ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان کے حوالے سے یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا کہ لوگ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اندیشوں میں مبتلا ہوںگے اور سوال اٹھائیں گے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ ہمیں کالم لکھتے ہوئے 32 سال ہوگئے ہیں، مگر ان 32 برسوں میں کبھی ہم سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ پاکستان کا کیا ہونے والا ہے؟ مگر گزشتہ بیس دنوں میں ایک درجن سے زیادہ لوگ ہمیں ’’دانش ور‘‘ سمجھ کر ہم سے پوچھ چکے ہیں کہ آخر پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ ان لوگوں میں نوجوان بھی ہیں اور ادھیڑ عمر کے افراد بھی، ان میں متوسط طبقے کے لوگ بھی ہیں اور بالائی طبقات کے نمائندے بھی، ان میں پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے بھی ہیں اور پاکستان سے اوسط درجے کی الفت رکھنے والے بھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کے سیاسی اور معا شی حالات ابتر ہیں، بلکہ اب مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ پاکستان ’’وجودی بحران‘‘ کا شکار ہوگیا ہے۔ یعنی اب لوگوں کے اذہان میں یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ ایک قوم اور ایک ریاست کی حیثیت سے ہمارا کوئی مستقبل ہے یا نہیں؟ اصول ہے جب ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو صرف حکومت ناکام ہوتی ہے، جب کئی حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو ایک یا کئی جماعتیں ناکام ہوتی ہیں، مگر جب ہر حکومت ناکام ہونے لگے تو ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ صرف چھے مہینے پہلے کی بات ہے کہ عمران خان کی حکومت کی ناکامی کا ماتم عام تھا۔ کہا جارہا تھا کہ عمران خان سے نہ معیشت سنبھل رہی ہے نہ سیاست سنبھل رہی ہے۔ چنانچہ عمران خان کو گرا کر میاں شہبازشریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت کو برسراقتدار لایا گیا، مگر پی ڈی ایم کی حکومت عمران خان سے بھی زیادہ ناکام ہے۔ اس سے بھی نہ معیشت سنبھل رہی ہے، نہ مہنگائی کنٹرول ہورہی ہے، نہ سیلاب کے چیلنج کا جواب دیا جا رہا ہے، نہ یہ حکومت عمران خان کی مقبولیت سے نمٹ پا رہی ہے، نہ ہی اس سے ضمنی انتخابات جیتے جارہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے وجودی بحران کا تعلق اتنے سرسری معاملات سے نہیں ہے، اس بحران کا ایک بہت بڑا تاریخی تناظر موجود ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے یہ بات ہر پاکستانی کے ’’سیاسی عقیدے‘‘ کا حصہ تھی کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی سال بہت دشوار تھے۔ پاکستان کا خزانہ خالی تھا، فوج نہ ہونے کے برابر تھی، لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ درپیش تھا۔ لیکن ان بڑے چیلنجوں کے باوجود ہر پاکستانی کا اس بات پر یقین تھا کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے۔ مگر سقوطِ ڈھاکا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے پاکستان کے مستقبل پر قوم کے یقین کو متزلزل کردیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب مشرقی پاکستان میں حالات خراب تھے تو جنرل نیازی نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ بھارتی فوجی ان کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح جنرل یحییٰ خان نے سقوطِ ڈھاکہ سے چند روز پہلے قوم سے خطاب کرکے یہ فرمایا تھا کہ قوم ہرگز نہ گھبرائے، ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر قوم نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد دیکھا کہ جنرل نیازی کی لاش کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اور بھارتی فوجی ڈھاکا میں دندنا رہے تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ قوم کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں نہیں انتہائی کمزور ہاتھوں میں تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی اتنا بڑا سانحہ تھا کہ ہماری اجتماعی نفسیات دائمی طور پر اس کے زیراثر چلی گئی۔ آج بھی ہم اسی نفسیات کے زیراثر ہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد ہر بحران میں ہمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی یاد آتی رہی۔ ہمیں یاد ہے کہ جب 1980ء کی دہائی میں ایم آر ڈی نے جنرل ضیا الحق کے خلاف تحریک چلائی اور جنرل ضیاء الحق نے دیہی سندھ میں طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا تو روزنامہ جسارت کے صفحہ اوّل پر پروفیسر غفور احمد اور شاہ احمد نورانی کا یہ بیان شائع ہوا کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ کوئی خیالی پلائو نہیں تھا۔ چند روز بعد بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سندھ میں بڑا ظلم ہورہا ہے۔ اندرا گاندھی کے اس بیان نے ایم آر ڈی کی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ اہم بات یہ ہوئی کہ بھارت نے سندھ کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ بھارت ایسا کرتا تو پاکستان کے لیے بڑی مشکل ہوجاتی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے دہشت گردی اور پُرتشدد ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔ اس زمانے میں ایم کیو ایم کے زیر اثر کراچی کے شام کے اخبارات میں اس طرح کی سرخیاں شائع ہوتیں کہ ’’آج مقبوضہ کشمیر میں پانچ اور کراچی میں دس افراد ہلاک ہوئے۔‘‘ اس عرصے میں الطاف حسین نے ایک بار دو روز کی ہڑتال کا اعلان کردیا جس سے گھروں میں اشیائے ضرورت ختم ہوگئیں۔ ہم ایک رات دفتر سے گھر پہنچے تو ہماری بیگم صاحبہ نے بتایا کہ گھر میں بچوں کے لیے دودھ نہیں ہے۔ ہم دودھ کی تلاش میں گھر سے نکلے تو دیکھا کہ جگہ جگہ لوگ چار چار، پانچ پانچ کی ٹولیوں میں جمع ہیں اور ان کی زبان پر ایک ہی بات ہے ’’بس بہت ہوگیا، اب کراچی کو پاکستان سے الگ ہوجانا چاہیے۔‘‘ کراچی میں حالات اتنے مخدوش ہوگئے کہ ایک دن روزنامہ جنگ میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کا بیان ایک کالم میں رپورٹ ہوا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فورسز اتر چکی ہیں۔ ہم نے بعدازاں قاضی صاحب سے اس بیان کے بارے میں پوچھا تو قاضی صاحب نے کہا کہ بھائی صورتِ حال یہ تھی کہ بوسنیا میں پاکستان کے فوجی اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ بن کر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ فوجی وطن واپس لوٹے تھے اور کراچی کی بندرگاہ پر ان کے ساز و سامان پر اقوام متحدہ کے پرچم لہرا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ایک ’’ذریعے‘‘ نے مجھے فون کردیا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی امن فوج اتر چکی ہے۔ چنانچہ اس بنیاد پر میں نے بیان دے دیا۔ بہرحال اس واقعے سے ثابت ہوا کہ ایک بحرانی صورت میں قاضی صاحب جیسے رہنما کو بھی یہ خیال آہی گیا کہ ملک کا سب سے بڑا شہر شاید ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے سارا ملک امریکہ کے حوالے کردیا تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوگئی اور لاکھوں ذہنوں میں یہ سوال کلبلانے لگا کہ کیا ہم اس بحران میں اپنا قومی وجود برقرار رکھ سکیں گے؟ بے نظیر بھٹو قتل ہوئیں تو ایک بار پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے زلزلے کے جھٹکے ہمارے اجتماعی شعور میں متحرک ہوگئے۔ صورتِ حال اتنی مخدوش ہوئی کہ آصف علی زرداری کو ’’پاکستان کھپے‘‘ یعنی ’’پاکستان چاہیے‘‘ کا نعرہ لگانا پڑ گیا۔ آصف زرداری یہ نعرہ نہ لگاتے تو ہمارے مستقبل کا سوال ہمارے اجتماعی شعور کو جھلساتا رہتا۔ دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں کئی ملک ہیں جنہیں بڑے داخلی بحرانوں کا سامنا ہے۔ بھارت میں ایک درجن سے زیادہ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر بھارت کو اپنا قومی وجود خطرات میں گھرا نظر نہیں آتا۔ بھارتی پنجاب میں خالصتان کی بڑی تحریک موجود تھی مگر اس کے باوجود اندرا گاندھی نے سکھوںکے کعبے گولڈن ٹیمپل پر اعتماد کے ساتھ فوج چڑھا دی۔ اندرا گاندھی کو ان کے سکھ محافظ نے قتل کیا تو دہلی میں ایک دن میں تین ہزار سکھ قتل ہوگئے اور اندرا گاندھی کی عدم موجودگی سے بھارت کے مستقبل کے حوالے سے کوئی سوال نہیں اٹھا۔ بھارت میں ہندو مسلم کشمکش انتہا پر ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ کسی بھی وقت بھارت میں مسلمانوں کی نسل کُشی شروع ہوسکتی ہے، مگر بھارت کے مستقبل کے حوالے سے کوئی پریشان کن سوال بھارتی شہریوں کے ذہن میں موجود نہیں۔ بھارت میں اعلیٰ ذات اور شودروں کی کشمکش موجود ہے، مگر بھارت کے مستقبل کے لیے اس کشمکش کے کوئی معنی نہیں۔ اسرائیل کا وجود ایک سازش کا حاصل ہے۔ اسرائیل عربوں کے سمندر میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اسرائیل عربوں کے ساتھ تین جنگیں لڑ چکا ہے مگر اسرائیل کے شہریوں کے ذہن میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ ملک کا مستقبل مخدوش ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر قوم کے ذہن میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اندیشے کیوں جنم لیتے ہیں؟
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ نظریہ ہے جو انسانوں کے کردار کو صلابت عطا کرتا ہے۔ یہ نظریہ تھا جس نے برصغیر میں مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ایک ’’قوم‘‘ بنایا۔ یہ نظریہ تھا جس نے جغرافیے کو ’’پاکستان‘‘ میں تبدیل کیا۔ یہ نظریہ تھا جس نے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ میں ڈھالا۔ یہ نظریے کی قوت تھی جس نے مسلمانوں میں وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑنے کا دَم خم پیدا کیا۔ یہ نظریاتی شعور تھا جس نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو ایٹم بم بنانے پر مائل کیا۔ اسلام اللہ کا دین ہے، اس کی قوت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ دنیا میں انسانی ساختہ نظریات تک نے انقلاب برپا کیے ہیں۔ کمیونزم ایک لادین نظریہ تھا مگر اس نے روس اور چین میں انقلاب برپا کردیا، سیکولر فکر نے یورپ کو یورپ بنایا، یہودیوں کی یہودیت نے ان سے اسرائیل تخلیق کروایا، بھارت کی قوم پرستی نے اُسے دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بنادیا ہے، ہندوتوا کا نظریہ ہندوئوں میں اکھنڈ بھارت کے تصور کو عام کررہا ہے جس کے تحت ہندو صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ حکمرانوں نے اسلام کو ایک قوت بنایا ہوتا تو آج ہم دنیا کے طاقتور ملکوں میں سے ایک ملک ہوتے۔ مگر پاکستان میں کچھ اور کیا ’’پاکستانیت‘‘ تک نایاب ہے۔ 23 کروڑ لوگوں میں کچھ ہی لوگ پاکستانی ہیں۔ باقی جو ہیں وہ پنجابی، مہاجر، سندھی، بلوچی، پشتون اور سرائیکی ہیں۔ ہمارے قومی اتحاد کا یہ عالم ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے ایک بار فرمایا تھا کہ ’’ہماری کرکٹ ٹیم قوم کو متحد کرنے والی ہے۔‘‘ ظاہر ہے جس قوم کو اللہ کا دین متحد نہیں کرے گا وہ کرکٹ ہی سے متحد ہوگی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قوموںکے ماضی، حال اور مستقبل کو جو چیز اکائی میں ڈھالتی ہے وہ قوموں کا نصب العین ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقے کا کوئی نصب العین ہی نہیں ہے۔ نہ ان کا کوئی روحانی نصب العین ہے، نہ کوئی اخلاقی نصب العین ہے، نہ کوئی تہذیبی نصب العین ہے، نہ کوئی تاریخی نصب العین ہے، نہ کوئی علمی نصب العین ہے، یہاں تک کہ ان کا کوئی مادّی نصب العین بھی نہیں ہے۔ مغرب نے خدا اور مذہب کو رد کرکے مادّے کو اپنا معبود بنایا اور ڈیڑھ سو سال میں مادّی ترقی کی معراج کو چھو لیا۔ چین نے مادّی ترقی کو اپنا نصب العین بنایا اور صرف چالیس سال میں اتنی مادّی ترقی کرلی جتنی یورپ نے ڈیڑھ سو سال میں کی تھی۔ جاپان، کوریا، سنگاپور جیسی چھوٹی چھوٹی قوموں نے چالیس، پچاس سال میں مادّی ترقی کرکے دکھا دی، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمران پاکستان کو مادّی ترقی کا تحفہ بھی نہ دے سکے۔ اس کے برعکس انہوں نے ہمیں سیاسی، معاشی اور فکری طور پر امریکہ اور یورپ کا غلام بنادیا۔ اس صورتِ حال میں قوم کو ملک کے بہتر مستقبل کا خیال آئے تو کیسے؟ اور قوم ملک کے مستقبل کے حوالے سے اندیشوں کا شکار نہ ہو تو کیونکر؟
مغربی دنیا کے ممتاز مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے کہیں لکھا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ انسان چیلنج کو قوتِ محرکہ یا Motivational Force بنا لے، یا پھر اسے اپنے لیے سر کا بوجھ بنا لے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ چیلنج کو قوتِ محرکہ میں نہیں ڈھال پاتا۔ وہ چیلنج کو سر کا بوجھ بنا لیتا ہے اور پچک کر رہ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی ہر چیز جعلی ہے۔ ان کا مذہب بھی جعلی ہے، ان کا سیکولرازم بھی جعلی ہے، ان کا لبرل ازم بھی جعلی ہے، ان کی آمریت بھی جعلی ہے، ان کی جمہوریت بھی جعلی ہے۔ جن قوموں کے حکمرانوں کی شخصیت اور فکر جعلی نہیں ہوتی وہ قوموں کو خود پر، اپنی تاریخ اور تہذیب پر فخر کرنا سکھاتے ہیں۔ وہ قوم کو اندیشوں سے امید کشید کرنا سکھاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ امیدوں کو بھی اندیشوں میں ڈھال دیتا ہے۔ ہم نے گزشتہ 75 سال میں صرف ایک ہی قابلِ فخر کام کیا ہے، اور وہ ہے ایٹمی صلاحیت کا حصول۔ مگر ہمارے حکمران طبقے کی اہلیت دیکھیے کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک کی توہین کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کا انتقال ہوا تو نہ جنرل باجوہ نے ان کے جنازے میں شرکت کی، نہ عمران خان اور شہبازشریف کو ڈاکٹر عبدالقدیر کے جنازے میں شرکت کی توفیق ہوئی۔