الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کے ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کردیا ہے، توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کی نشست خالی قرار دی گئی ہے، اور ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی بھی آگے بڑھ رہی ہے، اس کا بھی جلد ہی فیصلہ آنے والا ہے۔ اس اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے تک وہ کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں رہے۔ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت ستمبر میں مکمل کرلی تھی اور فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو 21 اکتوبر کو سنایا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی محسن رانجھا اور دیگر اراکین نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس 4 جولائی کو اسپیکر قومی اسمبلی کو جمع کروایا تھا، اسپیکر نے آرٹیکل 63 کے تحت یہ ریفرنس اگست میں الیکشن کمیشن کو ارسال کیا تھا۔ ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے دانستہ طور پر توشہ خانے سے وصول شدہ اور خریدے گئے تحائف کو چھپایا اور ان تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات میں بھی ظاہر نہیں کیا۔ ریفرنس میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان نے توشہ خانے سے وصول تحائف کو فروخت کیا اور گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، جس پر انہیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا جائے۔ عمران خان نے توشہ خانہ کیس کے جواب میں مؤقف اپنایا کہ درخواست گزار اور اسپیکر کا ریفرنس بدنیتی پر مبنی اور بے بنیاد ہے، اس کے سیاسی مقاصد ہیں، میں نے توشہ خانے کے تحائف کو اثاثوں میں نہیں چھپایا، جب میں وزیراعظم تھا تو مجھے اور میری اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے، میں نے توشہ خانے سے تحائف کی خریداری کے لیے مشترکہ طور پر 3 کروڑ 80 لاکھ 76 ہزار روپے ادا کیے، یہ رقم بینک میں جمع کروائی، ان تحائف کی فروخت سے ہونے والی آمدن 5 کروڑ 80 لاکھ روپے انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیے گئے تھے۔ عمران خان کے مؤقف کے جواب میں کہا گیا کہ 4 تحائف 30 جون 2019ء تک عمران خان کے پاس نہیں تھے، انہیں اس سے پہلے مالی سال کے دوران فروخت کردیا گیا تھا، اس لیے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا گیا، تاہم ان کی فروخت کی رقم بینک میں وصول کی گئی۔ الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے دانستہ طور پر تحائف کی تفصیلات گوشواروں کی تفصیلات میں جمع نہیں کروائیں۔ وکلا کے دلائل، دستیاب ریکارڈ اور ہماری فائنڈنگز کے مطابق عمران خان ڈی سیٹ ہوچکے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آئین کے آرٹیکل 63 (1) (p) اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 137,167 اور 173 کے تحت نااہل ہیں، اس فیصلے کے بعد عمران خان رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کرپٹ اقدام کے بھی مرتکب ہوئے، عمران خان نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں غلط گوشوارے جمع کروائے، عمران خان نے ملنے والے تحائف گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے، عمران خان کا پیش کردہ بینک ریکارڈ تحائف کی قیمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان نے الیکشن ایکٹ کی دفعات 137، 167 اور 173 کی خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں عمران خان کی نشست خالی قرار دے دی۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے توشہ خانہ کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا ہے۔ الیکشن کمیشن میں پنجاب کے ممبر جسٹس( ر)بھروانہ علیل ہونے کے باعث شریک نہیں ہوئے تھے۔عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں الیکشن کمیشن کے پانچ ارکان نے نااہل قراردیا ہے،تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے اپنے اجلاس میں فیصلے کے خلاف ہر آئینی فورم سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لہٰذا تحریک انصاف کی جانب سے اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ فیصلہ چیلنج کردیا گیا ہے جہاں اب اس کی سماعت ہوگی۔تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرچکی ہے، جہاں ملکی تاریخ کے اہم اور دلچسپ مقدمے کی سماعت ہونے جارہی ہے۔ تحریک انصاف کی مرکزی لیڈرشپ اور عمران خان کے قانونی مشیر باور کرا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن یہ فیصلہ دینے کا مجاز نہیں، لیکن معتبر ترین آئینی نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ٹریبونل کے طور پر نیم عدالتی اختیارات رکھتا ہے اور ایسے مقدمات سننے کا مجاز ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو ’’کرپٹ‘‘،’’دروغ گو‘‘ اور حقائق کو چھپانے کا مرتکب قرار دیا، اس فیصلے نے تحریک انصاف کی صفوںمیں زلزلہ برپا کردیا ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقا گزشتہ کچھ عرصے سے چیف الیکشن کمشنر کو نشانے پر رکھے ہوئے تھے، ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔
قانونی طور پر عمران خان کی سیاست کے راستے میں کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ کھڑی نظر نہیں آرہی، اس فیصلے کے اثرات نفسیاتی اور سیاسی زیادہ ہوں گے، اب مخالفین ان کو وہی کچھ کہہ سکیں گے جو عمران خان ان کو کہتے چلے آرہے ہیں، گویا ’’کرپٹ سیاست دانوں‘‘ کے کلب میں ان کے لیے نشست حتمی فیصلہ ہونے تک محفوظ رہے گی۔
اس وقت ایک بہت ہی اچھی پیش رفت ہورہی ہے کہ پارلیمنٹ جیسے آئینی ادارے میں ریاستی تشدد، جبری اغوا اور دیگر حساس موضوعات پر بحث ہورہی ہے، لیکن سپریم کورٹ کے توجہ دلانے اور موقع فراہم کرنے کے باوجود بھی تحریک انصاف قومی اسمبلی سے باہر بیٹھی ہوئی ہے، وہ ابھی تک اسی کھیل میں مصروف ہے جس میں سیاست دان ایک دوسرے کو نکیل ڈالتے ہیں اور ایک دوسرے کی ناک کاٹتے ہیں۔ کوئی یقین کیوں نہ کرے کہ سیاست دان خود ایسے حالات پیدا کرتے ہیں اور پھر اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مداخلت کرے۔ اس وقت بھی ایسی ہی صورت حال ہے، ہر سیاسی جماعت کی کوشش رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرے، ورنہ اسے جانور جیسے نام دیے جاتے ہیں۔ بہرحال اس سب کے باوجود یہ اطلاع ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت شروع ہوئی ہے، یہ بہت بڑی پیش رفت ہے، ملکی سلامتی کی ضمانت اور امن و استحکام اسی صورت میں مل سکتا ہے جب قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ قائم ہو، جس کے لیے قومی مفادات کی حفاظت اور فروغ کے لیے قومی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔