عورت کی امامت

نماز باجماعت میں عورت امام بن سکتی ہے یا نہیں؟ جمہوری علماء اس بارے میں عدم جواز کے قائل ہیں۔ بعض کے ہاں نفلی نماز میں وہ امام بن سکتی ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہ آگے کھڑی نہ ہو بلکہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوکر امامت کرائے، اور کوئی مرد کسی عورت کا مقتدی کسی صورت نہیں بن سکتا۔ لیکن اس بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم عورت کی امامت کو ہر صورت جائز خیال کرتے ہیں، ان کے نزدیک عورت مرد کی امامت بھی کرسکتی ہے اور باقاعدہ آگے کھڑی ہوکر جماعت میں امام بھی بن سکتی ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، وہ فرماتے ہیں:
”پیرس میں ایک افغان لڑکی طالب علم کے طور پر آئی تھی۔ ہالینڈ کا طالب علم جو اس کا ہم جماعت تھا، اس پر عاشق ہوگیا۔ عشق اتنا شدید نکلا کہ اس نے اپنا دین بدل کر اسلام قبول کرلیا۔ ان دونوں کا نکاح ہوا، اگلے دن وہ لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ بھائی صاحب میرا شوہر مسلمان ہوگیا ہے اور وہ اسلام پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے نماز نہیں آتی اور اس کا اصرار ہے کہ میں خود امام بن کر نماز پڑھائوں۔ کیا وہ میری اقتداء میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر تم کسی عام مولوی سے پوچھو گی تو وہ کہے گا کہ یہ جائز نہیں لیکن میرے ذہن میں رسول اللہ ﷺ کے طرزِعمل کا ایک واقعہ حضرت ورقہؓ کا ہے۔ اس لیے استثنائی طور پر تم امام بن کر نماز پڑھائو۔ تمہارے شوہر کو چاہیے کہ مقتدی بن کر تمہارے پیچھے نماز پڑھے اور جلد ازجلد قرآن کی ان سورتوں کو یاد کرے جو نماز میں کام آتی ہیں۔ کم از کم تین سورتیں یاد کرے اور تشہد وغیرہ یاد کرے، پھر اس کے بعد وہ تمہارا امام بنے اور تم اس کے پیچھے نماز پڑھو‘‘۔
حضرت ورقہؓ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ ’’ام ورقہؓ حافظہ تھیں، ان کو رسول اللہ ﷺ نے ان کے محلے کی مسجد کا امام مقرر فرمایا تھا۔ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے، ان کا موذن ایک مرد تھا۔ ظاہر ہے کہ موذن بھی بطور مقتدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ حضرت ام ورقہؓ حضرت عمرؓ کے زمانے تک زندہ رہیں اور مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتی رہیں، جس سے اس بات کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے کہ شاید یہ حکم رسول اللہﷺ نے بعد میں منسوخ فرمایا ہو‘‘۔
البتہ ڈاکٹر صاحب اس جملے کا اضافہ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات عام قاعدے میں کوئی استثنا کی صورت پیش آجاتی ہے، ممکن ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام ورقہؓ کا تقرر بھی کسی ایسی ہی استثنائی صورت کے پیش نظر فرمایا ہو۔
(انتخاب، تدوین اور تلخیص: محمود عالم صدیقی، ’’فکر و نظر‘‘ کی
ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ پر خصوصی اشاعت، اپریل۔ ستمبر 2003ء، تالیف صفحہ 283)
مجلس اقبال
یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نِگہ بے باک

اس شعر میں علامہ نے جدید تہذیب کی حقیقت سے آگاہ بھی کیا ہے اور اسے شدید طنز کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کے پیروکار اپنے آپ کو بہت روشن دماغ قرار دیتے ہیں، مگر پوری بات نہیں کرتے، یعنی ان کی سوچ کے بارے میں روشن ہونے کا دعویٰ تو کر ڈالتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان کے دل اتنے تاریک ہیں اور ان کی نظریں کس قدر بے شرمی اور بے حیائی سے بھرپور ہیں، یعنی دل کی دنیا تاریک تر اور نگاہیں بصارت سے محروم ہیں تو ایسی روشن دماغی انسان کے کس کام کی! علامہ کا مستقل فلسفہ ہے کہ جب تک انسان کے دل کی دنیا روشن نہ ہو اور اس کی نگاہیں بصارت و بصیرت سے مالا مال نہ ہوں، وہ حقیقی طور پر انسانیت کے مقامِ بلند سے محروم رہتا ہے۔