نِیاگانِ قومی صحافت کہاں ہیں؟

آج کی بات شروع کرنے سے پہلے ’نِیاگان‘ پر بات ہوجائے۔

اقبالؔ کی مشہور نظم ہے: ’’بُڈّھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘۔ یہ نظم اُن کے مجموعۂ کلام ’ارمغانِ حجاز (اُردو)‘ میں شامل ہے۔ اس نظم کے کئی اشعار مشہور ہوئے، کئی ضرب المثل بنے۔ ان میں سے صرف دو اشعار کی طرف اشارہ کافی ہوگا۔ ایک شعر کا مصرعِ اولیٰ ہے: ’غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں‘‘۔ ایک اور شعر کا پہلا مصرع ہے: ’’افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر‘‘۔ اقبالؔ کا یہ مجموعۂ کلام اُن کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں اقبالؔ کی عمر بھر کے فکری ارتقا کا نچوڑ پایا جاتا ہے۔ اسی نظم کے ایک مصرعے میں اقبالؔ نئی نسل کو مشورہ دیتے ہیں : ’’اخلاصِ عمل مانگ نِیاگانِ کُہن سے‘‘۔

’نِیا‘ فارسی میں دادا، نانا یا جدِّاعلیٰ کو کہا جاتا ہے۔ ’نِیا‘ کی جمع ’نِیاگان‘ اُسی اُصول پر بنائی گئی، جس اُصول پر ’بچہ‘ کی جمع ’بچگان‘ بنائی گئی ہے۔ ’نِیاگانِ کُہن‘ کا مطلب ہوا ’پُرانے بزرگ‘۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ عمل کا وہ خلوص، جس سے تیرا عمل بے ریا ہوجائے، خالصتاً للہ قرار پائے، اپنے باپ دادا سے سیکھ، اپنے آباو اجداد سے اس کا سبق لے اور اپنے پُرکھوں سے اس کا پرتَو مانگ۔ مطلب یہ کہ اُن کی اِس روایت کو زندہ رکھ۔ اس پوری نظم کا پیغام یہ ہے کہ اپنا دین، اپنی غیرت، اپنا فخر اور اپنا امتیاز کبھی اور کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے نہ دے:

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

دینِ برحق کو چھوڑ کر، جو صداقت، دیانت، عدل، رواداری اور اعلیٰ ترین انسانی اقدارکا مجموعہ ہے، قوم مادر پدر آزاد ہوجائے تو خواہ پوری دنیا کی دولت اور مادّی منفعت مل رہی ہو، مگر ہے یہ گھاٹے کا سودا۔ انسان اور حیوان میں فرق نہیں رہتا۔ جیسا کہ آج ہر طرف حیوانیت ہی حیوانیت نظر آرہی ہے۔ لیکن اپنا سب کچھ دے کر بھی مادّی منفعت کا کہیں دُور دُور تک پتا نہیں۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔

دین، عقیدے، تہذیب، اقدار اور روایات کے اگلی نسل تک ابلاغ میں ’لفظ‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ مانوس لفظ ہی درست ابلاغ کرسکتا ہے۔ نامانوس الفاظ مکمل ابلاغ نہیں کرسکتے۔ کہنے والے کو ایسے الفاظ کا چناؤ کرنا چاہیے جن سے سننے والے تک اُس کی فکر کا فوری ابلاغ ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سننے والا آپ کے استعمال کردہ الفاظ کے معنی و مفہوم کو سمجھتا ہو۔ ورنہ ہوتا یہی ہے کہ ’’آب آب کر مرگئے سرہانے دھرا رہا پانی‘‘۔ اس مَثَل کا مطلب لغت میں یوں لکھا ہے:’’شیخی بگھارنے کے لیے ایسی زبان بولنا جو دوسروں کی سمجھ میں نہ آئے‘‘۔ اس کہاوت کی ایک کہانی بھی ہے۔ کہانی بہت دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بنیے کے منشی نے کابُل جاکر فارسی سیکھی۔ گھر آکر بیمار پڑ گیا۔ ایسا بیمار ہوا کہ نزع کا عالم طاری ہوگیا۔ نزع میں ’آب آب‘ کہہ کر پانی مانگتا رہا۔ پانی سرہانے دھرا تھا، مگر گھر والے زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے اُسے پانی نہ دے سکے۔ نتیجہ یہ کہ پیاس ہی کے عالم میں دیوان جی کا دیہانت ہوگیا۔

ہماری صحافت کا بھی یہی حال ہے۔ جس زبان میں یہ دُکھیا کراہ رہی ہے، وہ زبان اس ملک کے عوام کی زبان نہیں۔ اُردو ابلاغیات پر انگریزی اصطلاحات کا غلبہ ہوگیا ہے۔ یہ غلبہ کیوں ہے؟ سوچیے تو سوچتے رہ جائیے۔ مگر اس ’کیوں‘ کا جواب کسی کو نہیں سُوجھے گا۔ اس قوم کے لیے اُردو میں نشریات پیش کرنے والے چینلوں کے نام انگریزی میں رکھ دینا تو اب عیب کی بات ہی نہیں رہی۔ نشریات کے عنوانات بھی بڑے اہتمام کے ساتھ خالص انگریزی میں رکھے جاتے ہیں۔ توکیا اب ہمارے ’اہلِ فکر و دانش‘ بالکل ہی بے ذہن اور بے زبان ہوگئے ہیں؟ اپنے دماغ سے سوچ پاتے ہیں نہ اپنی زبان میں کوئی نام رکھ سکتے ہیں؟ ہم نے مختلف چینلوں کے بیس سے زائد اُردو نشریوں کے ایسے عنوانات جمع کیے ہیں، جن کا اُردو زبان سے کوئی تعلق نہیں۔ اشارتاً ان میں سے صرف پانچ پیش خدمت ہیں:

1.Capital Talk, 2.Think Tank, 3.11th Hour, 4.In the Arena, 5.Black and White with...

یہ عنوانات اُردو نشریات کے ہیں۔22 عنوانات تو ہم نے جمع کیے ہیں، اور بھی ہوں گے۔ تو یہ ہے اہلِ صحافت کی تخلیقی صلاحیت۔

اب کچھ اشارہ نِیاگانِ قومی صحافت کی طرف بھی کر چلیں۔ اُردو صحافت کے آبا و اجداد نے شان دار روایات قائم کیں۔ ماضی قریب سے ماضی بعید کی سمت چلیے تو بے شمار روشن ستارے ہماری قومی صحافت کے آسمان پر جگمگ جگمگ کرتے نظر آئیں گے۔ اللہ انھیں عمر طویل عطا فرمائے، الطاف حسن قریشی صاحب ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ پھر صلاح الدین شہید، عبدالکریم عابد، فخر ماتری، آغا شورش کاشمیری، مجید نظامی، عنایت اللہ، حمید نظامی، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت اور مولانا غلام رسول مہر سے لے کر بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان تک ہماری صحافت کو اہلِ فکر و دانش کی کیسی قیمتی قیادت میسر تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ذہن سے سوچتے تھے۔ اپنی زبان میں ابلاغ کرتے تھے اور اپنی قومی و ملّی روایات کے علم بردار تھے۔ یہی اکابر ہماری قومی صحافت کے معمار تھے، جو چمن سجا کے چلے گئے، جو وطن بنا کے چلے گئے۔ مگر اب کیا ہے؟ تخلیق توفکری طور پر بانجھ لوگوں سے ہو نہیں پا رہی۔ بس مغرب کی اندھی تقلید کی اندھا دھند دوڑ لگی ہوئی ہے۔ وہ جنھیں قوم کی آنکھیں، قوم کا دل، قوم کا دماغ اور قوم کی زبان ہونا چاہیے، وہ سب کے سب اپنی قوم سے اندھے، گونگے، بہرے بنے ایک ایسی سمت میں بھاگے جارہے ہیں جس کا اورچھور خود انھیں بھی پتا نہیں۔ ان سے پوچھیے تو بتا نہ پائیں گے کہ وہ کس کھونٹ سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں؟ کہاں جا کر نکلیں گے؟ اور انجام کیا ہوگا؟

ہمارے نشریاتی اداروں کو پطرس بخاری، ذوالفقار علی بخاری، اسلم اظہر، شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج، غلام عباس، میرزا ادیب، نصراللہ خان، سلیم احمد، قمر جمیل، رئیس فروغ اور اشفاق احمد جیسے مشاہیر کی رہنمائی میسر تھی۔ نشریات کے عنوانات ہی نہیں، بہت سی نشریاتی اصطلاحات بھی انھوں نے اپنی زبان میں وضع کرلی تھیں جن کی باقیات سے کبھی کبھی آج بھی کام چلا لیا جاتا ہے۔ مگر کیا اب ہمارے صحافتی اور نشریاتی اداروں میں کوئی رجلِ رشید، کوئی ہدایت یافتہ شخص باقی نہیں رہا؟

ریڈیو پاکستان کا دلچسپ نشریہ’’زیڈ اے بخاری کے ساتھ دس منٹ‘‘ ہماری عمر کے بہت سے لوگوں کو اب بھی یاد ہوگا۔ ریڈیو پاکستان کی سبھی نشریات کے عنوانات اردو میں ہوتے تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن پر بھی بصیرت، دین دنیا کی بھلائی، خبرنامہ، خبروں کا پس منظر، خبروں پر تبصرہ، آج کے اخبارات، شاہراہِ دستور، ایوان سے عوام تک،کیوں اور کیسے؟ (سائنسی معلومات کا نشریہ)، کسوٹی، شیشے کا گھر، نیلام گھر اور کلیاں جیسے تمام نشریوں کے لیے عنوانات قومی زبان میں سوچے جاسکتے تھے۔ مگراب شاید قومی سوچ پر فرنگی پہرہ دے رہے ہیں۔

ہمارے تعلیمی، عدالتی، مالی، کاروباری، قانون ساز، دفتری اور ابلاغی اداروں کا کاروبارِ حیات فرنگی زبان میں چلتا ہے، جس سے اس قوم کے عوام کا کوئی تعلق نہیں۔ ابلاغی اداروں کو ملک کے عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لیے مجبوراً اُردو نشریات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں، گلگت- بلتستان اور آزاد کشمیر میں آپ کسی جگہ جا کر دیکھ لیجیے، کہیں بھی زبانِ فرنگ یا فرنگی ثقافت کو عوامی پزیرائی حاصل نہیں۔ ایک مرتبہ پی آئی اے پشاور کے احباب کو ایک نئے نظام کی عملی تربیت دینے کے لیے ہم پشاور بھیجے گئے۔ ظاہر ہے کہ نوکری کے تقاضے کے تحت پی آئی اے کی وردی میں ملبوس تھے۔ اسی لباسِ فاخرہ میں ہم نے ایک مشہور قبائلی علاقے کے دیدار کی خواہش کا اظہار کیا۔ اِس پر ہمارے ہمدمِ دیرینہ اور پٹھانوں کو اُردو پڑھانے والے پٹھان پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد مغل نے متنبہ کیا:

’’صوبہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں کوئی پتلون پہن کر پہنچ جائے تو مقامی کتوں کے غول پیچھے پڑ جاتے ہیں‘‘۔