرب سے بلند و بالا پہاڑوں کی مضبوط چٹانیں سُرمہ بن کر بکھر جاتی تھیں۔ لیکن چٹانوں کو رائی بنادینے والا بارود حریت پسندوں کے عزم کو پست نہ کرسکا۔ اس کے برعکس یوکرین میں ہمارس راکٹوں کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ امریکہ کے علاوہ جرمنی اور برطانیہ نے جدید ترین توپوں، زمین سے فضا میں مار کرنے والے راکٹوں اور گولہ بارود کا ڈھیر لگادیا۔
جدید ترین اسلحہ، تربیت اور زبردست مالی امداد سے، پسپا ہوتی یوکرینی فوجیں سنبھل گئیں اور ستمبر کے آخر سے زوردار جوابی حملوں کا آغاز ہوا۔ یوکرینی فوج نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے مقبوضہ Kherson,Zaporizhzhia, Luhansk, Donetsk صوبوں کے کئی علاقے روسیوں سے واپس چھین لیے۔ اس دوران روس کے ایران ساختہ ”شاہد 136“ڈرونوں نے یوکرین کے بجلی گھروں اور آب نوشی کے ذخائر کو نشانے پر رکھ لیا۔ ترک ڈرون کے مقابلے میں شاہد 136 خودکش ہیں یعنی یہ ہدف پر تباہ کن راکٹوں کے ساتھ خود بھی گرجاتے ہیں۔ اسی لیے ان سستے ”جنگی کھلونوں“ کو disposable droneکہا جاتا ہے۔ ان ڈرون حملوں میں یوکرین کے ایک تہائی کے قریب بجلی گھر تباہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ملک کا بڑا علاقہ تاریک اور پینے کے پانی کی قلت ہے۔ گزشتہ دنوں گروپ7 کی مجازی (virtual) چوٹی کانفرنس میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے شکوہ کیا کہ روس کے بمباروں اور مہلک میزائلوں سے کہیں زیادہ نقصان ہمیں شاہد ڈرونوں نے پہنچایا ہے۔ ایران جوہری منصوبے پر تعاون کے بدلے روس کو خودکش ڈرون فراہم کررہا ہے جبکہ اسرائیل روس سے تعلقات کے ہونکے میں غیر جانب دار ہے۔
امریکہ کی قومی سیکورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے الزام لگایا ہے کہ ڈرون کے ساتھ ایران نے ”قلیل تعداد“ میں سپاہی بھی مقبوضہ کریمیا بھیج دیے ہیں جو روسی افواج کو یوکرین پر ڈرون حملوں کی تربیت دے رہے ہیں۔ ایران اور روس دونوں نے امریکہ کے دعوے کو سفید جھوٹ قرار دیا ہے۔ کیا یوکرین کے خلاف ایرانی مدد کا واویلا اس کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی پیش بندی ہے؟ اگر واقعی ایرانی سپاہ کریمیا بھیجی گئی ہیں تو فرقہ وارانہ منافرت بھی خارج ازامکان نہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں سُنّی تاتار آباد ہیں جنھیں روسیوں کی جانب سے نسل کُشی کا سامنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ روس تاتار کشیدگی اب شیعہ ایران اور سنی تاتار تصادم میں تبدیل ہوجائے۔
یوکرینیوں نے تابڑ توڑ زمینی حملوں کے ساتھ روس کی زمینی اور آبی سرحدوں کے اندر بھی کئی کامیاب کارروائیاں کی ہیں، جن میں سب سے اہم روس کو کریمیا سے ملانے والے پل پر کار دھماکا ہے۔ آبنائے کرش پر تعمیر کیا جانے والا یہ پل یوکرین میں تعینات فوج کو کمک اور اسلحہ کی فراہمی کا سب سے محفوظ راستہ سمجھا جاتا ہے۔ روسیوں کے مطابق پل کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس کلیدی پُل تک رسائی بذاتِ خود یوکرینیوں کا بڑا کارنامہ ہے۔
اس واقعے کے چند ہی دن بعد یوکرینی سرحد کے قریب بیلگرود (Belgorod)چھائونی پر دھاوا بولا گیا اور روسی فوجی وردی میں ملبوس یوکرینی چھاپہ ماروں نے سپاہیوں پر اُس وقت فائرنگ کردی جب یہ جوان نشانہ بازی کی مشق کررہے تھے۔ حملے میں 11 سپاہی ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے۔
یوکرینیوں کا سب سے بڑا کارنامہ روس کے تباہ کن جہاز ایڈمرل میکرووف (Admiral Makarov) کی غرقابی ہے۔ یوکرینی بحریہ کے مطابق ایک مسلح ڈرون کشتی نے بحراسود میں مقبوضہ کریمیا کی بندرگاہ سیوسٹاپول (Sevastopol) کے قریب 409 فٹ لمبے اس میزائل بردار جہاز کو نشانہ بنایا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ڈرون کشتی ترک ساختہ تھی۔ روس نے اس واقعے کو آبی دہشت گردی قرار دیا ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکہ میں روس کے سفیر اناتولی انٹینووف (Anatoly Antonev) نے کہا کہ یوکرینی نازیوں نے بحری قزاقوں اور پیشہ ور دہشت گردوں کے تعاون سے سیوسٹاپول کی بندرگاہ پر حملہ کیا جس سے وہاں کھڑے جہازوں کو نقصان پہنچا۔ سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ دہشت گردانہ کارروائی کی امریکہ اور نیٹو کی جانب سے ”پشت پناہی“ پر بطور احتجاج روس غلہ کی فراہمی معطل کررہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ترکیہ کی کوششوں سے روس اور یوکرین نے گندم اور دوسری زرعی اجناس کی بحراسود کے راستے ترسیل شروع کی تھی۔ روسی اور یوکرینی غلے سے لدے جہازوں کو ترک بحریہ بحرِروم تک حفاظت فراہم کررہی ہے۔ بحر روم کے کنارے واقع ملکوں بلکہ ساری دنیا میں ایک بار پھر گندم، جوار، مکئی اور دوسرے دانے مہنگے اور نایاب ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
ایک ہفتے کے دوران روسی فضائیہ کے دو بمبار طیارے تربیتی پرواز کے دوران رہائشی عمارتوں پر گرکر تباہ ہوگئے۔ بہت سے عسکری تجزیہ نگار ان حادثات کو روسی فوج کی تھکاوٹ اور کم حوصلگی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ شدید بمباری کے باوجود زمین پر روسی فوج کی کارکردگی بہت اچھی نہیں۔ دوسری جانب امریکہ اور نیٹو، یوکرین کے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کے جتن کررہے ہیں۔ صدر پیوٹن کے جرنیلوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یوکرین فضائی اور میزائل حملوں کو غیر موثر کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ روس کا دوسرا افغانستان بن جائے گا۔
یوکرینیوں کی بے مثال مزاحمت ہے تو قابلِ تعریف… لیکن امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے۔ اب تک امریکہ بہادر اس جنگ میں 51.92ارب ڈالر پھونک چکے ہیں، جبکہ یورپی اعانت کا حجم 16.24 ارب ڈالر ہے۔ جہاں تک یوکرین کے مالی نقصان کا تعلق ہے تو عالمی بینک نے ستمبر کے آخر تک اس کا تخمینہ 348ارب ڈالر لگایا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ دس ماہ کے دوران یوکرین کے 6 ہزار شہری ہلاک اور 9ہزار سےزیادہ زخمی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے 77لاکھ شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ جانی نقصان کے بارے میں کوئی مصدقہ خبر نہیں کہ ہر جنگ کی پہلی شہید سچائی ہے۔
جنگ پر بے تحاشا اخراجات نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید اقتصادی مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ امریکہ تو ٹھیرا ہاتھی، کہ مر کر بھی سوا لاکھ کا۔ وہاں پریشانی تو ہے لیکن صرف گرانی کی حد تک۔ قلت کی آزمائش سے امریکہ اب تک محفوظ ہے۔ لیکن یورپ کا حال بہت خراب ہے۔ پہلے اس کی معیشت کو کورونا ناگن نے ڈسا، اور اب جنگ کی شکل میں نئی مصیبت سر پر آن پڑی۔ مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے یورپین سینٹرل بینک (اسٹیٹ بینک) شرح سود میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا عذاب کیا کم تھا کہ موسم سرما کے آغاز پر گیس کی لوڈشیڈنگ نے سردی سے ٹھٹھرتے گوروں کے چودہ طبق روشن کردیے۔
اسی کے ساتھ کساد بازاری کے کوڑے نے یورپی یونین کی بڑی بڑی کارپوریشنوں، خاص طور سے توانائی کمپنیوں کو ادھ موا کردیا ہے۔ جرمنی کی سب سے بڑی بجلی کمپنی Uniperکا کہنا ہے کہ اگر سرکار نے اعانت نہ کی تو اسے تالا لگ جائے گا۔ اس کمپنی کی سالانہ آمدنی (revenue) کا تخمینہ 170 ارب ڈالر ہے۔ گزشتہ سال اسے 4 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا، اور اِس سال کی ہر سہ ماہی ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ خسارے کے بوجھ سے کراہتی یونیپر نے بلب روشن اور دروازے کھلے رکھنے کے لیے 60 ارب ڈالر کی فرمائش کی ہے۔ دوسری صورت میں 11 ہزار ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔
سیاسی راہنما اپنے سر آئی بلا ٹالنے کے لیے ہر پریشانی کی وجہ روس اور یوکرین جنگ کو قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری سے تنگ آئے عام یورپی بھی اب یوکرینی جنگ اور اس کے نتیجے میں نازل ہونے والی مصیبت سے جھنجھلائے ہوئے لگ رہے ہیں۔ کئی جگہ یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ روس کو نیچا دکھانے کے لیے یورپ کی معیشت کو آگ لگادینا کہاں کی عقل مندی ہے! سوشل میڈیا پر ”یوکرین تنازعے کے بات چیت کے ذریعے پُرامن حل“ کے عنوان سے بحث شروع ہوگئی ہے۔
ہفتے کو چیک ریپبلک (سابق چیکوسلاواکیہ) کے دارالحکومت پراگ میں 70 ہزار افراد نے مہنگائی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور معاشی پریشانیوں کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ جلوس کے شرکا روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور یوکرین تنازعے کے پُرامن حل کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ اسی کے ساتھ وزیراعظم Peter Fiala سے استعفے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے، حالانکہ نئی حکومت نے گزشتہ برس نومبر کے آخر میں نظم و نسق سنبھالا ہے۔ اسی قسم کے مظاہرے اگلے ہفتے پیرس، روم اور جرمنی کے شہروں میں متوقع ہیں۔
تاہم معاملہ یک طرفہ نہیں بلکہ ”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی“۔ عین اس وقت جب چیک ریپبلک کے ٖدارالحکومت پراگ میں ہزاروں افراد یوکرین جنگ بند کرکے تنازعے کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کررہے تھے، ماسکو میں روسی وزیرخارجہ سرگئی لاورو (Sergei Lavrov)نے بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔
روس کے سرکاری ٹیلی ویژنRIA Novosti(RIAN) (روسی رسم الخط РИАН) پر گفتگو کرتے ہوئے جناب لاورو نے بہت ہی ”نرم“ لہجے میں کہا ”اگر ہمارے مغربی ہم نشینوں (Colleagues)نے بات چیت کے ایک نئے دور کا اہتمام کیا تو وہ ہمیں مذاکرات کے لیے تیار پائیں گے“۔ ہم نے ”نرم“ اس لیے کہا کہ جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار کسی روسی رہنما نے نیٹو یا یورپ کے لیے مخالف (Adversary) یا دشمن (Enemy) کے بجائے Colleagueکا لفظ استعمال کیا ہے جو دوست، ہم منصب، ساتھی، یا ہم نشیں کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
جناب لاورو نے گفتگو کو مشروط کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہماری دو شرائط کو تسلیم کرلیا جائے تو بات چیت نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ روسی وزیرخارجہ نے ان دو شرائط کو کچھ اس طرح بیان کیا:
1-مغرب کو روس کے مفادات اور اس کی سلامتی کا خیال رکھنا ہوگا۔ روس کئی سالوں سے نیٹو کی توسیع پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کررہا ہے۔ کریملن نیٹو کے پھیلائو کو اپنے مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
2-روس کو توقع ہے کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے مغرب سنجیدہ رویّے کا مظاہرہ کرے گا۔
روسی وزیرخارجہ نے ان دونکات کی وضاحت نہیں کی لیکن کریملن یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہ دینے پر اصرار جاری رکھے گا۔ اس کے جواب میں روس یوکرین کو تحفظ و عدم مداخلت کی ضمانت دینے کو تیار نظر آرہا ہے۔ تنائو کم کرنے کے اقدامات میں روس کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ سرِفہرست ہے۔
اسی دن صدر پیوٹن کے ترجمان ڈیمتری پیسکوف (Dmitry Peskov) نے روسی خبر رساں ایجنسی تاس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے گفتگو پہلے امریکہ سے ہونی چاہیے جو اس معاملے میں فیصلہ کن حیثیت (deciding vote)رکھتا ہے۔
روسی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ”صرف“ امریکہ سے مذاکرات پر اصرار حملے کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ہے۔ روس دنیا سے یہ بات تسلیم کرانا چاہتا ہے کہ یوکرین کے خلاف اس کی فوجی کارروائی علاقے میں امریکی مداخلت کا ردعمل ہے، اور اسے روسی جارحیت قرار دینا قرین از انصاف نہیں۔
روس یوکرین کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور کریملن نے اپنے دفاع اور انتہائی حساس تزویراتی (strategic) مفادات کے تحفظ کے لیے فوج کشی کی ہے۔ روس اس حملے کو جنگ کے بجائے ”خصوصی عسکری کارروائی“ قرار دیتا ہے۔
الفاظ، اصطلاح، نیت، ترجیحات اور حکمت عملی سے قطع نظر، دنیا میں امن کے خواہش مندوں کے لیے روس کی جانب سے امن کے یہ موہوم ہی سہی لیکن مثبت اشارے انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ آتش و آہن کی بارش اور توپوں کی گھن گرج میں شاخِ زیتون کی ہلکی سی سرسراہٹ ہی میزائل باری سے دہشت زدہ یوکرینیوں کے لیے نشاط انگیز ہے۔
……………..
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔