علامہ اقبال، مصلح قرنِ آخر

اقبال کی شخصیت وہ شخصیت ہے جو نہ تو اہلِ مغرب کے اس خیال کی موید ہے کہ علم ہی انسان کی نجات، ارتقا اور تمام دکھ درد کا مداوا ہے، اور نہ ہی وہ ان فلسفیوں کے ہم خیال ہیں جو انسان کی معاش اور معاشی ضرورتوں کو اس کی تمام ضرورتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی اپنے ہم وطنوں یعنی بودھوں اور ہندوئوں کے بڑے بڑے مفکروں کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی روح کا اس سنسارک جیون اور کرم کے اس چکر سے نکل کر نروان حاصل کرلینا ہی بشریت کی معراج ہے۔ وہ اپنے ہم وطنوں کے اس خیال کے بھی قائل نہیں ہیں کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں بھوک، غلامی، ذلت و پستی موجود ہوں، وہاں پاک و منزہ روحیں، سعادت مند اور ’’تربیت شدہ‘‘ انسان اور پاکیزہ اخلاقیات کو جنم دیا جاسکتا ہے۔

نہیں، اقبال بنیادی طور پر اپنے مکتبِ فکر اور خود اپنی ہستی کے ذریعے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ جس فکر یعنی اسلام کے معتقد ہیں وہ فکر اگرچہ دنیا اور انسان کی مادی حاجتوں کی طرف پوری توجہ دیتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ انسان کو ایک ایسا دل بھی بخشتی ہے کہ خود انہی کے قول کے مطابق ’’وہ سپیدۂ سحری کے ذوق و شوق اور غور و فکر میں زندگی کے خوب صورت لمحات کو دیکھتا ہے‘‘۔

ان کی مثال ایک عظیم صوفی کی سی ہے جس کی روح نتھری نتھرائی اور مادیت سے کنارہ کش ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایک انسان بھی ہیں جو ہمارے زمانے کی علمی، تکنیکی اور بشری تعقل کی پیش رفت کو احترام کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
اقبال کا وجدان و احساس، تصوف، مسیحیت یا لائوزی، بودھی اور جینی مذاہب کے احساس و وجدان کی طرح نہیں ہے جو علم، عقل اور علمی پیش رفت کو تحقیر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ان کا علم بھی فرانسس بیکن اور کلوڈ برناڈ کی طرح کا وہ خشک علم نہیں ہے جو صرف مظاہر قدرت کے باہمی ربط اور مادی زندگی کے لیے طبیعی قوتوں کے استعمال تک محدود ہو۔ اسی کے ساتھ ساتھ اقبال ایسے مفکر بھی نہیں ہیں جو فلسفہ، وجدان، علمِ دین، عقل اور وحی کو باہم دگر اس طرح خلط ملط کردیں جس کی مہمل ترین مثال داراشکوہ اور اس کے قبیل کے دوسرے مفکرین ہیں۔

وہ اس دنیا پر نظر ڈالتے وقت تعقل اور علم کو تو انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں جو آج معروف ہیں، مگر اُن کے نزدیک علم و تعقل کا منتہا و مقصود وہ نہیں ہوتا جو ہمارے زمانے میں سمجھا جاتا ہے، بلکہ اُن کے نزدیک علم و تعقل کا منتہا و مقصود یہ ہے کہ یہ دونوں عشق، احساس اور الہام کے مددگار، ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے اور قدم سے قدم ملاکر چلنے والے ہیں، (اسی بنا پر) اقبال انسانی روح کے سفر تکمیل میں علم اور تعقل کو انسانی روح کا ممدو معاون سمجھتے ہیں۔

بنی نوع انسان کے نام اقبال کا سب سے عظیم پیغام یہ ہے کہ اس کا دل (حضرت) عیسیٰ کی طرح، فکر سقراط کی طرح، اور قوت و طاقت قیصر کی طرح ہو۔ مگر یہ تمام صفات ایک انسان یعنی ایک وجودِ بشری میں مجتمع ہوں اور ان تمام صفات کی اساس ایک ہی روح پر ہو جو ایک مقصود یعنی خود اقبال تک پہنچ سکے۔

اقبال کی شخصیت اپنے زمانے کی بیدار ترین شخصیت تھی، اتنی بیدار کہ لوگ اُن کو ایک سیاسی رہنما، ایک رہبرِ آزادی اور بیسویں صدی کی استعماریت کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں، ان کی علمی اور فلسفیانہ شخصیت کی بلندی کا عالم یہ ہے کہ آج کی مغربی دنیا ان کو برگساں کی طرح کا ایک فلسفی اور مفکر تسلیم کرتی ہے۔

تاریخِ اسلام میں اقبال کا شمار غزالی کی صف میں ہوتا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ہم ان کو اسلامی معاشرے کا ایک مصلح بھی کہتے ہیں، کیونکہ وہ انسانی، اسلامی اور اس معاشرے کے سلسلے میں سوچ بچار کرتے رہتے ہیں جس میں وہ خود زندگی بسر کرتے ہیں، اس معاشرے کی نجات اور آزادی کے لیے وہ جہاد بھی کرتے ہیں۔ ان کا یہ جہاد علمی یا تفننِ طبع کے طور پر یا سارتر کے الفاظ میں ’’بائیں بازو کے روشن فکرانہ سیاسی مظاہر‘‘ پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اس ضمن میں وہ ایک ذمے دار اور متعہد کی حیثیت سے اس مسئلے پر نگاہ ڈالتے ہیں، کام کرتے ہیں اور راہِ نجات کی تلاش بھی کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اقبال، مولانا روم کے بھی عاشق ہیں۔ مولانا روم کی روحانی معراج میں اقبال ان کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ روحانی عشق و عاشقی اور درد و اضطراب سے داغ داغ ہوکر ان میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے۔

لیکن وہ ایک ایسے عظیم انسان ہیں جو یک رُخے نہیں ہیں، ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوتے،ایک ایسے مسلمان ہیں جس کی شخصیت کسی ایک ہی رخ یا کسی ایک ہی پہلو کی اسیر ہوکر نہیں رہی، بلکہ وہ ’’مکمل و سالم مسلمان‘‘ ہیں، اگرچہ وہ مولانا روم سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں مگر کسی وقت بھی ان کی شخصیت مولانا کی شخصیت میں ضم نہیں ہوتی، اور نہ ان کی شخصیت کسی ایک پہلو کی طرف جھکائو رکھنے کی وجہ سے اسی پہلو کی طرف خم ہوتی ہے۔

اقبال ایک فلسفی کی حیثیت سے یورپ گئے اور وہاں کے آسمان پر چمکے، انہوں نے مغرب کے فلسفیانہ مکتب ِفکر کو سمجھا اور لوگوں کو سمجھایا۔ تمام لوگوں کو اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ بیسویں صدی عیسوی کے فلسفی ہیں، لیکن اس کے باوجود اقبال مغربی فکر کے اسیر ہوکر نہیں رہے بلکہ انہوں نے مغرب کو مسخر کیا اور ایک ناقدانہ فکر اور قوتِ انتخاب کے ساتھ بیسویں صدی اور مغربی معاشرے میں زندگی بسر کرتے رہے۔ اقبال مولانا روم کے شیفتہ و مرید بھی ہیں لیکن ان کے مقابلے میں اقبال نے اپنی اصل جہتوں کو اس طرح محفوظ رکھا ہے کہ وہ اصل اسلامی روح سے مختلف نہیں۔

حافظؔ کا کہنا ہے:
چو قسمتِ ازلی بی حضورِ ما کردند
گر اندکی نہ بہ وفقِ رضاست خردہ مگیر
یا
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ بساز
مگر صوفی اقبال کا کہنا ہے:
زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز

زمانے کے معنی انسان کی سرگزشت و سرنوشت اور خود اس کی زندگی ہے۔ انسان ایک لہر ضرور ہے مگر ساحل پر پڑی ہوئی لہر نہیں ہے، اور اس کی زندگی یا وجود اس کی حرکت میں مضمر ہے۔ انسان، اقبال کی فکر کے سہارے جو نہ ہندوستانی تصوف ہے اور نہ ہی مذہبی عصبیت بلکہ ’’قرآنی عرفان‘‘ ہے، زمانے کو متغیر و منقلب کرسکتا ہے۔
اسلام اور قرآن نے اس ’’تقدیر آسمانی‘‘ کی جگہ جس میں انسان کی حیثیت ہیچ ہے، ’’تقدیر انسانی‘‘ کو دی ہے جس میں انسان ایک اساسی کردار انجام دیتا ہے۔

یہ انقلاب کی سب سے بڑی اور ساتھ ہی ساتھ ایسی ترقی پسند اور سازگار بنیاد ہے جو اسلام نے بنی نوع انسان کو اس کی آفاقیت، فلسفہ زندگی اور انسان شناسی کے ضمن میں عطا کی ہے۔
(”علامہ اقبال، مصلح قرنِ آخر“۔ ڈاکٹر علی شریعتی، مترجم: کبیر احمد جائسی)

مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

علامہ بسااوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اُس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔