بڑے شہر، بڑی قیمت

دیہات سے شہروں کی طرف مستقل نوعیت کی نقلِ مکانی کوئی ایسا رجحان نہیں جس پر زیادہ حیران ہوا جائے۔ یہ تو دنیا بھر میں ہورہا ہے اور ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ہاں، اب رفتار زیادہ ہے۔ لوگ دیہی ماحول کو ترک کرنے میں اب زیادہ تذبذب کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ شہری زندگی کی کشش اُنہیں مسلسل کھینچتی رہتی ہے۔ دیہی معاشروں کے افراد کے لیے شہری زندگی آج بھی خوابوں کی دنیا جیسی ہے۔ شہر میں آباد کو تہذیب و شائستگی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ دیہی ثقافت میں گندھے ہوئے لوگ بہت سے معاملات میں شہروں کے مکینوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اُن کی پسند و ناپسند بہت الگ ہوتی ہے۔ ترجیحات کے تعین میں وہ جن باتوں کو ترجیح دیتے ہیں اُن کے بارے میں شہری زندگی کے عادی افراد سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ دیہی ثقافت میں آج بھی بہت کچھ پایا جاتا ہے۔ وہاں میل جول بھی شہری زندگی کے معاملے میں قطعی مختلف ہے۔ شہروں میں ہر معاملے کو خالص مادّہ پرستی کی عینک لگاکر دیکھا جاتا ہے۔ دیہی ماحول میں یہ کچھ لازم نہیں۔ وہاں اب بھی بہت سے معاملات میں اخلاص باقی ہے۔ لوگ تنگ دستی کے عالم میں بھی ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ کسی کی مشکل کو نظرانداز کرنے کی روایت وہاں اِتنی مضبوط نہیں کہ شرمندہ ہوا جائے۔
شہری زندگی کے اپنے مسائل اور اپنے تقاضے ہیں۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں، یہ حقیقت تو تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ شہری زندگی انسان سے بہت کچھ اِس طور چھینتی ہے کہ اُسے احساس تک نہیں ہو پاتا۔ خالص مادّہ پرست ذہنیت شہری ثقافت کی پیدا کردہ ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں دیہی ماحول کے لوگ یہ کہنے میں ذرا تامّل نہیں کرتے کہ شہری زندگی انسان کی روح پر ضرب لگاتی ہے۔ کسی بھی ملک میں شہری ماحول یا شہری زندگی حتمی تجزیے میں قابلِ ترجیح نہیں۔ جو لوگ دیہی ماحول کو چھوڑ کر شہروں میں آباد ہوتے ہیں وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ شہری ماحول اُن سے بہت کچھ چھین رہا ہے اور وہ محض تماشائی ہیں یعنی، اپنی ہی دُنیا کے لُٹنے پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔
شہری زندگی کی طرز ہی نہیں، تقاضے بھی مختلف اور پیچیدگیاں بھی الگ نوعیت کی ہیں۔ ہر شہر اپنے اندر بہت سی آسانیاں رکھتا ہے مگر مشکلات اُس سے زیادہ ہوتی ہیں۔ آج دنیا بھر میں دیہی ماحول ترک کرکے شہری زندگی کو اپنانے کا فیشن یا رجحان سا پایا جاتا ہے۔ شہروں کی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ اِس کے نتیجے میں زمین کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے۔ شہروں میں زمین کے مہنگے ہونے سے دیہات کی زمین بھی پہلے جیسی کم قیمت نہیں رہی۔ چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے شہروں سے متصل دیہی علاقوں میں کھیتی باڑی ترک کرکے رہائشی علاقے بنانے کا رجحان قوی ہوتا جارہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ایک طرف تو زیرِ کاشت زمین کا رقبہ گھٹ رہا ہے اور دوسری طرف شہروں کا رقبہ بڑھتا جارہا ہے۔ پھیلتے ہوئے شہر مسائل کے طلسمات کا درجہ رکھتے ہیں۔
شہری زندگی کو اپنانے کی دُھن میں دیہی ماحول کے لوگ بیشتر اوقات ذہن کو بروئے کار لانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ وہ تحت الشعور کی سطح پر ضرور جانتے ہیں کہ شہری زندگی اُن سے بہت کچھ چھین رہی ہے، مگر پھر بھی وہ اس معاملے کو شعور کی سطح پر لاکر کوئی حل نکالنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔
آج کا پاکستان تین چار عشروں پہلے کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ بدلتے ہوئے وقت نے ہم پر بھی غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ شہروں کی آبادی ہمارے ہاں بھی تواتر سے بڑھتی گئی ہے۔ کراچی اور لاہور کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ خاص طور پر کراچی کا، جس کی آبادی سرکاری اندازوں کے مطابق ایک کروڑ 60 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جبکہ غیر جانب دار ذرائع، عوامی حلقوں، غیر سرکاری تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی کسی بھی طور تین کروڑ سے کم نہیں۔ شہر کی وسعت دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط یا بے بنیاد بھی نہیں۔ ملک بھر سے لوگ اب بھی آکر کراچی میں آباد ہورہے ہیں۔ ایک طرف تو شہر میں نسلی اور لسانی تنوع بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف سیاسی و معاشی مفادات کے تصادم کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔
کراچی کی آبادی کے بڑھتے رہنے سے صرف اتنا ہوا ہے کہ دیہات میں بسنے والوں کو یہاں رہنے کا موقع ملا ہے۔ اِس سے ہٹ کر کوئی بھی ایسی بات نہیں ہوئی جس پر فخر کیا جاسکے۔ ٹاؤن پلاننگ نام کی کوئی چیز اب نہیں پائی جاتی۔ شہر کس طور چل رہا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ بنیادی سہولتوں کا نظام کب کا دم توڑ چکا ہے۔ بیشتر معاملات پر متعلقہ مافیا کا قبضہ ہے۔ شہر میں درجنوں ایسے گروہ موجود ہیں جو حالات کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے خوب بروئے کار لاتے ہیں۔ نظم و نسقِِ عامہ کا معاملہ بہت ڈھیلا ہے۔ لوگ بہت سے بنیادی مسائل کے حل کے حوالے سے اتنے پریشان ہیں کہ ڈھنگ سے جینا محض خواب ہوکر رہ گیا ہے۔ شہر میں متعدد گروہ اپنے اپنے مفادات کی تکمیل و حصول کے لیے یوں سرگرم ہیں کہ اچھی حکمرانی کی گنجائش خطرناک حد تک گھٹ گئی ہے۔ سرکاری یا حکومتی مشینری اس قدر بدعنوان ہے کہ انسان دیکھ کر صرف کُڑھ سکتا ہے، کچھ کر نہیں سکتا۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات ہیں۔ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتیں۔
ہر بڑے شہر میں رہنے کی ایک خاص قیمت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں بڑے شہر مہنگے ہیں۔ اُن میں رہنے والوں کو اپنی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ صرف کرنا ہی پڑتا ہے۔ کراچی میں بھی معاملہ مختلف نہیں۔ ہاں، فرق ہے تو اتنا کہ یہاں بہت کچھ خرچ کرکے بھی کچھ خاص بدل نہیں ملتا۔ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں جرائم کا ارتکاب بھی ہوتا ہے اور مختلف گروہوں کے درمیان کشمکش بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اب کوئی بہت حیرت انگیز معاملہ نہیں رہا۔ عام آدمی بھی یہ سب کچھ دیکھ اور جھیل رہا ہے۔ وہ بہت کچھ سمجھ بھی لیتا ہے مگر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باعث اُس کے پاس صرف دل مسوس کر رہ جانے کا آپشن بچتا ہے۔ سرکاری مشینری کی بدعنوانی چونکہ انتہائی غیر معمولی ہے اس لیے عام آدمی اُس سے کسی خیر کی امید وابستہ نہیں رکھتا۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کے بس میں بظاہر بھی کچھ نہیں اور در حقیقت بھی کچھ نہیں۔ وہ شہر میں رہنے کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہے۔ جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں وہ اُن سے فوائد بٹورنے میں مصروف ہیں۔ اُنہیں بظاہر اس بات سے کچھ بھی غرض نہیں کہ عام آدمی پر کیا گزرتی ہے، اُس کی زندگی کا رنگ ڈھنگ کیا ہے اور اُس کے لیے معاملات کو کس طور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ گورننس نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی۔ وفاقی، صوبائی اور مقامی تینوں سطحوں پر صرف اور صرف بدعنوانی ہے، مفادات کا تصادم ہے۔ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی نے جو مسائل پیدا کیے ہیں اُن کے حل پر توجہ دینے کے لیے سرکاری مشینری کسی طور راضی نہیں۔ تنخواہیں اور مراعات بٹورنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ معاملات مفادات سے شروع ہوکر مفادات پر ختم ہورہے ہیں۔ عام آدمی مسائل کی چکی میں پس رہا ہے۔ اُس کے نصیب میں جو طرزِ زندگی ہے اُس میں رنگ ہے نہ رس۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں زندگی بسر کرنا اب محض معمول نہیں، چیلنج ہے۔ انسان کو جتنی سانسیں عطا کی گئی ہیں اُن کا بیشتر حصہ محض دن کو رات اور رات کو دن کرنے میں کھپ جاتا ہے۔ انسان دو وقت کی روٹی کے اہتمام کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتا۔ ویسے تو ہر شہر میں رہنے کی ایک خاص قیمت الگ سے چُکانا ہی پڑتی ہے۔ بڑے شہروں میں یہ قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا شہر سب سے مہنگا ہی نہیں، سب سے پیچیدہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے شہر کی عمومی زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی پیچیدگی سے پاک نہیں ہوتا۔ کراچی کو بھی قدرت نے اس معاملے میں استثنیٰ نہیں دیا۔ یہاں بھی لوگ یوں جی رہے ہیں کہ جی نہیں پارہے۔ گویا ؎
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے!
شہری زندگی کی قیمت چُکاتے چُکاتے انسان دنیا سے چلا جاتا ہے۔ یہ ایک مایا جال ہے جس سے نکلنے کی راہ کم ہی لوگوں کو سُوجھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہری زندگی نے انسان سے سب کچھ چھین لیا ہے، زندہ رہنے کا حق بھی۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والے بیشتر افراد کا معاملہ یہ ہے کہ جائے رفتن نہ پائے ماندن، یعنی چلنے کے لیے راہ نہیں ملتی اور جہاں کھڑے ہوں وہاں کھڑے رہنے کی گنجائش بھی ختم ہوتی جاتی ہے۔ زندگی کے خاکے میں رنگ بھرنے کی گنجائش دم توڑتی جارہی ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والوں کو زندگی کے بنیادی تقاضے نبھانے ہی سے فرصت نہیں مل پاتی۔ اس سطح سے بلند ہونا نصیب ہو تو کچھ کیا بھی جائے۔
آج کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، سکھر، حیدرآباد، کوئٹہ، پشاور سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہر مسائلستان بنے ہوئے ہیں۔ اِن میں بسنے والوں کے لیے زندگی دن بہ دن دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔ زندہ رہنے کی قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ ذوقِ لطیف پروان چڑھانے کی گنجائش گھٹتی جارہی ہے۔ لوگ علم و فن سے دور ہوچکے ہیں۔ گھر چلانے کے جھنجھٹ نے زندگی کے بنیادی رنگوں کو پھیکا کر ڈالا ہے۔ جمالیاتی حِس آخری سانسیں لے رہی ہے۔ جنہیں اللہ نے خوش مذاق بنایا ہے وہ بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ علم و فن کی بات کرنا معیوب معاملات میں سے ہوگیا ہے۔ عام آدمی ڈھنگ سے پڑھنا بھی نہیں جانتا۔ ایسے میں اُس سے بلند معیار کے مطالعے کی توقع کیونکر وابستہ کی جاسکتی ہے؟ کراچی سمیت ہر بڑا شہر ہمارے سرسبز و شاداب اور زرخیز ذہنوں کو کھا رہا ہے۔ خالص حیوانی سطح کی زندگی کو واحد آپشن میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس سطح سے بلند ہوکر جینا ہر انسان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان میں شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ لوگ شہری زندگی میں کشش محسوس کرتے ہوئے دیہی زندگی کو ترک کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ دیہات میں بھی مشکلات ہیں تاہم بڑے شہروں میں زیادہ مشکلات ہیں۔ دیہات سے شہروں کو نقلِ مکانی کا سلسلہ روکنے اور بڑے شہروں کو بہت بڑا ہونے اور بگڑنے سے بچانے کی ایک اچھی صورت یہ ہے کہ قصبے بسانے پر توجہ دی جائے۔ دیہات سے جُڑے ہوئے ایسے شہر آباد ہونے چاہئیں جن میں دیہی زندگی کا حُسن بھی موجود ہو۔ یہ طرزِ زندگی انسان کو بہت سے معاملات میں غیر معمولی فرحت کا احساس دلا سکتا ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے کی قیمت اِتنی زیادہ ہے کہ اِس سے ہٹ کر کچھ سوچنے کی گنجائش نہیں نکل پاتی۔ دیہی علاقوں سے آنے والے شہروں میں گھسٹ گھسٹ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ زمین مہنگی ہونے کے باعث ذاتی مکان خریدنا بچوں کا کھیل نہیں۔ کرائے کے مکانوں میں زندگی بسر کرنا بھی ایک بڑا دردِ سر ہے۔ سستا مکان گھٹیا علاقے میں ملتا ہے اور بڑھیا مکان کا کرایہ اِتنا زیادہ ہوتا ہے کہ باقی تمام معاملات بُری طرح رُل جاتے ہیں۔ ہر سطح کی حکومت پر لازم ہے کہ عوام کو اُن کے آبائی علاقوں ہی میں بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا اور اس حوالے سے نجی شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا لازم ہے، تاکہ بڑے شہروں کو بہت بڑا ہونے اور ناقابلِ اصلاح ہونے سے بچایا جاسکے۔ شہری زندگی کی قیمت اِتنی زیادہ نہیں ہونی چاہیے کہ انسان صرف دو وقت کی روٹی کے اہتمام کی سطح سے بلند نہ ہوپائے۔ علم و فن پر متوجہ ہونے کی گنجائش بھی رہنی چاہیے تاکہ زندگی کا لطیف پہلو مکمل طور پر نظرانداز نہ ہو۔