بچوں کے اغوا کا الزام: دو بے گناہ نوجوانوں کا مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ قتل

سندھ بھر میں احتجاج

یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم بہ حیثیتِ مجموعی ایک قوم بننے کے بجائے بے ہنگم ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر افراد کی زندگی کسی خاص مقصد سے عاری ہے۔ ہر سنی سنائی بات پر بغیر کسی تحقیق کے یقین کرلینا ہمارا شعار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں گاہے بہ گاہے کسی نہ کسی مقام پر ایسے سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں جو سب کا دل دہلاکر رکھ دیتے ہیں، لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی یاد بھی ذہن سے محو ہونے لگتی ہے۔ جب دوبارہ کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو ہم پھر سے دکھ اور غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں، پرانے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں، لیکن حد درجہ افسوس ناک اور قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں اس حوالے سے خود کو بچانے کا کوئی اہتمام یا انتظام کرپاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی کا سفر کولہو کے بیل کی طرح کا ہوچکا ہے۔ ہم محض ایک دائرے کے اندر ہی چلتے رہتے ہیں، بغیر کسی مقصدیت اور منزلِ مقصود کی خواہش کے حصول کے۔ المیہ در المیہ یہ بھی ہے کہ اس پر مستزاد حکمران طبقہ بھی کسی وژن سے محروم ہے۔ ہر دور میں ہی ہمیں ایسے نااہل، نالائق اور مفاد پرست حکمران ملتے رہے ہیں جنہوں نے بجائے ملک اور قوم کے وسیع تر مفادات کیِ، خود کو محض ادنیٰ ترین مفادات کے حصول تک ہی محدود رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بے ہنگم ہجوم کے ہاتھوں بلاتحقیق بے گناہ اور معصوم افراد کی جان لے لینا ملک کے کسی نہ کسی حصے میں ایک بے حد افسوس ناک معمول بن چکا ہے۔ اس طرح کے الم ناک اور قابلِ مذمت واقعات کو روکنے اور یکسر ختم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اور عملی اقدامات کی سخت ضرورت ہے، کیوں کہ سماج دشمن اور فتنہ پرست عناصر مذکورہ نوع کے اچانک کسی وقوع پذیر ہوجانے والے سانحے کی صورت میں اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مخصوص مذموم مقاصد کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں ملک و قوم کی رسوائی ہوتی ہے، وہیں ملک کے استحکام و معیشت سمیت قومی یک جہتی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

ہفتۂ رفتہ بھی کراچی کی مچھر کالونی میں سندھ کے دو پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ، ایک موبائل ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی میں ایک انجینئر کے فرائض سر انجام دینے والے نوجوان، ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سعید احمد کے صاحبزادے ایمن سعید، اور دوسرے اسی کمپنی کے ڈرائیور اسحاق پنہور جن کا تعلق گوٹھ محمد ہاشم پنہور سے تھا، کو مشتعل افراد کے ایک ہجوم نے محض اس شبہ میں کہ مذکورہ دونوں نوجوان کسی بچے کو اغوا کررہے ہیں، بے حد ظالمانہ انداز میں بغیر کسی تحقیق اور معلومات کے پتھر، اینٹیں اور ڈنڈے مار مار کر شہید کردیا۔ اس سانحے پر جتنا بھی اظہارِ افسوس اور اظہارِ مذمت کیا جائے، کم ہے۔ درآں حالیکہ مظلومانہ انداز میں شہید ہونے والے مذکورہ دونوں نوجوان اس علاقے میں کمپنی کی جانب سے خود کو تفویض کردہ فرائض کی انجام دہی کے لیے آئے تھے، اور انہیں کیا معلوم تھا کہ یہاں پر ایک الم ناک موت ان کی منتظر ہے، اور ایک عقل و فہم، شعور و ادراک سے عاری بے ہنگم ہجوم انہیں بلاوجہ ہی صرف اور صرف ایک بے بنیاد افواہ اور شبہ کی بنیاد پر یوں ظالمانہ انداز میں اینٹیں، پتھر اور ڈنڈے مار مار کر شہید کر ڈالے گا اور ان کے والدین، اہلِ خانہ اور بچوں کو تاحیات دائمی غم اور سوگ کی کیفیت میں مبتلا کردے گا۔ وحشی ہجوم اور عقل سے عاری و پیدل جتھوں کی وجہ سے ملک میں اس سانحے سے قبل بھی قتل کے کئی الم ناک واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کو توہینِ مذہب کے بے بنیاد الزام کے تحت قتل کیے جانے کا سانحہ کوئی ماضیِ بعید کا واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ سانحے نے بھی اس امر پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے کہ ہم اس دورِ جدید میں بھی علم و شعور اور آگہی سے کوسوں دور ہیں۔

سندھی اور اردو ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق شہید ہونے والے دونوں نوجوان یکسر بے گناہ اور معصوم تھے، افواہ طراز اور فتنہ پرداز عناصر نے انہیں علاقے میں دیکھ کر بلاوجہ ہی مقامی عوام کو یہ باور کرایا کہ یہ نوجوان اغوا کار ہیں، جبکہ وہ اس علاقے کے روڈ راستوں سے انجان اور بے خبر ہونے کی وجہ سے ایک بچے سے راستہ معلوم کررہے تھے تاکہ اُس موبائل ٹاور تک پہنچ کر اس کی وہ تکنیکی خرابی درست کرسکیں جس کو دور کرنے کے لیے انہیں یہاں ان کی کمپنی نے بھیجا تھا۔ کمپنی کے دونوں نوجوان ملازم ایک ایسے جرمِ بے گناہی میں بے دردی سے شہید کردیے گئے جس کا اُن سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں بنتا تھا۔ ان نوجوانوں کی مظلومانہ شہادت کے بعد سندھی اور اردو الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس سانحے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے، دوسری طرف سندھ بھر میں لسانیت اور قومیت کی علَم بردار تنظیموں کو ایسا موقع تو بس ’’اللہ دے اور بندہ لے‘‘ کے مصداق ’’گولڈن چانس‘‘ کی صورت میں میسر آیا ہے اور انہوں نے اس سانحے پر بھی اپنے مخصوص دیرینہ مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر اپنی سیاست چمکانا اور دھرنوں، احتجاجی مظاہروں وغیرہ کا سلسلہ زور شور سے شروع کردیا ہے ، جبکہ ہر سطح پر اس سانحے کی سخت مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

اطلاع کے مطابق مقامی پولیس نے سانحے میں ملوث 35 معلوم اور 250 نامعلوم ملزمان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جب مشتعل جتھہ دونوں نوجوانوں کو بہیمانہ تشدد کرکے قتل کررہا تھا تو اس موقع پر موجود چار پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر نوجوانوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ مشتعل ہجوم دو گھنٹے تک بے گناہ نوجوانوں کو ظالمانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بناتا رہا لیکن رینجرز پہنچی اور نہ مزید پولیس فورس۔ ایسے الم ناک سانحات کا پے درپے رونما ہونا ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی انارکی ملک میں قانون کی عمل داری اور حکومتی رٹ کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔