پاکستان میں بچوں کے اُردو رسائل پر اعظم طارق کوہستانی کے تحقیقی مقالے کا تعارف
یوں تو بچوں کے اُردو رسائل کی تاریخ 1902ء کے مولوی محبوب عالم کے ”بچوں کا اخبار“ نامی رسالے سے شروع ہوتی ہے جو 1912ء تک شائع ہوا۔ دوسرا رسالہ ہفت روزہ ”پھول“ تھا جو 1909ء میں شروع ہوا اور 1957ء تک شائع ہوتا رہا۔ 1910ء کے بعد آہستہ آہستہ بچوں کے رسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی تعداد سو سے اُوپر ہوچکی تھی۔ کچھ بچوں کے اَدب سے حکومتی عدم دل چسپی، کچھ کاغذ کی قیمت اور کئی موقعوں پر عدم دستیابی تھی (پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران میں کاغذ بہت مہنگا اور کمیاب ہوا، جس دوران کئی رسائل و اخبارات بند ہوئے)۔ اس دوران بچوں کی الگ سے کتابیں، نظموں کے مجموعے اور عمومی معلومات پر مبنی کتابیں شائع ہونے لگی تھیں، پھر 1947ء میں جب پاکستان بن گیا تو بچوں کے پاکستانی اَدب کا آغاز ہوا۔
شروع کی کئی دہائیوں تک بچوں کے اَدب پر تحقیق و تنقید وغیرہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ رام بابو سکسینہ، جمیل جالبی، حالی و مولانا محمد حسین آزاد وغیرہ… یہ شخصیات خود بھی بچوں کے لیے لکھنے والی تھیں، مگر ان کی اپنی اُردو ادب کی مرتب کردہ تاریخ میں بچوں کے اَدب کو جگہ نہیں ملی۔ جو چند تحریریں اَدبی رسائل میں شائع ہوئیں، وہ سرسری جائزے اور محض ادیبوں و رسالوں کے نام تک محدود تھیں۔ پہلا باضابطہ کام جو سامنے آيا، وہ ’’اسد اریب‘‘ کا پی ایچ ڈی کا سندی مقالہ تھا جو پہلی بار 1970ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد بھارت سے ’’خوشحال زیدی‘‘ نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور پھر الگ سے مزید پانچ کتابیں لکھیں، بلاشبہ ان کا کام بچوں کے اُردو ادب کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں بچوں کے اَدب پر تنقیدی تبصرے بھی نظر آتے ہیں، جیسا کہ مظفر حنفی کی کتاب ”جہات و جستجو“ میں 20 صفحات پر مشتمل ایک باب بچوں کے اَدب پر ہے۔
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی بچوں کے رسائل کے لیے ایک اچھا آغاز ثابت ہوئی۔ بچوں کے رسائل کی اس سو سال کی تاریخ میں بچوں کے ادیبوں کے کام کو سراہنے، سامنے لانے، جمع و ترتیب دینے کے مثالی کام ہورہے ہیں۔ اس دوران اسمٰعیل میرٹھی، صوفی تبسم، اے حمید، اشتیاق احمد، نذیر انبالوی، محمد شعیب مرزا، محمد افتخار کھوکھر، احمد عدنان طارق، عبدالرشید فاروقی اور نوشاد عادل پر ایم فل کے مقالے لکھے جا چکے ہیں، جب کہ ”ہمدرد نونہال“، ”پھول“ اور ”انوکھی کہانیاں“ رسالوں پر بھی ایم فل کے مقالات سامنے آئے ہیں۔ اُردو اور ہندی اَدب کا تقابلی جائزہ، پاکستان و مصر میں اُردو و عربی میں شائع ہونے والے ادب کا جائزہ (یہ مقالہ عربی زبان میں ہے)، بچوں کی شاعری پر بھی کام سامنے آیا ہے۔ انگریزی زبان کے بین الاقوامی جرائد میں اِکا دُکا مضامین بچوں کے اُردو ادب پر میری نظر سے گزرے ہیں، جیسے بچوں کے ادب کے نامور جریدے بک برڈ میگزین (Book bird) کے 2000ء کے شمارے میں دو مضامین ہیں۔ ایک بچوں کے پاکستانی اَدب کی پانچ دہائیوں کا احاطہ کرتا ہے اور دوسرا، بچوں کے اُردو ادب میں طنز و مزاح پر ہے۔
یہ تو تھا ایک سرسری جائزہ جو بچوں کے اُردو اَدب پر ہونے والے کام کی رفتار کو ظاہر کرتا ہے، جس کو شروع میں تحقیق اور تنقید کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا۔ آج اسی اُردو ادب پر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے مقالات لکھے جارہے ہیں۔
بچوں کے معروف رسالے ”ماہنامہ ساتھی“ کراچی کے سابق مدیراعلیٰ اور مصنف محمد طارق خان نے جو قلمی نام اعظم طارق کوہستانی سے جانے جاتے ہیں، جامعہ کراچی سے 2022ء میں ”پاکستان میں بچوں کے اردو رسائل 1971ء تا 2000ء“ کے موضوع پر ڈاکٹر خالد امین کی زیرِ نگرانی مقالہ لکھ کر ایم فل مکمل کیا ہے۔ ان کے مقالے کا موضوع 1971ء سے اس لیے شروع ہورہا ہے کیوں کہ 1970ء تک کے ادب پر محمود الرحمٰن کام کرچکے تھے۔
اعظم طارق کوہستانی نے مقالے کو پانچ اَبواب میں تقسیم کیا ہے:
پہلا باب ”بچوں کا اَدب: نوعیت و ارتقا، ابتدا سے 1971ء تک“ کے عنوان سے ہے۔ ابتدا میں بچوں کا اَدب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مقالہ نگار نے اس حوالے سے کئی اہم نکات بیان کیے ہیں جو کسی تحریر کو بچوں کا اَدب قرار دینے کے لیے ضروری ہیں۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ لوریاں اور بہلانے کے لیے جو گیت مائیں بچوں کو سناتی ہیں، وہ بھی بچوں کا اَدب ہے، وہ تحریریں جو بڑوں کے لیے لکھی گئیں مگر بچوں میں زیادہ مقبول ہوئیں انہیں بھی بچوں کا ادب گنا جائے گا، جیسے ٹھیکرے کی کتاب Henry Esmound۔ بچوں کے ادب کی نشانی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ بچہ کتاب اُٹھائے تو بور ہوکر واپس نہ رکھ دے۔ جب کہ نظموں میں موسیقیت ہو، دل چسپی ہو، تو ایسی نظمیں تاعمر یاد رہتی ہیں۔
صرف سادہ بیانی کو بچوں کا ادب سمجھنا، یا بچوں کے لیے تحریروں میں مشکل الفاظ کا زیادہ استعمال دونوں پر مقالہ نگار نے تنقید کی ہے۔ ان کے نزدیک بچوں کے اَدب میں ہر وہ چیز شمار ہوگی جو بچے شوق سے پڑھیں، سنیں اور سمجھیں۔ بالکل سادہ تحریر یا نئے الفاظ سکھانے کے چکر میں مشکل الفاظ سے پُر تحریر، دونوں سے بچے بور ہوں گے اور نہیں پڑھیں گے۔
اس کے بعد اُنھوں نے بچوں کے ادب کی خصوصیات پر بحث کی ہے، اور کہتے ہیں کہ ’’بچوں کا ذہن منطقی نہیں ہوتا، ان کے ہاں دو جمع دو چار کے بجائے پانچ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس چیز پر آپ چونک جاتے ہوں کہ قلمکار نے اس جگہ غیر منطقی بات کہہ دی ہے، وہ بات شاید بچوں کے لیے معمول کی بات ہو۔ جب بچوں کے لیے لکھا جاتا ہے، تو آپ جانور کے منہ سے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوئے دکھاتے ہیں، برتنوں اور کھلونوں سے گفتگو کرواتے ہیں، لیکن بچے اس میں منطق کی غلطیاں تلاش کرنے کے بجائے اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے اَدب کی یہ خصوصیت ہے کہ وہاں منطق نہیں چلتی۔‘‘
”متحرک بچے متحرک اَدب“ کے تحت اُنھوں نے لکھا ہے کہ ایسی کہانیاں جن میں کردار مسلسل حرکت میں ہوتے ہیں وہ دس سال تک کی عمر کے بچوں کے مزاج سے میل کھاتی ہیں اور وہ ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کے مطابق ادب کی تفہیم کے حوالے سے اُنھوں نے بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بچوں کی، ادب کے حوالے سے بدلتی دل چسپیوں پر اظہار خیال کیا ہے کہ کیسے تُک بندی والی نظمیں پسند کرنے والا بچہ، اگلے مرحلے میں عمرو عیار اور ہرکولیس کی کہانیاں پڑھنے لگتا ہے۔ جب کہ یہی بچہ دو تین برس بعد، جاسوسی ادب کا دِلدادہ بن چکا ہوتا ہے۔
مقالہ نگار کہانی کے عنوان اور سرورق کو منفرد بنانے پر زور دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انوکھا عنوان اور جاندار سرورق قاری کو راغب کرنے کے لیے ضروری ہے۔ کیوں کہ بچے کتاب خریدتے وقت سرورق اور عنوان پر توجہ دیتے ہیں، اور بچوں کا اپنے لیے کتاب پسند کرنے کا یہی پیمانہ ہوتا ہے۔
پہلے باب کے دوسرے حصے میں اُردو زبان و ادب میں بچوں کے ادب کی تاریخ پر تحقیق کی گئی ہے، اس میں اُنھوں نے اُردو میں بچوں کے ادب کی تاریخ کا آغاز بادشاہ عالمگیر کے دور سے کیا ہے، جب بچوں کے لیے پہلی باقاعدہ کتابیں لکھی گئیں۔ وہ کتابیں زیادہ تر تعلیم و تربیت اور ذخیرئہ الفاظ کے لیے لکھی گئی تھیں۔ امیر خسرو سے منسوب خالق باری کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو بچوں کے لیے اشعار کی صورت میں لکھی گئی۔ اس کے بعد اسی طرز پر درجنوں کتابیں سامنے آئیں۔
انگریزی دور کا حوالہ دیتے ہوئے اُنھوں نے بچوں کے لیے مرتب کردہ ابتدائی درسی کتابوں کا بچوں کے اَدب کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ کتابیں مولانا محمد حسین آزاد، اور دیگر نامور لوگوں نے مرتب کی تھیں۔ اسی دور میں بچوں کے لیے حالی، اقبال، نظیر اکبر آبادی، اسماعیل میرٹھی وغیرہ نے لازوال نظمیں لکھیں، اور پھر بیسویں صدی کے شروع میں بچوں کا پہلا رسالہ ”بچوں کا اخبار“ کے عنوان سے شروع ہوا، اور چند سال بعد ہفت روزہ پھول، اتالیق، ادیب الاطفال، غنچہ، نونہال وغیرہ شروع ہوئے۔ پہلے باب کے اختتام پر سب سے اہم اور بہترین کام جو مقالے میں نظر آتا ہے وہ ہے بچوں کے اُردو رسائل کا اشاریہ، اس میں کُل 383 رسالوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جو الف بائی ترتیب سے مرتب ہوئے ہیں۔ (میں نے ایسے رسائل کی نشان دہی کی ہے جو اس فہرست میں موجود نہیں ہیں، اُن ناموں کو ملانے پر فہرست 450 کے لگ بھگ رسائل تک چلی جاتی ہے) تحقیق کے مطابق اکثر رسالے بند ہوچکے ہیں۔
باب دوم میں مصنف نے 1971ء سے 2000ء تک کے رسائل کا جائزہ لیا ہے اور یہاں شروع میں پھر ایک فہرست پیش کی گئی ہے جس میں پاکستان سے شائع ہونے والے 173رسائل کے نام ملتے ہیں جو 1971ء میں پاکستان سے شائع ہورہے تھے یا اس کے بعد شائع ہونا شروع ہوئے۔ 1971ء سے تحقیق کی ابتدا کی وجہ مقالے میں یہ بیان کی گئی ہے کہ محمود الرحمٰن صاحب نے 1970ء تک کے بچوں کے ادب پر مقالہ لکھا تھا۔
چند ہی ایسے رسالے ہیں جو کئی دہائیوں سے مسلسل شائع ہورہے ہیں۔ تعلیم و تربیت، ہمدرد نونہال، ساتھی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہ بالترتیب 1941ء، 1953ء اور 1977ء سے شائع ہو رہے ہیں۔ مقالہ نگار نے اوپر مذکور تین رسائل اور 1986ء سے 1997ء تک شائع ہونے والے مقبول و مشہور رسالے آنکھ مچولی کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
چاروں رسائل کا الگ الگ جائزہ لیتے ہوئے، رسائل کی کہانیوں اور نظموں کی زبان، موضوعات اور معیار، تصاویر، سرورق، کارٹون، خاکے، اسکیچز وغیرہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے، بہترین کہانیوں اور نظموں کی ایک ایک فہرست بھی ہر رسالے کے جائزے میں شامل ہے، جب کہ دیگر کئی تفصیلات بھی مہیا کی گئی ہیں جیسے مدیران، اہم لکھنے والے، رسالے کے سائز میں ہونے والی تبدیلیاں، صفحات کی کمی بیشی، خاص شمارے، انعامی سلسلے، دیگر مستقل سلسلے وغیرہ۔
اس باب میں باقاعدہ کہانیوں اور نظموں کے اقتباسات و ٹکڑے بطور مثال پیش کیے گئے ہیں۔ تحقیق کے دوران مقالہ نگار نے ”تعلیم و تربیت“ میں شائع ہونے والا ایک سفرنامہ تلاش کیا جو مسعود احمد برکاتی و حکیم سعید کے سفرناموں سے بھی قبل کا ہے۔ خالد بزمی کا سفرنامہ 1977ء میں تعلیم و تربیت میں شائع ہوا، جب کہ برکاتی صاحب کا 1982ء میں شائع ہوا۔ (ان دونوں سے قبل 1943ء میں ”پیام تعلیم“ میں بھی ایک سفرنامہ شائع ہوچکا تھا)
دوسرا باب مقالے کا بنیادی حصہ ہے، جس پر خوب وقت صرف کیا گیا اور محنت کی گئی ہے، اور بلاشبہ یہ تحقیق بعد میں بچوں کے اَدب پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک رہنما کا کام کرے گی۔
تیسرا باب 1971ء سے 2000ء تک اہم شعرا اور مصنفین پر ہے، جس میں 20مصنفین کو جگہ دی گئی ہے۔ نثر میں میرزا ادیب، حکیم سعید، اے حمید، اشتیاق احمد، مسعود برکاتی، شفیق الرحمان، سعید لخت، سلیم مغل، ابن آس محمد اور نعیم احمد بلوچ وغیرہ ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوزے میں دریا بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرزا ادیب نے کہانیاں تو لکھی ہی ہیں، مگر بچوں کے لیے ڈرامے لکھنے میں ان کو کمال حاصل تھا۔ (ڈرامے لکھنے کا کام اُنھوں نے بعد میں سید قاسم محمود کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا)
حکیم محمد سعید نے جہاں بچوں کے لیے ہمدر نونہال اور کتابیں شائع کرنے اور ترجمہ کرانے کا عظیم کام کیا، وہیں خود بچوں کے لیے سب سے زیادہ سفرنامے لکھے۔
اے حمید نے عنبر ناگ ماریا، عینک والا جن اور دیگر کئی سلسلے لکھے۔ یوں وہ بچوں کے اُردو اَدب میں فینٹسی لکھنے میں نمائندہ ادیب ہیں۔
اشتیاق احمد نے بچوں کے لیے جاسوسی ادب لکھ کر لوہا منوایا۔ جب کہ اسلامی ادب میں طالب ہاشمی اور کلیم چغتائی اور کہانیوں کے تراجم اور طبع زاد کہانیوں میں ابن آس محمد اور نعیم احمد بلوچ شامل ہیں۔
مزاحیہ ادب کی بات کریں تو سعید لخت (حافظ جی) و ادریس قریشی (چچا حیرت) بچوں کے لیے معیاری مزاح لکھنے میں مشہور ہوئے، جب کہ ناول نگاری میں منیر احمد راشد کا کمانڈو فور آج بھی پڑھا جاتا ہے، خواتین میں سے بیگم ثاقبہ رحیم الدین اور سیما صدیقی پر تبصرے مقالے کا حصہ ہیں۔
جب کہ شعرا میں دس شخصیات شامل کی گئی ہیں۔ صوفی تبسم، ابن انشا، قیوم نظر، عنایت علی خان، تنویر پھول اور احمد حاطب صدیقی وغیرہ کی شاعری اور بچوں کے اُردو ادب کی خدمات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ نثر و نظم دونوں کے اقتباسات اس باب میں موجود ہیں۔
چوتھے باب میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ بچوں کے رسائل کے معاشرے (بچوں) پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں کی زندگی اور عادات و اطوار معیاری اَدب کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتے۔ بچوں کے ادب کی ہمہ گیری اور متنوع موضوعات سے معاشرے میں بچوں کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو مکمل کرنے میں جو مدد ملتی ہے، اس کو اُنھوں نے اس باب میں چار بنیادی نکات میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
ظاہر ہے یہ پیچیدہ معاملہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ بچے میں کون کون سی اچھی عادات و اخلاق بچپن میں پڑھی کہانیوں سے آئے، لیکن ہم انسانی شعور، لاشعور کی نفسیات کے مطابق چلیں تو ایسے بچوں کو جو بچپن میں بچوں کی کتابوں اور رسائل سے محروم رہے اور ایسے بچے جو صرف نصابی کتابوں تک محدود رہے یا سرے سے پڑھائی ہی نہ کرسکے، ان کا تقابلی جائزہ اپنی روزمرہ زندگی میں لے سکتے ہیں۔
پہلا نکتہ اُنھوں نے اخلاقی اثرات پر پیش کیا ہے اور کئی کہانیوں کا حوالہ دیا ہے جو جلد بازی، ضمیر، معافی، صبر، غصہ، جھوٹ، وغیرہ کے موضوعات پر ہیں۔ دوسرے نمبر پر اُنھوں نے قومی اثرات کو بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں جذبہ حب الوطنی، جنگ، پاکستانیت وغیرہ پر کہانیوں اور نظموں کے کردار کو بیان کیا ہے۔ ملّی نغمے بچوں میں ہمیشہ مقبول رہے ہیں اور بچوں کے اُردو ادب میں لازوال ملّی نغمے لکھے گئے ہیں۔
تیسرے نمبر پر مذہبی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاک و ہند میں اردو بولنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے تو مقالے میں بھی مذہبی سے مراد اسلامی اقدار و اسلامی ادب (حمد، نعت، قرآن و حدیث، صحابہ کے واقعات وغیرہ) ہے، جس سے کسی اُردو رسالے کا کوئی شمارہ خالی نہیں ہوتا۔ یہاں بھی مختلف رسالوں کے اسلامی سلسلوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ آخر میں انھوں نے اُردو زبان کے استعمال کا جائزہ لیا ہے اور الفاظ و جملوں کی ساخت پر بحث کی ہے۔
باب پنجم میں بچوں کے ادب کے نمائندہ سرپرست ادارے اور ناشران کے تحت شیخ غلام علی، فیروز سنز، ہمدرد، سنگ میل، دعوۃ اکیڈمی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، نیشنل بک کونسل اور اسلامک سوسائٹی آف چلڈرن ہابیز کی بچوں کے اُردو ادب کے لیے بطور سرپرست ناقابل فراموش خدمات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہی ادارے تھے جنھوں نے بچوں کے لیے بڑے بڑے مصنّفین سے کہانیاں، نظمیں اور معلوماتی کتابیں تصنیف کرائیں۔
میں نے بچوں کے اُردو ادب کے حوالے سے لکھے گئے کئی مقالات پڑھے ہیں جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے ہیں، اور میں یہ کہنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ اکثر مقالات میں تحقیق و تنقید کا حق ادا نہیں کیا گيا اور دوسرے کے لکھے ہوئے مواد سے مقالات کو مکمل کیا گیا (ان شاء اللہ جلد پہلے کیے گئے تحقیقی کاموں میں نقل در نقل جو غلطیاں منتقل ہورہی ہیں وہ پیش کروں گا)۔
اعظم طارق کوہستانی صاحب نے جس طرح چار رسائل کے چالیس سالہ ریکارڈ کو کھنگالا ہے اور ہیرے موتی ڈھونڈ کر ان کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے وہ لائقِ تقلید و قابلِ تعریف ہے۔