مولوی عباس انصاری… ایک مردِ حُر

سید علی گیلانی، عبدالغنی لون، شیخ عبدالعزیز اور اشرف صحرائی جیسی قدآور آزادی پسند شخصیات کی وفات کے بعد مولانا عباس انصاری کی وفات آزادی پسند کیمپ کی اُداسی اور ویرانی کو بڑھانے کا باعث بنی

تاریخ کی ہنگامہ خیز گھڑیوں میں مقبوضہ کشمیر میں دو تاریخ ساز اتحادوں مسلم متحدہ محاذ اور کُل جماعتی حریت کانفرنس کی سربراہی کرنے والے مولانا عباس انصاری گزشتہ روز 86 برس کی عمر میں سری نگر میں انتقال کر گئے۔ مولوی عباس انصاری انجمن اتحادالمسلمین کے سربراہ تھے، اور آپ ان اتحادوں میں وادیٔ کشمیر کے اہلِ تشیع کی نمائندگی کرتے تھے۔ مولانا عباس انصاری کشمیر کی اس سیاسی کلاس سے تعلق رکھتے تھے جو شیخ عبداللہ کی مزاحمتی سیاست کے زمانے میں منظر پر زیادہ نہ اُبھر سکی، جونہی شیخ عبداللہ مزاحمت کے محاذ کو سُونا اور ویران کرکے ”اندرا عبداللہ ایکارڈ“ میں گئے تو سیاست میں پیدا ہونے والے خلا کو اس نئی اور دبی ہوئی سیاسی کلاس نے پُر کردیا۔ بعد میں یہی سیاسی کلاس 1987ء میں مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم پر متحد ہوگئی اور اس اتحاد نے بھارت کے معاون سیاسی دھارے کو چیلنج کیا۔

مولانا عباس انصاری اس اتحاد کے سربراہ اور ڈاکٹر غلام قادر وانی جنرل سیکرٹری تھے۔ ڈاکٹر وانی 1990ء کی دہائی میں اپنے گھر میں قتل کردیے گئے تھے۔ مسلم متحدہ محاذ نے انتخاب برائے آزادی کا نعرہ لگا کر کشمیری عوام کے حریت پسندانہ جذبات کے تار چھیڑ دیے تو اس کے نتیجے میں اتحاد کو عوام میں زبردست پذیرائی ملنے لگی۔ محاذ کے امیدوار کفن بردوش ہوکر جلسوں میں شرکت کرکے عوام کو جوش دلاتے رہے۔ مسلم متحدہ محاذ نے دریائی جلسے اور جلوسوں کے ذریعے کشمیر کی سیاسی فضا کو آتش فشاں میں بدل دیا۔ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اگلے ہی برس یہ آتش فشاں مسلح جدوجہد کی صورت میں پھٹ پڑا، اور آج تک کشمیر انہی حالات کے بھنور میں ہے۔

مسلح جدوجہد کے عروج کے دنوں میں حزب المومنین نام کی مسلح تنظیم مولانا عباس انصاری سے راہنمائی لیتی رہی۔ 1990ء کی دہائی میں جب کشمیر کی تحریک کو سیاسی شکل و شباہت دینے اور بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کی خاطر کُل جماعتی حریت کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تو مولانا عباس انصاری اس محاذ پر بھی آگے تھے۔ وہ حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہے اور اس حیثیت سے کئی ملکوں میں کشمیریوں کی نمائندگی کی، ان میں او آئی اسی اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم بھی شامل ہیں۔ بعد کے دنوں میں وہ جہاں ایک طرف بھارتی وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ سے ملنے والے وفود کی قیادت کرتے رہے وہیں انہوں نے بس کے ذریعے آزادکشمیر کا سفر کیا اور جنرل پرویزمشرف سے بھی ملاقات کی۔ حریت کانفرنس اور مسلم متحدہ محاذ دونوں اتحادوں سے وابستگی کے دوران انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔

مولانا عباس انصاری ایک شعلہ بیان مقرر اور فعال اور بے خوف سیاسی قائد تھے جنہوں نے کشمیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے حلقہ ٔ اثر کو تحریکِ آزادی کے ساتھ وابستہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت نے کشمیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوششیں کیں مگر وہ شیعہ سنی تفریق پیدا کرنے اور اس حقیقت کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بھارت نے کشمیری سماج کو تقسیم در تقسیم کا شکار کرنے اور وادی کشمیر کی مسلمان آبادی کا دائرہ محدود کرنے کے لیے پہاڑی، بکروال پونچھ جموں کے نام پر تفریق کی لکیریں کھینچیں، مگر وہ شیعہ سنی لکیر کھینچنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔

اہلِ تشیع نے یوم عاشور کو کربلائے ثانی ثابت کرنے کے لیے سری نگر کی سڑکوں اور گلیوں میں اپنا کردار ادا کیا۔ بھارت نے محرم کے جلوسوں میں صدائے حریت بلند ہونے کے خوف سے ان پر پابندی بھی عائد کی اور عزاداروں پر تشدد بھی کیا جاتا رہا، مگر وہ کشمیر کی اس کمیونٹی کے مجموعی مزاج کو بدل سکا، نہ جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرسکا۔ یہ مولانا عباس انصاری جیسے پُرعزم قائدین کی بصیرت کا نتیجہ تھا۔ ان کے قریبی عزیز مولوی افتخار حسین انصاری کانگریس کے ایک معروف راہنما اور مرکزی وزیر بھی تھے، مگر اس کے باوجود مولانا عباس انصاری اپنے ایک الگ اور پُرصعوبت راستے پر گامزن رہے۔

سید علی گیلانی، عبدالغنی لون، شیخ عبدالعزیز اور اشرف صحرائی جیسی قدآور آزادی پسند شخصیات کی وفات کے بعد مولانا عباس انصاری کی وفات آزادی پسند کیمپ کی اُداسی اور ویرانی کو بڑھانے کا باعث بنی۔ ایسے میں جب کہ یہ آزادی پسند قوتیں پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ان کا وجود جبر کے ایک پہاڑ کے نیچے دبتا چلا جا رہا ہے عباس انصاری کی رحلت اس کیمپ کے لیے ایک نئی آزمائش ہے۔ ان کے جنازے میں کشمیر کے طول و عرض سے ہزاروں افراد نے شرکت کرکے ڈھائی سال عوام کے سروں پر تنی خوف اور دہشت کی چادر کو اُتار پھینکا ہے۔