-1 اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: وفاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عرب میں ارتداد کی لہر دوڑی، یہودیت و نصرانیت نے سر اٹھایا، نفاق نے زور پکڑا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے مسلمان سرد رات میں بکریوں زدہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے ذریعے امتِ مسلمہ پر احسان کیا۔
-2 سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تمام مسلمانوں کی حالت بکریوں کے اُس ریوڑ کی مانند تھی جو سردیوں کی بارش برستی رات کے دوران جنگل میں گلہ بان کے بغیر رہ جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے ہم پر احسان نہ کرتا تو مسلمانوں کی ہلاکت یقینی تھی۔
-3 لشکرِ اسامہ 70 دن کے بعد کامیاب ہوکر واپس مدینہ لوٹا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے نکل کر اس لشکر کا استقبال کیا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد زید بن حارثہؓ کے گھوڑے ’’ سبحہ‘‘ پر سوار تھے اور حضرت بریدہؓ ان کے آگے وہ پرچم اڑاتے ہوئے چل رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کو عطا کیا تھا۔ سارے مدینہ اور گرد و نواح میں لاالٰہ الااللہ کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آج اگر ابوبکرؓ نہ ہوتے تو اللہ کی پرستش نہ ہوتی۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی ’مقدمہ‘ میں راقم طراز ہیں:
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تاریخِ عالم میں پہلا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی تصورات یا اسلام کے تین بنیادی عقائد (توحید، رسالت، آخرت) کی بنیاد پر انفرادی یا اجتماعی زندگی میں ہی نہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں مطلق العنان حکومت سنبھالنے کے باوجود انسان دوستی، انسانیت اور بنی نوع انسان کی خدمت کے ایسے چراغ روشن کیے جن سے اُس دور سے لے کر ابدالآباد تک اقوام عالم روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔
حیاتِ صدیقی اور خصوصاً اُن کے دورِ حکومت کا تحقیقی جائزہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے اور یہ ایک علمی اور عملی حقیقت بھی ہے کہ جس نظریے، طریقہ ہائے حیات، مذہب، دین یا طرزِ زندگی میں یہ تین تصورات توحید، رسالت، آخرت اپنی حقیقی روح اور جان دار انداز میں زندۂ جاوید موجود نہ ہوں وہ کبھی بھی انسانیت کی خدمت نہیں کرسکتی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عوام الناس کی خدمت کرتے ہوئے اس اصول پر کاربند ہونا اس کی واضح مثال ہے۔
چنانچہ خلیفہ بنتے ہی فرماتے ہیں: میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں، لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں، اگر اچھا کروں یعنی عوام کی خدمت کروں تو مجھ سے تعاون کرو، اور اگر میں کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے جب تک کہ میں دوسروں سے اُس کا حق اُس کو نہ دلادوں، اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اُس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کرلوں۔
خوفِ آخرت کے سلسلے میں یہ واقعہ بھی بہت اہم ہے کہ دورِ خلافت میں ایک مرتبہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا دل مٹھائی کھانے کو چاہا۔ شوہرِ نامدار سے اس کی فرمائش کی، تو انہوں نے فرمایا: ’’میرا کام عوام کی خدمت ہے اور میرے پاس اتنے دام نہیں ہیں کہ تمہارے لیے مٹھائی خرید سکوں‘‘۔
لوگ خلیفۃ الرسولؐ ہونے کی حیثیت سے تعظیم و توقیر یا آپ کی بہت زیادہ عزت کرتے تو ندامت محسوس کرتے اور فرماتے ’’لوگوں نے مجھے بہت بڑھا دیا ہے‘‘۔ اگر کسی سے اپنے لیے تعریفی کلمات سن لیتے تو خوفِ خدا سے لرز اٹھتے اورکہتے ’’الٰہی تُو میرا حال مجھ سے زیادہ جانتا ہے، اور میں اپنا حال ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ مجھے ان لوگوں کے حُسنِ ظن کے مطابق بنا، میرے گناہوں کو بخش دے اور ان لوگوں کی بے جا مدح و ستائش کی مجھ سے بازپرس نہ کر‘‘۔
محسنِ انسانیت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین جانشین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک عام انسان، اور نبی نہ ہوتے ہوئے بھی امت میں پہلی مرتبہ وہی نبوی طریق اپناکر تمام دنیا کے انسانوں اور حکمرانوں کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ عام حکمران بھی نبوی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا کو امن اور انسانیت کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے امتِ مسلمہ کی بنی نوعِ انسان کے تمام مذاہب، ادیان اور افکار پر فوقیت ثابت ہوگئی، اس وجہ سے بھی آپ محسنِ امت کے مقام پر فائز ہوئے۔ محسنِ انسانیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے، اور محسنِ امت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت ہے۔ دونوں ہستیاں زندگی میں اکٹھی رہیں اور مرنے کے بعد میں ان کی قبریں اکٹھی ہیں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا۔
کتاب میں تاریخی و تحریری سرمائے کو سامنے رکھ کر اس میں سے فتوحات اور جرنیلوں و افواج کے کارناموں کی تفصیل حذف کرکے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اصولی، نظریاتی، دینی، انسان دوستی پر مبنی عوامی طرزِ حکمرانی اور قیامت تک کے حکمرانوں کی کامیابی کی ضامن اعلیٰ مثالیں اور واقعات بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خاصہ ہیں۔ یہ کتاب ان کی شخصیت کے کچھ پہلو اجاگر کرنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے اور مزید پہلو آنے والے مصنفینِ کرام شرح و بسط سے واضح کریں گے اور اس کا حق
بھی ادا کریں گے۔ اس کتاب میں ان کی عظیم شخصیت کے مطابق اس طرح ابواب فصول قائم کیے گئے ہیں جو ان کی ذاتِ گرامی کے بارے میں معنویت اور گہرائی و گیرائی کے حامل ہوں۔ اور مستقبل میں ان کی نظریاتی، دینی اور انسانی خوبیوں پر اس کتاب کے عناوین کو مدنظر رکھ کر متعدد کتب بلکہ انسائیکلوپیڈیا تصنیف کیے جاسکتے ہیں، کیوںکہ آپ کی شخصیت کے خلیفۃ الرسول ہونے کی حیثیت سے نوع ِانسانی پر اتنے احسانات ہیں کہ قیامت تک اس کے مختلف پہلو دنیا پر اجاگر ہوتے رہیں گے اور ان پر تصنیفات کا سلسلہ قیامت تک رواں دواں رہے گا۔‘‘
کتاب نہایت ہی اعلیٰ معیاری کاغذ پر شائع کی گئی ہے۔
حرف خوانی نہایت احتیاط اور محنت سے کی گئی ہے۔ گردپوش بہت خوب صورت ہے۔ صحابہ کرامؓ سے الفت و محبت رکھنے والے ہر فرد کو اس کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہیے۔ پیش کش بہت شاندار ہے۔ کتاب کا استقبال ہونا بہت ضروری ہے۔