غیر سندھی باشندے اور حکمران

اشفاق احمد صاحب کا تعلق کراچی سے ہے۔ عرصہ دراز سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ مطالعہ ان کا شوق ہے۔ ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات میں فلسفہ، تاریخ اور سیاست شامل ہیں۔ ان موضوعات پر ان کا مطالعہ جاری رہتا ہے اور وہ اپنا حاصلِ مطالعہ فیس بک پر اپنے پیج ”کتابیں جو میں نے پڑھیں“ کے ذریعے اپنے ناظرین تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ”سندھ۔ غیر سندھی باشندے اور حکمران“ میں انھوں نے موجودہ سندھ کے جغرافیے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں بسنے والے مختلف قبائل، حکمرانوں، اقوام اور ممتاز افراد کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس سندھ میں کون کون، کب کب، کہاں کہاں سے آیا اور کس طرح اس عظیم دھرتی کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا؟ اس سلسلے میں یہاں کے حکمرانوں کا کیا کردار رہا؟ مقامی اور غیر مقامی افراد کے نظریے کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اور کیا یہ واقعی حقیقت ہے بھی یا کہ فقط افسانہ ہے؟ یہ کتاب درجِ ذیل 9 ابواب پر مشتمل ہے:
1۔ سندھ کا قدیم دور، 2۔ لفظ سندھ و سندھی، 3۔ زبان و ادب، 4۔ سندھ کے حکمران، 5۔ انگریز اور سندھ، 6۔ سندھ کے حکمران 1947ء کے بعد، 7۔ سندھ کی چند سیاسی، سماجی علمی و روحانی شخصیات اور ان کا اصل تعلق، 8۔ کچھ کراچی کے بارے میں، 9۔ فرزندانِ کراچی
فاضل مصنف کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں:
”پاکستان کے صوبہ سندھ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کچھ لوگ تو اس کی تاریخ کو پانچ ہزار سال پرانا بھی کہتے ہیں اور گزشتہ پانچ ہزار سال سے اپنے سندھی النسل ہونے پر فخر کرتے ہیں، اور اسی بنیاد پر سندھ کے باہر سے آکر یہاں آباد ہونے والوں کو غیر سندھی یا نیا سندھی سمجھ کر ان کو وہ اہمیت و حقوق دینے کے قائل نہیں ہیں جو کہ ”پرانے“ سندھیوں کو حاصل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اس صوبے میں ”مقامی“ اور ”غیر مقامی“ اقوام کے درمیان کبھی ذہنی، فکری، سیاسی، سماجی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوئی، اور اس بنیاد پر آج بھی دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرتیں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ذرا سندھ کی تاریخ کو کھنگالا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا ویسی ہی صورتِ حال ہے جیسا کہ بیان کی جاتی ہے، یا تاریخ ہمیں کچھ اور ہی تصویر دکھاتی ہے۔ اس لیے یہ تحریر سندھ کی تاریخ، اس کی زبان و ادب، اس میں بسنے والے باشندوں اور یہاں آنے والے ”حملہ آوروں“ کا ایک جائزہ مرتب کرنے کی کوشش ہے تاکہ آخر میں ہمیں درست تاریخی نتائج حاصل ہوسکیں۔ اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ تاریخ کے کچھ اوراق پلٹ کر سندھ کے بارے میں جاننے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔“
فاضل مصنف کی تحقیق کے مطابق سندھ کبھی بھی ایک نسلی علاقہ نہیں رہا بلکہ ایک ”جغرافیائی خطہ“ رہا ہے، جہاں قدیم دور سے جدید دور تک مختلف اقوام آ آ کر آباد ہوتی رہیں اور ہوتی رہیں گی۔ اس لیے اسے کسی ”مخصوص قوم۔ نسل“ کا وطن تاریخی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اشفاق صاحب نے اپنے مؤقف کی تائید میں ”سندھی“ مورخین و محققین ہی کے حوالے پیش کیے ہیں۔
کتاب کا اسلوب سادہ، شستہ اور شائستہ ہے۔ کہیں کسی تعصب کا شائبہ نہیں پایا جاتا۔ سندھ کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔