ہائے بے چارے شہری غریب

یہ بھی عجب تماشا ہے کہ ایک طرف تو یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ ملک زراعت کی بنیاد پر چل رہا ہے اور دوسری طرف شہری پاکستانیوں کو خوب نچوڑ کر زرعی شعبے یعنی دیہی آبادی کو تمام ممکنہ مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ ملک کو زرعی قرار دینے والے یہ حقیقت کیوں نظرانداز کردیتے ہیں کہ ملک زراعت کے ذریعے چل رہا ہوتا تو آج بلندی پر ہوتا۔ زرخیز زمین کی کمی ہے نہ دیگر قدرتی وسائل کی… مگر پھر بھی دیہی پاکستان بُری طرح پچھڑا ہوا ہے۔ ملک کی سیاست پر دیہی معاشرے کے ’بڑے‘ قابض ہیں۔ منتخب ادارے وڈیروں، جاگیرداروں اور چودھریوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر جی بھر کے اپنی مرضی کے قوانین منظور کراتے ہیں اور قومی معیشت کا بڑا حصہ لے اُڑتے ہیں۔

ملک میں جہاں اور بہت سے معاملات میں شدید نوعیت کی تفریق پائی جاتی ہے، وہیں دیہی اور شہری علاقوں کے غریبوں کے مابین بھی تفریق پائی جارہی ہے، اور اِس کے نتیجے میں صرف معاشی نہیں، معاشرتی الجھنیں بھی خوب جنم لے رہی ہیں۔

حالیہ سیلاب نے غیر معمولی تباہی مچائی۔ کم و بیش تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہی نہیں ہوئے بلکہ اپنے آبائی علاقوں سے نکلنے پر بھی مجبور ہوئے۔ تین ماہ سے زیادہ وقت گزر جانے پر بھی لاکھوں افراد اب تک اپنے آبائی علاقوں سے بہت دور کیمپوں میں یا پھر کھلے مقامات پر دن گزار رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھی امداد دی جاتی رہی ہے اور فلاحی ادارے بھی کام کررہے ہیں۔ دنیا بھر سے امداد آئی ہے جو تقسیم بھی کی گئی ہے۔ امداد کی تقسیم کے حوالے سے دھاندلیوں اور بے قاعدگیوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ حکومت پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اُس نے بیرونی امداد دیانت، شفافیت اور توازن سے تقسیم نہیں کی۔ وڈیروں اور جاگیرداروں پر امداد کی تقسیم میں من پسند افراد کو نوازنے کا الزام ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے بھی الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے خصوصی کسان پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 1800 ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے۔ سیلاب کے باعث کسان بہت بُری حالت میں ہیں۔ وہ اپنے پرانے قرضے چُکانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ ایسے میں مختلف حلقوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ کسانوں کو ریلیف دیا جائے۔ ایک طرف تو اُن کے موجودہ قرضے معاف کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا تھا اور دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا تھا کہ اُنھی میں قرضے یا پھر مفت بیج وغیرہ دیئے جائیں۔ اس حوالے سے سندھ حکومت نے بھی وفاق سے بات کی تھی تاکہ کسانوں کو اگلی فصلوں کے لیے مفت بیج دیئے جاسکیں۔ وفاق نے اس معاملے میں نصف کی حد تک شراکت سے انکار کردیا تھا۔ وفاق کا استدلال یہ تھا کہ معیشت کی حالت ایسی نہیں کہ کسانوں کی مدد کرنے کے معاملے میں دیگر معاملات و مسائل کو نظرانداز کردیا جائے۔ اب وزیراعظم نے ایک جامع پیکیج کا اعلان کیا ہے تاکہ کسانوں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جائے۔ یہ درست اقدام ہے جسے سراہا جانا چاہیے۔

اس مرحلے پر یہ سوال ذہنوں کے پردے پر ابھرتا ہے کہ حالات کی خرابی کس کے لیے ہے؟ کیا صرف دیہات کے عام آدمی پر عرصۂ حیات تنگ ہے؟ کیا تمام مشکلات صرف دیہات میں رہنے والوں کے لیے ہیں؟ زرعی شعبے کو آج تک ٹیکس نیٹ سے باہر رکھا گیا ہے۔ زرعی آمدنی کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ کبھی توقعات کے مطابق نہیں ہوتی اور کسان و زمیندار خسارے ہی میں رہتے ہیں، اس لیے اُن سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ سوچ کیوں پائی جاتی ہے؟ کیا زرعی شعبے کو ہر طرح کے ٹیکس سے مستثنیٰ رکھنے کی صورت میں عام کسان کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے؟ زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھنے کا سارا فائدہ کسے ملتا ہے؟ وڈیروں، چودھریوں اور بڑے زمینداروں کو! زرعی شعبے پر یہی لوگ تو قابض و متصرف ہیں۔ عام کسان تو محض دیہاڑی دار مزدور کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور وہ بھی محض چند ماہ۔ یہ کام بھی مستقل نہیں۔ جب فصل کی بُوائی ہوتی ہے تب، اور جب فصل کاٹی جاتی ہے تب عام دیہاتیوں کو کچھ کام ملتا ہے۔ باقی سال تو وہ کم و بیش مکمل بے کاری کی حالت میں گزارتے ہیں۔ دیہات میں بہتر متبادل معاشی امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کیفیت مزید پریشان کن ہوتی جارہی ہے۔ اب سیلاب کے ہاتھوں رونما ہونے والی تباہ کاری کے نتیجے میں دیہات کے چار پانچ کروڑ لوگ تین ماہ سے بے روزگار ہی نہیں، بے یار و مددگار بھی ہیں۔ یہ کیفیت مزید تین چار ماہ تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔

وزیراعظم نے دیہی آبادی کو مستحکم کرنے کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کردیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ شہروں میں جو لوگ انتہائی مشکل حالات میں جی رہے ہیں اُن کے لیے کوئی جامع پیکیج کب دیا جائے گا؟ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ جو لوگ شہروں میں سکونت پذیر ہیں وہ ہر اعتبار سے قابلِ رشک زندگی بسر کررہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ شہروں میں بسے ہوئے لوگوں کی زندگی میں مسائل ہی ہیں نہیں۔ دیہات کے عوام یہ سوچتے رہتے ہیں کہ شہروں میں بسنا زندگی کے تمام مسائل کا حل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دور افتادہ دیہی علاقوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور وہاں زندگی انتہائی دشوار ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کے حوالے سے مسائل بہت زیادہ ہیں اور بہتر معاشی امکانات نہ ہونے کے باعث بھی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست… مگر کیا شہروں میں رہنے والے غریبوں کو مسائل کا سامنا نہیں؟ کیا اُن پر عرصۂ حیات تنگ نہیں؟ کیا کسی بھی شہر کا ہر باشندہ قابلِ رشک زندگی بسر کررہا ہے؟

ہمارے ہاں جو انتہائی بے بنیاد تصورات پائے جاتے ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ شہروں میں رہنے والوں کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی مسئلہ نہیں۔ ہر سال بارشیں ہوتی ہیں تو دیہات میں کہیں نہ کہیں سیلابی کیفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ اُن کی مدد کرنے کے لیے حکومت بھی آگے آتی ہے اور فلاحی تنظیمیں بھی۔ غیر ملکی این جی اوز بھی فعال ہیں۔ ملک کی کم و بیش 40 فیصد آبادی شہروں اور قصبوں میں سکونت پذیر ہے۔ اُن کے بھی مسائل ہیں اور اُن کے لیے بھی

صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا

دیہات میں تو لوگ تھوڑی بہت بے کاری بھی آسانی سے برداشت کرلیتے ہیں، شہروں میں بے کاری انسان کو شدید مسائل سے دوچار کردیتی ہے۔ ڈیڑھ دو ماہ کی بے کاری یا بے روزگاری انسان کو قرضوں میں جکڑ دیتی ہے۔ کرائے پر رہنے والوں کے لیے زندگی ایک جبرِ مسلسل کے سوا کچھ نہیں۔ آمدنی کا بڑا حصہ کرائے اور یوٹیلٹی بلز کی مد میں کھپ جاتا ہے۔ جو تھوڑا بہت بچتا ہے اُس میں سے بھی بچوں کی تعلیم اور علاج وغیرہ کا خرچہ نکالنا پڑتا ہے۔ ایسے میں انسان کیا کھائے اور کیا پیے؟

دیہات کے غریبوں کے بارے میں تو سبھی سوچتے ہیں اور کچھ نہ کچھ کرگزرتے ہیں۔ شہروں کے غریبوں کے بارے میں سوچنے کی کسی کو بھی فرصت نہیں۔ سیلاب اور دیگر آفات کے باعث مشکلات کا سامنا کرنے والے دیہاتیوں کو تو کہیں نہ کہیں سے تھوڑی بہت مدد مل ہی جاتی ہے۔ شہروں میں جو لوگ زندگی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں اُن کی داد رسی کے لیے کوئی آگے نہیں آتا۔ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ اُن کے شب و روز کیونکر بسر ہوتے ہیں؟ انکم سپورٹ پروگرام بھی بنیادی طور پر دیہی آبادی کے لیے ہے۔ کیا شہروں میں رہنے والوں کو انکم سپورٹ پروگرام کی ضرورت نہیں؟ شہروں میں رہنے کی بڑھتی ہوئی قیمت نے عام آدمی کو محض تگ و دَو کے دائرے میں گھومتے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ اِس سطح سے بلند ہو ہی نہیں پاتا۔ شہری آبادی میں زیادہ سے زیادہ 20 فیصد افراد قدرے پُرسکون زندگی بسر کررہے ہیں۔ باقی سب تو بس زندگی کی گاڑی کسی نہ کسی طور کھینچ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے یہ سب کچھ مزید ناقابلِ برداشت ہوتا جارہا ہے۔ شہری آبادیوں میں اختلاجِ قلب کے بڑھتے ہوئے واقعات محض لائف اسٹائل یعنی کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات کے فرق سے پیدا نہیں ہورہے، بلکہ گھر چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کمانے سے متعلق جو دباؤ ذہن پر مرتب ہورہا ہے وہ دل پر بھی اثرانداز ہورہا ہے۔

کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں املاک کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ مکانات بھی مہنگے ہیں اور پلاٹ بھی۔ زمین خریدنا تو بہت دور کا معاملہ رہا، اب عام آدمی اپارٹمنٹ (فلیٹ یا پورشن) خریدنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ آمدنی پر اخراجات کا دباؤ اتنا بڑھ رہا ہے کہ اپنی چھت کا تصور سوہانِ روح ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں چولھا جلتا رکھنے کا اہتمام بھی دردِ سر ہوگیا ہے۔ ہر چیز مافیا کے دستِ تصرف میں ہے۔ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے جنریٹر خریدیے یا پھر سولر پینلز لگائیے۔ گیس کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سلنڈرز کا سہارا لیجیے۔ پانی کی تقسیم و ترسیل کا سرکاری نظام دم توڑ چکا ہے۔ ایسے میں پینے کا صاف پانی خریدنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔ کراچی کے بیشتر علاقوں میں پانی باقاعدگی سے تو کیا، بے قاعدگی سے بھی نہیں آتا یعنی آتا ہی نہیں۔ ایسے میں لوگ روزمرہ استعمال کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اُن کے پاس معقول انداز سے زندگی بسر کرنے کا اور کوئی چارہ نہیں۔

شہروں میں رہنے والوں کے ذہنوں پر ایک طرف تو زندگی کی پیدا کردہ مشکلات سوار ہیں اور دوسری طرف دیہی علاقوں کی مدد کرنے کا اضافی بوجھ بھی ہے۔ طرح طرح کے ٹیکسوں کا بوجھ سہنے والوں کی زکوٰۃ، خیرات اور صدقات بھی بالعموم دیہی علاقوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ فلاحی تنظیمیں شہروں کے رہنے والوں سے عطیات لے کر دیہات کی آبادی کو منتقل کرتی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ کسی کی مدد ہورہی ہے مگر شہروں میں جو لوگ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں اُن کے لیے تو کچھ مدد کی سبیل نکالی جانی چاہیے۔ ایک طرف اُن سے بجلی اور دیگر یوٹیلٹیز کے نام پر خوب مال نچوڑا جارہا ہے اور دوسری طرف ملک کے پس ماندہ علاقوں کے لوگوں کی مدد کرنے کا بوجھ بھی اُنہی کے سر پر تھوپ دیا گیا ہے۔ حکومتی اور انتظامی مشینری اس معاملے میں محض تماشائی یا پھر سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے۔ دیہی آبادی کے مال داروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو چلانے کا سارا بوجھ صرف شہر والے نہ بھگتیں۔ شہر کا عام آدمی جو کچھ کماتا ہے اُس پر ٹیکس خود بہ خود منہا کرلیا جاتا ہے کیونکہ تنخواہیں بینکنگ سسٹم کے ذریعے دی جاتی ہیں۔ ہر چیز پر ٹیکس دینے والے اور باقی ملک کا بوجھ اٹھانے والے آمدن پر اضافی ٹیکس دینے پر مجبور ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں ہونے کے باعث وہ بچ بھی نہیں سکتے۔ شہروں ہی میں بہت سے ایسے ہیں جو ماہانہ ڈھائی تین لاکھ سے بھی زائد کماتے ہیں مگر انکم ٹیکس کی مد میں ایک پیسہ نہیں دیتے، کیونکہ اُن کی آمدنی کا غالب حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور وہ فائلر بھی نہیں۔ ایسے لوگ بڑی بڑی جائدادیں بھی بناتے ہیں اور پُُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں، جبکہ اُن سے کہیں کمتر آمدنی والے لوگ ٹیکس نیٹ میں پھنسے ہوئے ہیں اور مشکل تر حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ نا انصافی اب ختم ہونی چاہیے۔ ٹیکس نیٹ پورے ملک پر پھیلایا جائے۔ دیہی معاشرے کے مال داروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تاکہ قومی آمدنی بڑھانے میں اُن کا بھی کردار نمایاں ہو۔ شہروں میں رہنے والے ہی معیشت کا بوجھ برداشت کرتے رہیں یہ کسی بھی اعتبار سے قرینِ انصاف نہیں۔ ریاستی و انتظامی مشینری کے اخراجات اب تک شہر ہی برداشت کرتے آئے ہیں اور اِس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ شہری آبادی کے لیے حقیقی ریلیف کا اہتمام کیا جائے۔ شہروں میں زندگی بسر کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اس قیمت کے برداشت کرنے میں کم آمدنی والوں کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے انقلابی نوعیت کی سوچ درکار ہے تاکہ مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی ذہنیت راستے میں روڑے نہ اٹکائے۔ یہ کام منتخب اداروں کی سطح پر کرنے کا ہے۔ ملک کے بڑوں کو اس معاملے پر متوجہ ہوکر فراخ دلی کے ساتھ کچھ کرنا چاہیے۔ فراخ دلی یوں کہ جو کچھ اس وقت چل رہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے انصاف کے تقاضوں اور روح کے مطابق نہیں۔ ایسے میں ایک بڑے طبقے کو اپنے مفادات سے کسی حد تک دست بردار ہونا پڑے گا۔ ٹیکس نیٹ میں اُنہیں بھی لایا جائے جو کماتے تو بہت ہیں مگر ملک و قوم کے لیے کچھ دینے کو تیار نہیں۔ شہری آبادی کب تک یہ سب کچھ برداشت کرے؟ کسان پیکیج جیسے ریلیف پیکیج شہروں میں بسے ہوئے انتہائی کم آمدن والے افراد کے لیے بھی پیش کیے جانے چاہئیں۔ یہ سب کچھ معاشرتی اور معاشی انصاف و توازن کے لیے ناگزیر ہے۔ کوئی طبقہ یہ چاہے یا نہ چاہے، ایسا تو کرنا ہی پڑے گا۔ ہر سطح اور ہر مقام کے عوام حتمی تجزیے میں تو عوام ہی ہیں۔ دیہی عوام کو زیادہ مصیبت زدہ سمجھ کر اُن کی مدد کرتے رہنا اور شہری عوام کو یکسر نظرانداز کرکے اُن سے وصولی کرتے رہنا کسی بھی اعتبار سے معقول و درست نہیں۔ اس حوالے سے مستحکم فکر و عمل کی ضرورت ہے۔