کتاب:سربکف سربلند
مصنف:حافظ محمد ادریس
ناشر:قلم فائونڈیشن، یثرب کالونی، بینک اسٹاپ وائس روڈ، لاہور کینٹ
فون:
0300-0515101
0300-842258
ای میل
:
qalamfoundation@gmail.com
محترم حافظ محمد ادریس ایک ہمہ پہلو، ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما ہیں۔ نائب امیر جماعت رہے ہیں۔ وہ داعی الی اللہ اور دلوں کی دنیا بدلنے والے مربی ہیں۔ وہ ایسے مدرس ہیں کہ جن کے دروسِ قرآن قلوب و اذہان کومسخرکرتے ہیں۔ وہ فہم و فراست کی دہلیز پر ایمان و ایقان کی شمعیں روشن کرنے والے مصنف ہیں۔ وہ ایسے سیرت نگار ہیں جو اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر اسے چودہ صدیاں پہلے کے دورِ باسعادت میں لے جاتے ہیں۔ وہ ایسے خطیب ہیں کہ جن کی خطابت زینہ زینہ دلوں میں اترتی ہے۔ یقینا ان کے بیان کردہ دورِ صحابہ کے واقعات سے گدازیِ دل کی دولت ملتی اور آنکھوں سے خشیتِ الٰہی کے موتی رواں ہوتے ہیں۔ اتنی صفات کیا کم ہیں کہ حافظ محمد ادریس کی منفرد حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ افسانہ نگار ہیں۔
افسانہ نگاری ادب کی ایک مشکل لیکن پُرکشش صنف ہے۔ افسانہ پڑھنا بہت آسان لیکن لکھنا بہت مشکل ہے۔ افسانے میں داستان گوئی بھی ہوتی ہے اورتخیل کی بلند پروازی بھی۔ کہانی کا تسلسل ہوتا ہے اور قاری کو ہمہ وقت اپنی تحریرکے سحر میں جکڑنے والا اسلوبِ بیان بھی۔ بلاشبہ افسانہ کسی علمی و تحقیقی مضمون سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشرے پر افسانوی ادب کی گرفت زیادہ گہری اور مضبوط ہوتی ہے۔ پھر وہ افسانہ نگار جو ادب برائے تفریح اور ادب برائے ادب کے قائل نہ ہوں بلکہ ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کے علَم بردار ہوں اُن کے لیے افسانہ نگاری اور بھی مشکل ہوتی ہے کہ انہیں افسانے میں نظریے اور کہانی میں مقصدیت کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ افسانوی صنف کے لحاظ سے اسلامی ادب کو بھی بڑے بڑے قلم کاروں کی رفاقت و امامت حاصل رہی ہے۔ جیسے نسیم حجازی، جیلانی بی اے، سید اسعدگیلانی، فروغ احمد، محمد حسن عسکری، ابن فرید، اُم زبیر، سلمیٰ یاسمین نجمی، اُم فاروق، نور احمد فریدی، شمس الرحمٰن فاروقی، فضل من اللہ، آثم مرزا وغیرہ۔
حافظ محمد ادریس کا افسانوی ادب میں بھی ایک نمایاں مقام ہے۔ وہ افسانہ نگاری میں اپنی کہانی کو ہی مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ یعنی اپنے کرداروں کی زبان سے بڑی بڑی اسلامی تقاریر کرانے اور خطابت کے زور پر ہی اپنے افسانے کو آگے چلانے کے بجائے وہ کہانی کو آگے چلاتے ہیں۔ ان کی دعوت اور مقصدیت کہانی اور اس کے انجام میں ہی موجود ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کی قاری پر گرفت مضبوط رہتی ہے، یعنی قاری کو افسانے کا تسلسل ہی اپنے حصار میں رکھتا ہے، حتیٰ کہ جب افسانہ اپنے فطری انجام تک پہنچتا ہے تو قاری پر سوچ کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ فکر ونظر کے نئے زاویوں سے آشنا ہوجاتا ہے۔
میرے سامنے حافظ محمد ادریس کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’سربکف سربلند‘‘ کے نام سے موجود ہے جسے قلم فاؤنڈیشن نے بار دیگر شائع کیا ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم نے اپنے ادارے کی روایات کے مطابق کتاب کو صوری و معنوی حسن سے مزین کیا ہے۔ 200صفحات پر مشتمل یہ کتاب فی الواقع ایک ادبی شہ پارہ ہے۔
افسانوں کے موضوعات مقامی نہیں، آفاقی اور روایتی نہیں، نظریاتی ہیں۔ مثلاً افسانہ ’’بابری مسجد‘‘، غوری خاندان کے چشم وچراغ صغیر حسین غوری کی وارداتِ قلبی کی داستان ہے۔ ایسی داستان جس میں قاری کی ملاقاتیں شہاب الدین غوری سے بھی ہوتی ہے اور محمود غزنوی سے بھی، ظہیرالدین بابر سے بھی اور اورنگ زیب عالمگیر سے بھی۔
افسانہ ’’مامتا کی نعمت‘‘ ایک جج سرفراز کی اندرونی کشمکش کی داستان ہے کہ جس میں بالآخر جیت ضمیر کی ہوتی ہے۔ ’’فطرت کی تعزیریں‘‘ ایک ایسے مظلوم کی داستان ہے کہ بالآخر اس پرظلم کرنے والا مکافاتِ عمل کا شکار ہوجاتا ہے۔ ’’غلیل‘‘ کے نام سے ہمیں ارضِ فلسطین کے وہ جری سرفروش یاد آجاتے ہیں جو یہودیوں کا مقابلہ غلیلوں سے کرتے ہیں۔ یروشلم کے شیخ سعید العامری کا گھرانہ فلسطینیوں کی داستانِ الم وغم اور ہجرت و عزیمت کا ایک روشن باب ہے۔ ’’مظلوم کی آہ‘‘ انسانیت کی خدمت کرنے والی ایک ایسی نرس کی داستان ہے جس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والا بدکار بالآخر قدرت کی گرفت میں آجاتا ہے۔ ’’فیروز خان‘‘ ظلم کے خلاف عملی جہاد کرنے والے ایک جری و غیرت مند کردار کی کہانی ہے ۔ ’’فخر النساء تیموریہ‘‘ ایک ایسے صاحبِ علم کی داستان ہے کہ جن کے دائرۂ تربیت کا ایک جوان جبر کی شکار ایک مظلوم اور اپنے ماحول کی باغی طوائف کو بالآخر اس ماحول سے نکالتا ہے، اور یہ منگول رانی اسی صاحبِ علم سے فخر النساء تیموریہ کا خطاب پاتی ہے۔ اسی طرح اس مجموعے کے افسانے ’’کشمکش۔ تنہائیاں‘‘، ’’جنازہ‘‘ اور’’ کالم نگار‘‘ مخصوص حالات میں خاص کیفیات کے حامل ہیں۔
میں ان سطور کے ساتھ محترم حافظ محمد ادریس کے افسانوں کے مجموعے’’سربکف سربلند‘‘ کا خیر مقدم کرتا ہوں، دعا ہے کہ
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ