پولیو کا چیلنج اور حکومتی ذمے داریا

ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختون خوا کے تمام اضلاع سمیت صوبائی دارالحکومتوں میں بھی گزشتہ پیر کو پولیو کا عالمی دن پاکستان سے اس موذی مرض کے مستقل خاتمے کی تجدیدِ عہد کے ساتھ منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت، نیز پولیو کے خاتمے کے عزم کے ساتھ سول سیکرٹریٹ پشاور میں ایک خصوصی تقریب کا انعقادکیا گیا جس کے مہمانِ خصوصی چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا ڈاکٹر شہزاد بنگش تھے، جب کہ اس موقع پر سیکرٹری صحت عامر ترین اور ایڈیشنل سیکرٹری صحت (پولیو) آصف رحیم بھی موجود تھے۔ انہوں نے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکیسین کے قطرے پلاکر اکتوبر کی مہم کا باضابطہ افتتاح کیا۔ یاد رہے کہ اِس سال پولیو کے عالمی دن کا تھیم ’’ماں اور بچوں کا صحت مند مستقبل‘‘ تھا۔ یونیسیف کے صوبائی سربراہ ڈاکٹر اینڈریو ایٹسانو، ڈبلیو ایچ او ٹیم لیڈر ڈاکٹر گیڈی، نیشنل ٹیم لیڈر این اسٹاپ بریگیڈیئر (ر) کمال سومرو اور صوبائی ٹیم کے سربراہ این اسٹاپ ڈاکٹر حفیظ اللہ خان سمیت مختلف محکموں کے افسران نے بھی اس تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی۔
افتتاح کے بعد پولیو کے خاتمے کے لیے صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس کے دوران اگست کی NIDs کے لیے تمام اضلاع کی کارکردگی اور اکتوبر کی مہم کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔ چیف سیکرٹری ڈاکٹر شہزاد بنگش نے ٹاسک فورس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے صوبائی ای او سی، ضلعی ٹیموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے کوششیں درست سمت میں جاری ہیں، امید ہے کہ خطہ جلد اس لعنت سے پاک ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انگلیوں کے جعلی نشانات اور انکار کی رپورٹنگ اصلاح کے لیے بہتر ہے کیونکہ جب تک اس مسئلے کی اطلاع نہیں دی جاتی اس کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔ انہوں نے سیلاب کے دوران ہیلتھ کیمپوں کے انعقاد اور آؤٹ ریچ سرگرمیوں کو تیز کرنے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اچھے اقدامات ہیں جنہوں نے معمول کے حفاظتی ٹیکوں کی صورت حال اور چھوٹ جانے والے بچوں کی کوریج کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ فورم کو آئندہ سب نیشنل امیونائزیشن ڈرائیو (SNIDs) کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ (پولیو) اور کوآرڈی نیٹر ای او سی نے کہا کہ اس مہم کی منصوبہ بندی صوبے کے 28 اضلاع میں کی گئی ہے جس میں 4.38 ملین سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے، جبکہ چار اضلاع میں ڈی آئی خان، ٹانک، جنوبی وزیرستان اور لکی مروت میں اورل پولیو ویکسین (OPV) مہم کے ساتھ فریکشنل ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسینیشن (fIPV) مہم چلائی جائے گی۔
آصف رحیم نے کہا کہ اکتوبر میں مہم 17 اضلاع میں مکمل طور پر چلائی جائے گی جن میں بنوں، لکی مروت، شمالی وزیرستان، ڈی آئی خان، ٹانک، جنوبی وزیرستان، کوہاٹ، ہنگو، کرک، اورکزئی، پشاور، خیبر، چارسدہ، نوشہرہ، مہمند، سوات، باجوڑ، جبکہ بونیر، چترال اپر اینڈ لوئر، دیر اپر اینڈ لوئر، ہری پور، کرم، مالاکنڈ، مانسہرہ، مردان اور صوابی سمیت 11 اضلاع کی منتخب یونین کونسلوں میں جزوی مہم چلائی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اکتوبر کی مہم میں بچوں کو قطرے پلانے کے لیے مجموعی طور پر 15212 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن میں سے 13374 موبائل ٹیمیں، 1101 فکس اور 737 ٹرانزٹ ٹیمیں ہیں، جبکہ 3214 ایریا انچارج مہم کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری صحت نے کہا کہ صوبائی حکومت ملک سے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے اور ہدف کے حصول کا واحد راستہ ہر مہم میں تمام اہل بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے تمام والدین پر زور دیا کہ وہ پولیو ٹیموں کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی اجازت دیں۔ انہوں نے کہا کہ فرنٹ لائن ورکرز اور کمیونٹی کے تعاون سے آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ، صحت مند اور پولیو سے پاک پاکستان بنانے کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
دریں اثناء اطلاعات کے مطابق محکمہ صحت کے حکام نے پیر ہی کے روز جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا اور سرواکئی میں تین روزہ انسدادِ پولیو مہم سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ملتوی کردی ہے، تاہم قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر وانا میں انسدادِ پولیو مہم بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی۔ حکام نے حفاظتی ٹیکوں کی مہم روکنے کا فیصلہ پیرامیڈیکس کے احتجاج کے بعد کیا، جنہوں نے یہ کہتے ہوئے انسدادِ پولیو مہم میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا کہ انہیں نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کے ڈاکٹر حمیداللہ خان نے کہا کہ وانا میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے انسدادِ پولیو مہم چلائی جا رہی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر شام الرحمان داوڑ نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان کے محسود آباد علاقوں میں بچوں کو خسرہ، خناق اور بچپن کی دیگر قابلِ علاج بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کی مہم چلائی جا رہی ہے، البتہ سب ڈویژن لدھا اور سرواکئی میں تین روزہ انسداد پولیو مہم سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ملتوی کردی گئی ہے ۔
واضح رہے کہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوئے عرصہ بیت چکا ہے جبکہ پاکستان افغانستان کے بعد دوسراملک ہے جہاں نہ صرف پولیو کا ناسور موجود ہے بلکہ آئے روز اس کے کیسوں میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ اس وقت تک پاکستان میں پولیو کے بیس کیس رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سترہ کیس شمالی وزیرستان، ایک جنوبی وزیرستان اور دو ان دو اضلاع سے ملحقہ ضلع لکی مروت میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ پولیو کیسز میں اضافے کے حوالے سے ایک تشویش ناک پہلو اس کا خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع اور بالخصوص شمالی، جنوبی وزیرستان اور لکی مروت میں سامنے آنا ہے۔ ان علاقوں میں ماضی میں چونکہ بدامنی کا دور دورہ رہا ہے اور یہاں کے باسیوں کو اپنے علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنی پڑی تھی، شاید اس وجہ سے یہاں کی ایک بڑی آبادی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے معذور رہی تھی، لیکن اب جب حکومتی اداروں کا دعویٰ ہے کہ ان علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا جاچکا ہے اور یہاں پر حکومتی رٹ بحال کردی گئی ہے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی خصوصی مہمات چلائی جاتیں، لیکن عملًا اس حوالے سے اب بھی سردمہری نظر آتی ہے۔
میڈیا میں یہ بات رپورٹ ہوچکی ہے کہ مقامی سطح پر مقامی سرکاری اہلکار امن وامان کی مخدوش صورتِ حال اور پولیو ٹیموں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی وجہ سے پولیو مہمات چلانے سے مسلسل یا تو انکار کررہے ہیں، یا پھر اس ضمن میں وہ دلچسپی نہیں لی جارہی ہے جو کہ اس موذی مرض کے مستقل تدارک کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں
کہ پولیو ٹیموں نے حکومت سے فول پروف سیکورٹی کا مطالبہ کیا ہے، اس مطالبے میں کہا جارہا ہے کہ جب تک پولیو ٹیموں کو مسلح افواج سیکورٹی فراہم نہیں کریں گی، تب تک پولیو ٹیمیں فیلڈ میں پولیو ویکیسین کے قطرے پلانے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ خیبر پختون خوا میں ماضی میں کئی اضلاع میں پولیو ٹیموں پر قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں جن میں پولیو ورکرز کے علاوہ سیکورٹی اہلکار بھی نشانہ بنتے رہے ہیں، لہٰذا شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو ورکرز کی جانب سے فول پروف سیکورٹی کی فراہمی کا مطالبہ اس حوالے سے بھی برحق اور مبنی بر انصاف نظر آتا ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے ان دونوں قبائلی اضلاع سمیت بعض دیگر علاقوں سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ اس تناظر میں پولیو ورکرز میں پائے جانے والے خوف اور ان کے مطالبے میں خاصا وزن نظر آتا ہے۔ لہٰذا اگر حکومت وطنِ عزیز سے پولیو کے خاتمے میں واقعی سنجیدہ ہے اور چاہتی ہے کہ دنیا کی طرح پاکستان سے بھی پولیو کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے تو اس کے لیے جہاں متاثرہ علاقوں میں پے درپے مہمات کا چلایا جانا ضروری ہے، وہاں ان مہمات کو چلانے والے اہلکاروں کی جان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں عمومی طور پر ایسی فضا بھی بنانی ہوگی جس میں لوگ خوشی اور اپنی مرضی سے اپنے بچوں کو پولیوسے حفاظت کے قطرے پلانے پر آمادہ ہوں۔ لہٰذا توقع ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے وطنِ عزیز کو پولیو سے پاک کرنے کے قومی مشن اور بین الاقوامی ذمے داری کی ادائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی اور ان مہمات کو کامیاب بنانے کے لیے کسی بھی سطح پر کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔