ٹرانس جینڈر ایکٹ: شرعی و قانونی جائزہ

شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کے زیرِ اہتمام ایک روزہ سیمینار

شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کے زیراہتمام ”ٹرانس جینڈر ایکٹ: شرعی و قانونی جائزہ“ کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار کے مہمانِ خصوصی اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سابق رکن پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے اپنی گفتگو میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کا شریعتِ اسلامی اور آئینِ پاکستان کی روشنی میں جائزہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایکٹ شریعت کے بھی خلاف ہے اور آئینِ پاکستان کے بھی۔ کہا یہ جارہا ہے کہ یہ ایکٹ خواجہ سرائوں کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس ایکٹ میں خواجہ سرائوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا بلکہ اپنی مرضی و خواہش سے کسی بھی مکمل مرد کو عورت بننے اور کسی بھی مکمل عورت کو مرد بننے کی آزادی دی گئی ہے اور اسے قانونی حیثیت دی جارہی ہے۔ یہ دراصل ہم جنس پرستی کو عام کرنے اور اسے قانونی تحفظ فراہم کرنے کا ایکٹ ہے۔ خواجہ سرائوں سے متعلق اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں کہ اگر ان میں مرد کی علامت غالب ہوں تو انھیں مردوں کے حقوق حاصل ہوں گے، اور اگر ان میں نسوانی علامات واضح ہوں تو انھیں عورتوں کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اور جہاں مرد و عورت کی تمیز نہ ہوسکے اسے خنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے۔ اور ایسا بہت ہی کم صورتوں میں ہوتا ہے۔ شریعتِ اسلامی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی مرد ہوکر عورتوں کی مشابہت اختیار کرے یا عورتوں میں شمار کیا جائے، اور کوئی عورت ہوکر مردوں کی مشابہت اختیار کرے اور مردوں میں شمار ہو۔ ایسے مردو خواتین پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ شریعت سے متصادم ہونے کے باعث آئینِ پاکستان کے بھی خلاف ہے۔ یہ معاشرےکو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک سے زائد بار اس ایکٹ کو مسترد کرچکی ہے۔

شعور میڈیا نیٹ ورک کے بانی شعیب مدنی نے مختصراً اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا ہم جنس پرستوں کے جلسے کا انعقاد کرنا، وومن اسٹڈیز کے شعبوں کو جینڈر اسٹڈیز میں تبدیل کرنا اور اسے نافذ کرنے کے لیے امریکی امداد، نادرا ایپلی کیشن فار نیشنل آئیڈنٹٹی کارڈ امینڈمنٹ 2017ء کے ذریعے تیسری جنس کو پاکستان میں داخل کرنے کی سازش، ٹرانس جینڈر رولز 2020ء کا نفاذ… یہ تمام اقدامات لمحہ فکریہ ہیں۔ ان پر بہت غور و فکر کی ضرورت ہے۔ یہ خواجہ سرائوں کے حقوق کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایل جی بی ٹی کے فروغ کا معاملہ ہے، جو خاندانی نظام اور معاشرے کی تباہی پر منتج ہوگا۔
صدر شعبہ اسلامی تاریخ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے خطبہ استقبالیہ میں اس سیمینار کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علمی و فکری موضوعات اور تہذیبی و سماجی مسائل پر لیکچرز، سیمینارز، کانفرنسوں اور ورکشاپس کا اہتمام کرنا شعبے کی روایت ہے، جس سے شعبے کے اساتذہ اور طلبہ دونوں استفادہ کرتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ ہمارے معاشرے اور تہذیب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جس کی سنگینی کا احساس ابھی عام لوگوں کو نہیں ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حادثات ایک دم رونما نہیں ہوتے، ان کے پیچھے اسباب و واقعات کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔ تاریخ کے طالب علموں کو اس کا شعور ہونا چاہیے۔
اس سیمینار میں طلبہ و طالبات اور مختلف شعبہ جات کے اساتذہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اسے طلبہ کے لیے بہت مفید اور وقت کی ضرورت قرار دیا۔ سوال و جواب کا سیشن تادیر چلتا رہا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر صوفیہ فرناز نے انجام دیے۔