مسلم وزرائے اطلاعات کا اجلاس

نصف صدی سے زائد عرصہ گزرا جب بہت سی نیک تمنائوں، امنگوں، آرزوئوں اور عزائم کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، قیام کے کچھ برس بعد تک یہ خاصی متحرک اور فعال بھی رہی، یوں زوال آشنا امت مسلمہ سے متعلق ایک امید سی بندھ گئی کہ شاید یہ تنظیم ملت اسلامیہ کو متحد کرنے اور مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ میں کوئی موثر کردار ادا کر سکے گی مگر پھر نجانے یہ اپنوں کے اختلافات کی بھینٹ چڑھ گئی یا دشمن کی نظر اسے کھا گئی اور یہ ایسے گوشۂ گمنامی میں جا بیٹھی کہ اس کا وجود ہی تحلیل ہوتا محسوس ہونے لگا جب کبھی او آئی سی کا ذکر آتا تو ’’اوہ آئی سی‘‘ کہہ کر اس کا تمسخر اڑایا جاتا۔ مقام شکر ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ تنظیم انگڑائی لیتی اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرتی محسوس ہو رہی ہے۔ گزشتہ برس کے وسط میں جب دنیا کی واحد بڑی طاقت ہونے کے زعم میں مبتلا امریکہ بہادر شکست و رسوائی اور ہزیمت کا داغ پیشانی پر سجائے بے نیل مرام افغانستان سے پسپائی پر مجبور ہوا تو جنگ کی تباہی و بربادی کے شکار، بھوک، افلاس اور فاقہ کشی سے دو چار افغان بھائیوں کو کسی بڑے انسانی المیہ سے بچانے کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں تنظیم کے رکن ممالک نے اپنا دینی فریضہ ادا کرتے ہوئے افغان عوام کی خاطر خواہ مدد اور تعاون کے لیے اہم فیصلے کئے۔ اجلاس میں اسلامی ترقیاتی بنک کے زیر اہتمام ’اسلامک ٹرسٹ فنڈ‘ کے قیام، غذائی تحفظ کے پروگرام اور اسلامی کانفرنس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کے تقرر پر بھی اتفاق کیا گیا…!
اسلامی تعاون تنظیم کے حوالے سے تازہ، اچھی اور اطمینان بخش اطلاع یہ ہے کہ بائیس اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں بعد از صداقت دور (پوسٹ ٹروتھ ایرا) میں غلط معلومات اور اسلامو فوبیا کے سد باب کے موضوع پر تنظیم کے وزرائے اطلاعات کی کانفرنس منعقد ہوئی ہے جس میں موجودہ دور میں در پیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل کی تیاری میں تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور رکن ممالک کے ذرائع ابلاغ پر زور دیا گیا کہ وہ غیر مسلم ممالک میں اسلامی اقدار اور ثقافتی ورثے کی جان بوجھ کر بے حرمتی اور تباہی سے متعلق کارروائیوں سے متعلق عالمی سطح پر بیداری پیدا کریں… کانفرنس کے اختتام پر جاری کئے گئے اعلامیے میں غلط معلومات کے خلاف جنگ میں قلیل، وسط اور طویل المدتی تزویراتی عمل وضع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ کانفرنس نے معلومات کی درستگی کو جانچنے کے طریقہ کار اور خبروں کے مواد، میڈیا خواندگی اور ڈیجیٹل میڈیا کے مخصوص مسائل اور ممکنہ منظر ناموںپر توجہ مرکوز کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا، کانفرنس میں وزرائے اطلاعات کی 12 ویں اسلامی کانفرنس کی حتمی رپورٹ پر غور کیا گیا جس کا مقصد میڈیا اور اطلاعات کے شعبے میں او آئی سی کے رکن ممالک کے تعاون کو فروغ دینا تھا۔ استنبول اعلامیہ میں نئے اور ابھرتے ہوئے پلیٹ فارمز اور تکنیکی اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کے عظیم الشان مذہب کے بارے میں سچائی کو موثر انداز میں پیش کر کے اس کے تمام مظاہر میں اسلامو فوبیا اور اسلام کے خلاف نفرت کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ڈس انفارمیشن کے خطرات کو تباہ کن ہتھیار کے طور پر بیان کرتے ہوئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ غلط معلومات اور جعلی خبروں کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی، جو کہ نئے ڈیجیٹل دور میں ان ممالک اور معاشروں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرنا کہ دہشت گردی کی کوئی خاص شناخت نہیں ہے اور اس اصطلاح کو دوسری شناختوں سے جوڑنا غلط معلومات کی پیدا وار ہے اور تشدد، انتہا پسندی، جنونیت اور دہشت گردی کے تمام مظاہر کی مذمت کرنا ہے جو انسانی ثقافتوں کے عظیم پیغامات کو مسخ کرتے ہیں۔ کانفرنس نے اسلامی دنیا میں اتحاد، یکجہتی اور خاص طور پر مواصلات اور معلومات کے شعبوں میں تعاون کی حوصلہ افزائی کے مقصد سے او آئی سی کے عظیم مقاصد کے لیے تجدید عہد اور اس کے تمام اقدامات اور سرگرمیوں کی حمایت پر زور دیا۔ کانفرنس نے رکن ممالک کے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ وہ غیر مسلم ممالک میں اسلامی ثقافتی اور مذہبی ورثے کی جان بوجھ کر تباہی اور بے حرمتی کی کارروائیوں کے بارے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا کریں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مقامی مسلمانوں کو نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کانفرنس نے او آئی سی میڈیا فورم (او ایم ایف) کی فعالیت کی جانب پیش رفت کا خیر مقدم کیا اور رکن ممالک میں میڈیا اداروں سے او ایم ایف میں شامل ہونے کی اپیل کی۔
موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ ورقی ہوں یا برقی یا سماجی، ان کی اہمیت، معاشرتی اثرات اور رائے عامہ کی تشکیل میں جان دار کردار سے انکار ممکن نہیں اور یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ گزشتہ طویل عرصہ سے اسلام خصوصاً پیغمبر اسلام، محسن انسانیت، حضرت محمدؐ کی ذات اقدس اور اسلامی معاشرتی احکام و اقدار خصوصاً حجاب کے بارے میں بے بنیاد پروپیگنڈہ، غلط معلومات کی تشہیر اور غلط فہمیاں پھیلانے میں سرگرم ہیں، افسوسناک اور تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ بھی ان کا موثر جواب دینے اور اسلامی اقدار و تعلیمات کا دفاع کرنے کی بجائے غیر مسلم قوتوں کے آلۂ کار کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کے نتیجے خود مسلم ممالک اور مسلمانوں میں اسلام اور اس کی اقدار و تعلیمات سے متعلق ابہام اور منفی تاثر، عریانی، فحاشی، بے حیائی، بد اخلاقی اور بد کرداری کو فروغ ملتا ہے، ان حالات میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے اطلاعات کا یہ اجلاس نہایت اہم ہے، اجلاس میں منظور کیا گیا مشترکہ اعلامیہ بھی مثبت سمت میں ایک قابل ستائش پیش رفت ہے خاص طور پر مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ کو باہم مربوط کرنے کے لیے او آئی سی میڈیا فورم کو فعال بنانے کا اعلان نہایت خوش آئند ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کو عملی شکل دینے کی توفیق بھی عطا فرمائے، اسلامو فوبیا اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کا موثر جواب بھی ان اقدامات سے ممکن ہوسکے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)