اُمت محمدی ﷺکا مشن منصب، تقاصے اور مستقبل

(دوسرا اور آخری حصہ)
۴۰ برس قبل یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے منبر پر جارحیت کی تو اُمت ِ اسلامیہ زمین کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک متحرک ہوگئی اور انہدامِ خلافت کے بعد پہلی مرتبہ اس نے اپنی قیادت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مسجد اقصیٰ کی واگزاری کے لیے، چوٹی کی قیادت کی صورت میں جمع ہوں۔ اس کے نتیجے میں ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ قائم ہوئی جو مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ اُمت ِاسلامیہ کی نمایندگی کرسکے۔ یہ تنظیم کمزور اور اس کا دائرۂ اثر محدود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم مؤثر ہو اور عالمِ اسلام کو درپیش مسائل کے سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس وقت حالات بہت گمبھیر ہیں۔ اُمت عراق، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن اور سوڈان میں باہمی قتل و غارت سے دوچار ہے۔
ہم نے علما کے تعاون سے ’عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین‘ قائم کیا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسے بڑے بڑے مسائل پر علمائے اُمت کو ایک نکتے پر جمع کریں جن مسائل کے بارے میں کلمۂ حق کہنے، اُمت کو اس کے فوائد و نقصانات سے آگاہ کرنے اور تفرقہ و آویزش سے بچانے کی ضرورت ہو۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ تصادم، جنگ اور خون ریزی سے بچا جائے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اُمت کی قیادت اور اس کے حکمران اللہ، رسول اور مومنوں کی خاطر ٹھوس موقف اپنائیں، اپنے اختلافات کو ترک کردیں، اپنے کردار کی اصلاح کریں اور حجۃ الوداع میں کی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر کان دھریں کہ: ’’میرے بعد کافرانہ کام نہ کرنے لگ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو‘‘ (بخاری،مسلم)۔ حکمرانوں میں سے صاحب ِ وسائل اور اہلِ بصیرت آگے بڑھیں، اُمت کے دفاع کی غرض سے باہمی تعاون کاماحول بیدار کریں۔ اُمت کی مشکلات دُور کرنے کی کوشش کریں، اس کے شیرازے کو مجتمع کریں اور اس کے تشخص کو بحال کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
اُمت کے وسائل اور امکانات
مسلمان حکمرانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اُمت ِمسلمہ کے پاس ایسے مادی و معنوی وسائل موجود ہیں جو اُمت کو دنیا میں صف ِ اوّل کی قوموں میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ ان نعمتوں، طاقتوں کو اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا کہ یہ اُمت کے لیے فائدے اور رفعت کا باعث بنیں۔
عددی اکثریت:تازہ اعداد و شمار کے مطابق اُمت ِاسلامیہ ایک ارب ۵۷کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے اور یہ تعداد تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے جس نے غیروں کو خوف زدہ کردیا ہے۔ عددی اکثریت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسان اور نعمت کے طور پر بیان کیا ہے۔ فرمایا: وَاذْکُرُوْٓا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ (الاعراف۷:۸۶) ’’یاد کرو وہ زمانہ جب تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمھیں زیادہ کردیا‘‘۔
وافر مادی وسائل: اُمت ِ اسلامیہ زراعت، معدنیات، پٹرولیم، پانی کے وسائل، نہروں، ڈیموں، سمندروں، ساحلوں اور پہاڑوں کی دولت سے مالا مال ہے، اور یہ سب کچھ دنیا کے وسط میں براعظموں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ ساری کی ساری دولت مل جائے اور ایک دوسرے کے لیے معاون ہوجائے تو اُمت ِاسلامیہ ایسی قوت بن جائے گی جس کے خلاف کسی کو جارحیت کی جرأت نہیں ہوسکتی۔
تہذیبـی قوت: اُمت ِاسلامیہ کے پاس تہذیبی قوت بھی ہے۔ یہ اُمت عالمی تہذیبوں کا سرچشمہ رہی ہے۔ ایرانی، رومی، بابلی، فرعونی اور دیگر بہت سی تہذیبوں نے اس کے تہذیبی سوتوں سے نشوونما پائی ہے۔ دنیا کے بڑے آسمانی مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام کا ظہور سرزمینِ عرب میں ہوا۔ تین جلیل القدر رسول حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑاور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم یہاں مبعوث ہوئے۔ چاروں آسمانی کتابیں تورات، زبور، انجیل اور قرآن کا نزول یہاں ہوا۔
روحانی قوت:ہماری اُمت روحانی قوت کے اعتبار سے بھی بہت مضبوط ہے۔ قرآنِ مجید کی صورت میں دستاویزِ الٰہی اس کے پاس ہے اور یہ دستاویز انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے آخری کلمات پر مشتمل ہے۔ مراد ہے قرآن مجید۔ وہ قرآن جس کی کسی سورت سے کوئی ایک لفظ تک نہیں بدلاگیا۔ یہ کتاب آج بھی اسی طرح پڑھی جاتی ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ پڑھا کرتے تھے اور آج اسی طرح کتابت ہو رہی ہے جس طرح عہدِعثمانؓ میں ہوئی تھی۔
جامع اور متوازن فکر:اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ اُمت ِمسلمہ کے پاس ایک ایسا جامع پیغام ہے جو انسانیت کو ایمان عطا کر کے اس سے علم کا ہتھیار چھین نہیں لیتا، اسے روحانیت عطا کر کے مادیت سے محروم نہیں کردیتا۔ آخرت سے نواز کر دنیا سے تہی دامن ہونے کے لیے نہیں کہتا۔ یہ پیغام انسانیت کو آسمان سے قریب کرتا ہے مگر اس سے زمین پر رہنے کا حق نہیں چھینتا۔ وہ انسانیت کو روحانی بلندی عطا کر کے عمرانی و تہذیبی ترقی سے روک نہیں دیتا۔ یہ تو متوازن و معتدل پیغام ہے جو دنیا وآخرت، زمین و آسمان اور دل و دماغ کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کا نعرہ یہ ہے کہ دنیا سے جدا ہوکر دین کچھ نہیں رہتا، اور دین سے کٹ کر دنیا کچھ نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں اس پیغام کے حاملین کی دعا تو یہ ہے: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ ۲:۲۰۱) ،’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر‘‘۔
ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے یوں مناجات کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِیْ o وَأَصَلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِی فِیْھَا مَعَاشِی o وَأَصَلِحْ لِیْ آخِرَتِی الَّتِی اِلَیْھَا مَعَادِیْ o وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَارَۃً لِیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍo وَالْمَوْتَ رَاحَۃً لِیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ o (مسلم)، ’’اے اللہ! میرے لیے میرا دین نفع بخش بنادے کہ یہ میرے معاملے کی آبرو ہے، اور میرے لیے میری دنیا کو بھی درست فرما دے کہ اس میں میری معاش ہے، اور میرے لیے میری آخرت بھی بہتر بنا دے کہ میرا آخری ٹھکانا وہی ہے۔ اے اللہ! زندگی کو میرے لیے ہر خیر میں اضافے کا باعث بنا دے، اور موت کو ہرقسم کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا دے‘‘۔
اُمت ِ اسلامیہ کے پاس یہ مادی و روحانی وسائل اُمت کو ایک شان دار مستقبل کی خوش خبری دیتے ہیں اور اس خوش خبری کی طرف ہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنo (الصف۶۱:۸) ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ مگر افسوس ہے کہ اُمت نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور تہذیبی و روحانی اور اقتصادی و انسانی قوتوں سے جس طرح کام لینے کی ضرورت تھی، نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ روشن چراغ اس کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ مصائب کا حل موجود ہے مگر وہ مسائل سے دوچار چلی آرہی ہے۔
غلبۂ اسلام کی بشارتیں
بے پناہ وسائل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے پاس غلبۂ اسلام کی بشارتیں بھی ہیں جو ہمارے اس یقین کو مزید پختہ کردیتی ہیں کہ مستقبل ہماری اُمت اور ہمارے دین کا ہے۔
قرآنی بشارتیں: سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۵۳)، ’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبہ ۹:۳۳)، ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘۔ یہ بشارت قرآن مجید کی تین سورتوں التوبہ، الفتح اور الصف میں آئی ہے۔ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کا مفہوم تمام ادیان پر غلبے کا ہے۔ یہ غلبہ اس سے پہلے کثیر ادیان پر ہوچکا ہے، یعنی یہودیت، مجوسیت اور مشرقی نصرانیت پر۔ البتہ مغرب کی نصرانیت اور مشرق کی وثنیت [بت پرستی] منتظر ہے کہ اسلام اس پر غالب آئے۔
نبویؐ بشارتیں: نبی کریمؐ کی دی ہوئی بشارتوں کے سلسلے میں حضرت تمیم داری کی روایت کردہ حدیث ہمارے لیے کافی ہے کہ ’’یہ اسلام وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن رات کا سلسلہ پہنچتا ہے۔ اللہ کسی شہری یا دیہاتی کا گھر نہیں چھوڑے گا جہاں باعزت کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ اسلام کو وہاں داخل نہ کردے۔ عزت اس کے لیے جسے اللہ دولت ِ اسلام کے ذریعے اعزاز دے اور ذلّت اس کے لیے جسے اللہ کفر میں رکھ کر ذلیل کرے‘‘۔(احمد)
تاریخی بشارتیں: یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ اسلام مشکل ترین اور شدید ترین بحرانوں میں قوت کے لحاظ سے عظیم قوت اور اپنے وجود کی بقا کے لیے مزاحمت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ صلیبیوں اور تاتاریوں کی جنگوں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اسلام نے ان میں فتح کا پرچم لہرایا۔ ملحد نظریات اور استعمار کے خلاف تازہ جنگوں میں بھی اسلام کی قوت ثابت ہوچکی ہے جن میں اسلام نے استعمار اور ارتداد کا سامنا کیا اور مسلمانوں نے اپنی بے سروسامانی و کمزوری کے باوجود اپنے ممالک کو آزاد کرایا۔
روشن مستقبل: ہم اسلامی بیداری کی تازہ صورتِ حال کا مشاہدہ کرچکے ہیں جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اپنے دین کی طرف رجوع کیا ہے۔ نوجوانوں کو استقامت کا راستہ دکھایا ہے۔ عورتوں کو حجاب پہنا دیا ہے۔ بہت سی کمپنیوں اور بینکوں کو سود سے دُور کردیا ہے۔ مشرق و مغرب میں دعوتِ اسلام اور خدمتِ خلق کی تنظیمیں قائم ہوئی ہیں۔ خود ہم نے ’الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین‘ قائم کیا ہے جس میں اُمت اسلامیہ کے علمائے شریعت نمایندگی کرتے ہیں۔ یہ اتحاد اسلام کے حقیقی موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس اتحاد کو کوئی لالچ اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، نہ کوئی دھمکی مرعوب کرسکتی ہے۔ تنظیم نے قرآن مجید کی اس آیت کو اپنا سلوگن قرار دے رکھا ہے:
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًاo (الاحزاب ۳۳:۳۹) ’’اور جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اور محاسبے کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے‘‘۔
مغرب کی قائدانہ ناکامی
غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں اس بشارت کا اضافہ بھی حقائق و واقعات نے کردیا ہے کہ مغرب جس کی تہذیب نے کئی صدیاں دنیا کی قیادت کی ہے لیکن اس قیادت کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ روحانی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس نے بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل پر دہرے معیارات اپنا رکھے ہیں۔ قرآن کی زبان میں ایک چیز کو ایک سال حلال ٹھیراتے ہیں اور دوسرے سال حرام قرار دے لیتے ہیں (التوبہ۹:۳۷)۔ اس نے دنیا میں الحاد کا رجحان عام کیا ہے جس کے نزدیک کائنات کا کوئی معبود نہیں اور انسان کے اندر کوئی روح نہیں، دنیا کے بعد کوئی آخرت نہیں۔ اسی طرح اس نے اباحیت کو رواج دیا ہے جس نے مرد کی مرد کے ساتھ اور عورت کی عورت کے ساتھ شادی کو جائز قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ تمام ادیان اور انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر انسانیت نے اس کو برقرار رکھا تو ایک دو نسلوں کے بعد وہ تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح امریکہ جو مغرب کا سردار ہے پوری دنیا سے اس طرح معاملات کرتا ہے گویا وہ ایسا معبود ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ اسرائیل جو اس کا بغل بچہ ہے امریکہ اس کے ہرجائز و ناجائز اور ظلم و زیادتی بلکہ چنگھاڑتے ہوئے ظلم کی حمایت کر رہا ہے۔ زمین پر ایسی ناحق،متکبر اور سرکش تہذیب کو زوال آہی جانا چاہیے اور اس کی جگہ کسی اور کو لینی چاہیے، کیونکہ یہ قانونِ الٰہی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ o (الانبیاء ۲۱:۱۰۵)، ’’ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے‘‘۔
دم توڑتی تہذیب کی جگہ لینے کے لیے جو قوم تیار ہے، وہ اُمت ِاسلامیہ ہی ہے۔ اور یہ اُس وقت ممکن ہے جب یہ اُمت اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے پیغام کی حامل بن جائے، اپنے رب کی طرف رجوع کرلے، اپنے ذاتی معاملات کو درست کرلے اور اپنے آپ کو تبدیل کرلے تاکہ اللہ بھی اس کو بدل دے کیونکہ یہ بھی قانونِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد۱۳:۱۱) ،’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
اگر اُمت اپنی بُری حالت کے باوجود اس تہذیب کی وارث بننے اور انسانیت کی قیادت کرنے کی تمنا رکھتی ہے تو یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا! اللہ کا طریق کار کبھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)، ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔