جینڈر، جنس، صنف.. کیا ہے یہ سب کچھ؟

”ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب! جیسے آپ نے مشورہ دیا، ہم ویسے ہی پہلے بچوں کے غدودوں کے ماہر (Endocrinologist) سے ملتے ہیں، جینیٹک ٹیسٹ (Chromosomes Analysis) کے رزلٹ کا انتظار کرتے ہیں اور پھر دوبارہ اس موضوع پر بات کریں گے۔
جیسا آپ کہہ رہے ہیں کوئی جینڈر (Gender) اسائنمنٹ اُس وقت تک نہیں کرتے جب تک تمام چیزیں کلیئر نہ ہوجائیں۔ ہمارے لیے تو بیٹی بیٹا دونوں برابر ہیں، اولاد ہے ہماری۔“
ایک لمبے ڈسکشن کے بعد پُرسکون انداز میں کائونسلنگ مکمل ہونے پر میں نے بھی سکون کا سانس لیا۔
چند دنوں کی ملک سے غیر حاضری میں یہ کیس نرسری میں داخل ہوا تھا۔ ہمارے ساتھی ڈاکٹر نے تفصیلاً سمجھایا تھا۔ وہ مجھ سے پہلے بھی مل چکے تھے بچوں کو دکھانے کے لیے۔ اِس بار نئے بچے کی پیدائش میں کچھ مسائل تھے، وہ مزید مشورے اور اعتماد کی خاطر ملنا چاہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو تخلیق کیا تو اس کے کچھ اصول بھی مرتب کردیے، ان اصولوں میں ابتدا سے اب تک کوئی ”تبدیلی“ واقع نہیں ہوئی، یعنی انسان ایک ہی طرح سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوا کہ زمانے کے تغیرات کی وجہ سے ان کی دو آنکھوں کے بجائے ایک ایک آنکھ ہونے لگی ہو، جسم میں ایک دل کے بجائے دو دل کسی نارمل انسان کے ہوں، یا کسی اور جانور سے تبدیل ہوکر اب انسان بنا ہو۔
انسان کا جینیٹک کوڈ جو رب العالمین نے ابتدا سے طے کردیا ہے وہ قیامت تک انسان بننے کے لیے ایک ہی رہے گا۔ جب اس میں کوئی تبدیلی کسی بھی وجہ سے کسی بھی ذریعے سے ہوگی، یا کی جائے گی تو پھر وہ ایک نارمل انسان نہیں ہوگا۔
یوں سمجھیں کہ انسانی جسم اربوں سیلز (خلیات) کا مجموعہ ہے، ان سیلز کے بننے میں قدرت بہت سارے کیمیکل استعمال کرتی ہے، کائنات میں پائے جانے والے یہ کیمیکل ایک خاص قسم کی ترتیب میں ملتے ہیں جو کہ رب العالمین کی طرف سے طے شدہ ہے، تو پھر وہ خاص مادے ترتیب پاتے ہیں جن کو DNA کہا جاتا ہے،
یہ DNA، (Deoxyribonucleic acid) انسان کا بنیادی مادہ ہے، DNA پروٹین سے بنے ہوئے ہوتے ہیں، پروٹین کی ایک خاص ترتیب/ ترکیب اس DNA کو بناتی ہے۔
بالکل طے شدہ ہے کہ انسانی جسم کے اندر کون سا پروٹین DNA کی کس خاص جگہ پر موجود ہوگا، اور یہ جب ایک مخصوص جگہ پر موجود ہوں اور ایک مخصوص تعداد میں ہوں تو جو چیز بنے گی اس کو کروموسوم کہا جائے گا۔ نارمل انسانی جسم میں 46 کروموسوم موجود ہوتے ہیں۔
ان کروموسومز کو جوڑے کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ 23 کروموسوم ماں دیتی ہے اور 23 باپ۔
ان 46 کروموسومز میں انسانی زندگی کا پورا نقشہ موجود ہے، 44 کروموسومز جوڑے کی شکل میں (Autosomes) آپ کی پوری زندگی، اور XY کروموسوم جنس/ جینڈر کا تعین کرتے ہیں۔
اب آپ تصور کریں قدرت کے اس نظام میں اگر ایک بھی پروٹین اپنی جگہ پر موجود نہ ہو جس کی وجہ سے DNA کے بننے میں کوئی فرق پڑے تو کیا ہوگا؟ یقینی طور پر مسائل پیدا ہوں گے۔ جب وہ DNA مکمل نہ ہو یا Defective ہو تو اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والے کروموسوم میں بھی Defect ہوگا۔ پھر اس خاص کروموسوم میں موجود جینیات (Gene’s) میں بھی کچھ گڑبڑ ہوگی۔ نتیجتاً کسی نہ کسی انسانی فعل، اعضاء وغیرہ میں دیگر انسانوں کی نسبت فرق ہوگا۔ یہ فرق بہت چھوٹا سا بھی ہوسکتا ہے جس کا اندازہ مخصوص طبی معائنے یا ٹیسٹ کے بغیر ناممکن ہے۔ اور بہت بڑا بھی ہوسکتا ہے جو ہر دیکھنے والے کو نظر آئے۔ یہ سارا کچھ ایک DNA میں تھوڑی سی تبدیلی کی وجہ سے ہوا۔
اب اگر اس بات کو سمجھتے ہوئے اپنے آس پاس دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ قدرت کے اس جینیٹک کوڈ کا کیا مطلب ہے۔ کسی کی آنکھیں نیلی ہیں اور کسی کی کالی، کوئی گول چہرے کا مالک ہے اور کوئی لمبوترے۔ ساخت کے لحاظ سے آپ اپنے جینیٹک کوڈ کے مرہونِ منت ہیں۔ اس میں ماحولیاتی اثرات بہت کم اثرانداز ہوتے ہیں۔
افریقی ممالک کے لوگ اگر مستقل برفانی علاقوں میں بھی رہیں تو ان کی جلد کی رنگت سفید فام افراد کی طرح نہیں ہوگی، ماسوائے اس کے کہ کئی نسلوں کے بعد سورج کی حدت کے اثرات کم ہونے کی وجہ سے جلد کی رنگت میں کچھ بہتری نظر آئے۔ چونکہ ان کے Genes جو کہ پروٹین کی ایک خاص ترتیب کی وجہ سے خاص ترکیب میں ہیں اس وجہ سے، اور اگر ماں اور باپ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے۔ جوں ہی کوئی ایک مختلف نسل / قبیلے سے ماں یا باپ کی حیثیت اختیار کرے گا تو اس کے Genes کے اثرات اپنا اثر ڈالیں گے، یعنی وہ 44 کروموسومز جو جوڑے کی صورت میں انسان کو والدین کی طرف سے ملے ہیں ان کے اثرات جسم پر بھی نظر آئیں گے۔
اسی طرح XY کروموسوم جنس (Gender) صنف (Sex) کو ظاہر کرتے ہیں۔
قدرتی طور پر عورت ہمیشہ X کروموسوم دیتی ہے اور مرد کبھی Y اور کبھی X۔ اس لیے جب مرد Y کروموسوم دیتا ہے تو بیٹے کی پیدائش، اور جب X کروموسوم دیتا ہے تو بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے۔
یعنی یہ ہو نہیں سکتا کہ دو YY کروموسوم ہوں بغیر کسی X کروموسوم کے، اور ایک بچے کی پیدائش ہو۔ یہ زندگی کے ساتھ ممکن نہیں۔
اس لیے اگر Sex کروموسومز میں پروٹین کی کسی خرابی، ترتیب میں کسی گڑبڑ کی وجہ سے ان کروموسومز کے DNA میں کوئی مسئلہ جیسے، XXY , XO , XYY, یا کوئی ہو تو مسائل اور بیماری کے ساتھ بچہ/ بچی دنیا میں آئے گا۔
اب اس بیماری یا مسئلے کا فی الحال علاج اور حل موجود ہے یا نہیں، یہ بالکل ایک الگ موضوع ہے۔
اس لیے جب دنیا میں کوئی آتا ہے تو اس کا تفصیلی معائنہ بہت ضروری ہے، اور اس میں اعضائے جسمانی کے معائنے کا مطلب اعضائے جنسی کا بھی معائنہ، ڈائپر، نیپی/ کپڑے اتار کر پہلے ہی دن کرلیں تو بہتر ہے، اور اگر اس معائنے میں کسی چیز پر کوئی شک، ابہام محسوس ہو تو والدین کو اعتماد میں لیں، ایک آدھ دن بعد دوبارہ دیکھ لیں، اپنے کسی ساتھی سے مشورہ کرلیں، معائنہ کروالیں، پھر اگر کسی مخصوص ٹیسٹ کی ضرورت ہو تو وہ بھی کروائیں، مگر اس سارے عمل میں والدین کو مسلسل اعتماد میں لیں، سمجھائیں خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ۔
عام طور پر Gender Assignment نومولود کے پہلے معائنے کے بعد ہوجاتی ہے، مگر جہاں شک ہو وہاں ڈاکٹر کو صبر سے کام لینا چاہیے اور ماہرین سے مشورے اور مخصوص، Genetic/ Harmonal / Radiological ٹیسٹ کے بعد ہی کوئی
فیصلہ والدین کو اعتماد میں لے کر کرنا چاہیے۔
اگر پیدائش کے بعد کسی کوتاہی یا علم کی کمی کی وجہ سے Gender Assignment میں کوئی غلطی ہوگئی ہے اور بعد میں جسمانی ساخت میں تبدیلی کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں تب بھی ماہرین سے مشورے، والدین اور جو مریض ہے اُس کو اعتماد میں لے کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ایسے میں ماہرینِ نفسیات کو بھی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے،
Gender Fluidity,Gender Dysphoria اور دیگر اس قسم کی اصطلاحات دراصل نفسیاتی مسائل ہیں جن کا Genetics سے تعلق جوڑنا سائنس کے ساتھ زیادتی ہے۔