گرے لسٹ سے نکلنے کا کیا فائدہ ہوگا؟

معروف کالم نگار خادم ملغانی نے اتوار 23 اکتوبر 2022ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’ایک دن قبل حکومت کو بیک وقت دو بڑی خوش خبریاں ملیں، ایک اچھی خبر تو ساری قوم کے لیے ہے، لیکن ایک سیاسی خبر کا تعلق حکومت اور اس کی قیادت سے ہے۔ پاکستان کا چار برس کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آنا، اور دوسرا توشہ خانہ کیس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا نااہل ہونا… دونوں اہم بڑی خبروں کا تعلق ملک کی معیشت، عالمی سطح پر ساکھ اور سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے اہم ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد وہ عدالت میں جانے کی وجہ سے صورتِ حال واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا، لیکن ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر واضح ہوچکا ہے کہ پاکستان کے لیے مزید غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ دہشت گردوں کی مالی مدد اور منی لانڈرنگ کا لیبل ہٹ جانا انتہائی غیر معمولی کامیابی ہے اور دوسری بڑی کامیابی بھارت کی تمام کوششوں کو ناکام بنانا ہے، جس کی حتی الامکان جستجو رہی کہ پاکستان گرے لسٹ سے بھی بلیک لسٹ میں چلا جائے، اور اگر نہیں جاتا تو کم از کم گرے لسٹ ہی میں برقرار رہے۔ لیکن اس معاملے پر عملی کوششوں کے نتیجے میں گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیابی نصیب ہوئی، اور ایسی صورتِ حال میں جب پاکستان سیلاب کی وجہ سے تباہی کا سامنا کررہا ہے، اسے عالمی امداد کی شدید ضرورت بھی ہے، گرے لسٹ سے باہر آجانا بسا غنیمت ہے۔
34 نکاتی پلان ڈیڈ لائن سے پہلے ہی مکمل ہونا اور اس کا عالمی سطح پر اعتراف ایک طرف… لیکن دنیا کا یہ اعتماد برقرار رکھنا بھی کسی چیلنج سے کم ہرگز نہیں ہوگا۔ فیٹیف نے اینٹی منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف تو کیا ہے لیکن اس کے بیان سے یہ بھی لگتاہے کہ یہ ادارہ پاکستان سے نظریں نہیں ہٹائے گا۔ نہ صرف زیر نگرانی رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان سے یہ امید رکھی جارہی ہے کہ وہ ایشیا پیسفک گروپ سے مل کر اپنے نظام کو مزید بہتر بناتا رہے گا۔ فیٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے پر ساری قوم خوش ہے، کیوں کہ ہمارا فوری طور پر خیال عالمی فنڈنگ ملنے/ حاصل کرنے کی طرف جاتا ہے، کیوںکہ گرے لسٹ میں رہنے کا نقصان بھی بہت زیادہ ہوا ہے۔ کسی بھی ملک کے گرے لسٹ میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ فیٹیف کی طرف سے مالی نظام میں کوتاہیوں اور خامیوں کو ختم کرنے کے لیے دیئے گئے پلان پر عمل کرنے کے لیے راضی ہوتا ہے۔
ایک پاکستانی تھنک ٹینک نے 2021ء میں رپورٹ دی تھی کہ تین مرتبہ گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے پاکستان کا 38 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان جب 2009ء اور 2015ء میں گرے لسٹ سے نکلا تو اس کے بعد بھی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات برقرار رہے۔ مطلب یہ ہے کہ کم سے کم ایک سال گرے لسٹ کے اثرات سے نکلنے کے لیے درکار ہوگا۔ اس سے یہ امر واضح ہوا کہ اگر ہم آج گرے لسٹ سے باہر نکلے ہیں تو فوری طور پر ملکی معیشت پر اس کے اثرات واضح نہیں ہوں گے، بلکہ وقت لگے گا۔ ہاں یہ امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ ماضی میں ہونے والے نقصان کا کسی نہ کسی حد تک ازالہ ہوگا۔ گرے لسٹ سے نکل کر پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک شرط بھی پوری کی ہے، کیوںکہ کچھ عرصہ قبل ہونے والے مذاکرات میں اس نے فیٹیف کا معاملہ بھی اٹھایا تھا، اور پاکستان کو مارچ 2022ء تک سارے قدم اٹھانے تھے۔ فیٹیف کی گرے لسٹ کے بعد پاکستان کے بینکاری نظام میں سختی کی گئی، جس کی وجہ سے کاروبار یا ٹرانزیکشنز مہنگی ہوگئیں۔ فیٹیف اصلاحات کی وجہ سے پڑتال سخت ہوتی رہی۔ لیکن اب بینکنگ ٹرانزیکشن میں ایسے سخت مرحلے سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ بیرونِ ملک سے آنے والوں کے لیے یہ لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وہ ملک میں پہنچ کر کرنسی ظاہر کریں۔ اس پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا، اور اب یہ سختی بھی ختم ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ فیٹیف کے جن 34 نکات کے تحت اصلاحات کی گئیں اور قانون سازی کی گئی وہ دراصل ہمارے نظام میں موجود جھول تھے، جو ختم کیے گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اصلاحات کس قدر مؤثر رہیں گی۔ گرے لسٹ میں اُن ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جہاں قانون کو لاگو کرنے میں مسائل لاحق ہوں اور وہ فیٹیف سے مل کر وہ قانونی جھول ختم کرنے کے لیے ارادہ ظاہر کریں۔ اس طرح سے بلیک لسٹ میں اُن ’’ہائی رسک‘‘ ملکوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کے اینٹی منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیرر فنانسنگ کے حوالے سے قواعد اور قوانین میں خامیاں موجود ہوں۔ ان ممالک پر پابندیوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
فیٹیف کوئی معمولی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ پیرس میں منعقدہ حالیہ اجلاس میں 206 ممبر ممالک نے شرکت کی۔ آئی ایم ایف، اقوام متحدہ، عالمی بینک اور انٹرپول جیسی تنظیمیں اس میں بطور ممبر شامل ہیں۔ ہم گرے لسٹ سے باہر نکل تو گئے ہیں لیکن اس کے فوائد لینے کے لیے پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔ اگرچہ کسی فوری مالی یا فنڈنگ کا امکان تو نہیں ہے البتہ امید کا ایک دیا ضرور روشن ہوا ہے۔ اس امید کو روشن رکھنے کے لیے یہ بات یاد رکھنی پڑے گی کہ ہم گرے لسٹ سے نکلنے کے باوجود زیر نگرانی ہیں، گرے لسٹ سے ہم باہر نکل تو آئے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے اس سے باہر رہنے کی خاطر کیا کرنا پڑے گا، اس حوالے سے ایٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک انیشیٹیو کے مطابق گرے لسٹ میں ہونے کے دو حصے تھے، جن میں سے ایک تو مالیاتی نظام مضبوط کرکے منی لانڈرنگ کا خاتمہ کرنا تھا اور دوسرا داخلی سطح پر اُن افراد اور تنظیموں کا گھیرا تنگ کرنا تھا جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ پاکستان نے اپنے مالیاتی نظام کو بڑی سعیِ بسیار کے بعد فیٹیف کی سفارشات کے مطابق تشکیل دیا ہے، لیکن زمینی حقائق کو کنٹرول میں رکھنا بھی مالیاتی نظام کی طرح کنٹرول میں رکھنے کی طرح ضروری ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری وغیرہ براہِ راست اب ہو تو پائے گی لیکن ظاہر ہے کہ مکمل طور پر اعتماد کی بحالی میں ابھی مزید وقت لگے گا۔ پاکستان کے لیے بینکنگ کے نظام کو بہتر کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔‘‘