اُمت محمدی ﷺکا مشن منصب، تقاصے اور مستقبل

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دین اسلام کے ذریعے عزت و تکریم بخشی ہے۔ یہ دین اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا بیان ہے: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اس نعمت کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی کہ اپنے بہترین رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اس دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، اپنی بہترین کتاب قرآن مجید کو اس دین کی کتاب کے طور پر نازل فرمایا اور ہمیں یہ چیزیں عطا کر کے اُمت ِ وسط بنایا تاکہ ہم انسانیت کے سامنے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیں۔

جنابِ محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انسانیت کے لیے کتابِ الٰہی قرآن مجید اور عالم گیر رسالت ِ رحمت چھوڑی ہے، ان کے ساتھ انسانیت کو اُمت بھی وراثت میں دی ہے۔ وہ اُمت جو اس رسالت پر ایمان، اس کے احکام کے نفاذ اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔

یہ اُمت اپنے بہترین گروہ سے شروع ہوئی، بلکہ انسانی تاریخ کے بہترین گروہ سے اس کی ابتدا ہوئی، یعنی اصحابِ رسولؐ کا گروہ! یہ قرآنی اور ربانی گروہ جس نے حضرت محمدؐ کے مدرسۂ نبوت میں تربیت حاصل کی۔ انھیں آپؐ کے ہاتھ سے سندِ فضیلت عطا ہوئی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنo (اعراف ۷:۱۵۷)، لہٰذا جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائے، اور اس کی حمایت و نصرت کی اور اس روشنی کی پیروی اختیار کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سچے مومن کے نام سے یاد کیا ہے، فرمایا:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌo (انفال ۸:۷۴)، جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کی راہ میں گھربار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطائوں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔

اس گروہ کے اولین لوگوں کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُo (التوبۃ ۹:۱۰۰) وہ مہاجر اور انصار جنھوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی گروہ کے بارے میں فرمایا ہے: بہترین لوگ میرے عہد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے۔ (بخاری، مسلم)

اُمتِ مسلمہ کی خصوصیات
صحابہ کرامؓ اُمت ِمسلمہ کا پہلا گروہ ہیں۔ جس طرح ان کی خوبیاں، فضائل اور رفعتِ مقام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں کیا ہے اسی طرح مجموعی طور پر اُمت ِمسلمہ کے چار اوصاف قرآن مجید نے بیان کیے ہیں:

ربّانی اُمّت: یہ ایسی اُمت ہے جس کی تشکیل خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے، لہٰذا یہ ربانی اُمت ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو اُمت ِ وسط بنایا ہے‘‘۔ گویا یہ اُمت ایک مخصوص سانچے میں ڈھال کر تیار کی گئی ہے جیساکہ فرمایا گیا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں اُتارا گیا ہے‘‘۔ گویا یہ ازخود اُمت نہیں بن گئی بلکہ اسے اُمت بنایا گیا ہے اور یہ صرف اپنے لیے نہیں بنی بلکہ انسانیت کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ انسانوں کو راہِ راست کی طرف لانے کے لیے، انسانوں کو روشنی بہم پہنچانے کے لیے، انسانوں کو نفع پہنچانے کے لیے بنائی گئی ہے اور اسے بنانے والا اللہ ہے۔

اُمّتِ وسط: یہ اُمت وسط ہے، لہٰذا یہ متوازن اُمت ہے۔ یہ یہودیوں کی طرح مادی پہلو سے غُلو(مبالغے) کا شکار ہے نہ نصاریٰ کی طرح روحانی پہلو سے غُلو میں مبتلا ہے۔ یہود کی طرح یہ حرام میں اسراف کی مرتکب نہیں اور نصاریٰ کی طرح اس میں تنگی کا شکار نہیں۔ یہ فرد کے اُوپر کمیونسٹوں جیسی پابندیاں نہیں عائد کرتی اور نہ سرمایہ داری کی طرح اُسے پیس کر رکھ دیتی ہے۔

یہ ایک جامع توازن کی حامل اُمت ہے جس نے روحانیت و مادیت اور دین و دنیا کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ اس نے زمین کو آسمان سے ملایا ہے، روح اور مادے کا امتزاج پیدا کیا ہے، مخلوق کو خالق سے جوڑ دیا ہے، حقوق اور فرائض کے درمیان توازن پیدا کیا ہے۔ اس نے دو روشنیوں، وحی اور عقل کو یک جا کیا ہے۔ گویا یہ نورٌ علیٰ نور ہے۔ اس اُمت نے اعتدال و توازن کی تعلیم انسانیت کو دی ہے۔ عبادت اور معاملاتِ زندگی میں اعتدال قائم کرنے کی غرض سے فرمایا گیا کہ عبادت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: تم پر تمھارے بدن کا بھی حق ہے، تمھارے دل کا بھی حق ہے، تمھارے اہل کا بھی حق ہے، تم پر میل ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی حق ہے اور تمھارے رب کا بھی حق ہے۔ ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو۔ (بخاری، مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی مسلمان کے لیے فرمایا: ایک وقت تمھارے دل کے لیے ہونا چاہیے اور ایک تمھارے رب کے لیے (ساعۃ وساعۃ)۔ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا: کیا اُونٹنی کا گھٹنا باندھنا چاہیے، یا اللہ پر توکل کر کے رہنے دیا جائے؟۔ آپؐ نے فرمایا: گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو (ترمذی)۔ صحابہ کرامؓ فرمایا کرتے تھے: اپنی دنیا کے لیے اس طرح کام کرو گویا تمھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور اپنی آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا تمھیں کل مرجانا ہے، یعنی دنیا کی نسبت آخرت کے کاموں کو زیادہ تیزی سے انجام دیا جائے۔

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت برپا ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک پودا ہو تو اگر وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اس پودے کو لگا سکتا ہے تو ضرور لگا دے (احمد)۔ غور کیا جائے کہ قیامت برپا ہونے کے بعد تو کوئی بھی نہیں رہے گا جو اس پودے کا پھل کھائے، لہٰذا اسے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟یہ اس لیے کہ مسلمان زندگی کی آخری سانس تک کام کرتا، پیداوار بڑھاتا اور دوسروں کو کچھ عطا کرتا ہے کیونکہ وہ نیک کام کے ذریعے ہی اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔

خیر اُمّت: یہ اُمت ’خیر‘ ہونے کے اعتبار سے دوسری اُمتوں سے ممتاز ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں اُتار لیا گیا ہے‘‘۔ لیکن اس کا یہ ’خیر‘ ہونا نسلی طور پر نہیں ہے، جیساکہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نسلی طور پر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم ہے۔ نہیں بلکہ اُمت مسلمہ اپنے اوصاف کی بنا پر ’خیر‘ ہے اور جو بھی ان اوصاف کو اختیار کرلے وہ خیر کا متحمل ہوسکتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم اور کسی بھی رنگ سے ہو۔ ’خیر‘ ہونے کے اوصاف یہ ہیں کہ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

اس بنا پر اُمت مسلمہ ممتاز ٹھیرتی ہے کہ یہ دعوت کی حامل اُمت ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والی اُمت ہے، دنیا کی اصلاح کی علَم بردار اُمت ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔

اُمتِ واحدہ:یہ اُمت واحدہ ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِo (الانبیاء ۲۱:۹۲)، ’’یہ تمھاری اُمت حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، لہٰذا تم میری عبادت کرو‘‘۔ مزید ارشاد فرمایا: وَاِِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِo (المومنون ۲۳:۵۲)، ’’اور یہ تمھاری اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، لہٰذا مجھی سے ڈرو‘‘۔ گویایہ دونوں آیتیں اشارہ کرتی ہیں کہ اتحادِ اُمت کے بغیر نہ عبادت پوری ہوتی ہے، نہ تقویٰ مکمل ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ اسی طرح مومنوں کے ایک ہونے سے قائم ہوتی ہے جس طرح کلمے کے ایک ہونے سے وجود پاتی ہے۔ گویا جب معبودِ پاک ایک ہے تو عبادت گزاروں کو بھی ایک ہونا چاہیے، متفرق و منتشر نہیں۔

اُمتِ محمدیہؐ اپنے عقیدے و عبادت، قبلے و شریعت ، اقدار و روایات، اسلوب و منہج اور مقصد میں مشترک ہونے کی بناپر اُمت ِواحدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)، ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔ پھر فرمایا: وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُط وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo (اٰل عمرٰن۳:۱۰۵)، ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے، جنھوں نے یہ روش اختیار کی، وہ سخت سزا پائیں گے‘‘۔تیسرے مقام پر فرمایا: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (انفال۸:۴۶)، ’’اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی‘‘۔

اسلام نے اس وحدت کو تین اساسی احکام میں مجسم کردیا ہے:

۱- وحدتِ مرجع
۲- وحدتِ دار
۳-وحدتِ قیادت

وحدتِ مرجع (شریعت): وحدتِ مرجع کا مطلب یہ ہے کہ مشرق و مغرب میں موجود اُمت ِ اسلامیہ پر فرض ہے کہ وہ شریعت ِ اسلامیہ کو اپنا قانون اور ضابطہ مانیں۔ وہ شریعت جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دنیوی اور اُخروی مفادات کے حصول کے لیے مقرر کیا ہے۔ اسلامی شریعت مخلوق کی دینی، مالی، نسلی، جانی اور عقلی ضروریات کی محافظ ہے۔ یہ مشکلات کو دُور کرنے اور آسانیاں پیدا کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس نے حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ یہ انسانوں کے درمیان رحمت و عدل قائم کرنے جیسی بنیاد رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِــعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۱۸)، اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے، لہٰذا تم اس پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔

یہ شریعت مسلمانوں کو متحد کرتی ہے انھیں منتشر نہیں کرتی۔ ان کے درمیان قرب پیدا کرتی ہے دُوری نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ (الانعام۶:۱۵۳)، ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندہ کردیں گے‘‘۔

وحدتِ دار(دارالاسلام): وہ مختلف ممالک جہاں کی غالب اکثریت مسلمان ہو، اسلام ان علاقوں کو ’دارالاسلام‘ قرار دیتا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام نے لفظ ’دارالاسلام‘ استعمال کیا ہے ’دیارالاسلام‘ نہیں۔ اگرچہ یہ ممالک مختلف براعظموں میں واقع ہوں اسلام انھیں ’دارِ واحد‘ قرار دیتا ہے۔ ان کے باشندے اپنے ہرجز کا دفاع مکمل یک جہتی کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اہلِ علاقہ اپنے اُوپر حملہ آور دشمن کا راستہ نہیں روک سکتے تو اُن کے قریب ترین ہمسایہ علاقوں ، پھر اُن علاقوں سے متصل علاقوں کے مسلمان باشندوں پر فرض ہے کہ وہ دارالاسلام کے ایک جز پر حملہ آور دشمن کا راستہ روکیں، اسے دشمن کے تسلط سے آزاد کرائیں اور مسلم جمعیت کا حصہ بنائیں۔ یہ جائز نہیں ہے کہ ارضِ اسلام کا کوئی حصہ کسی جگہ ایسا رہے جس کی حفاظت کرنے والے محافظ نہ ہوں، یا اسے آزاد کرانے والے لشکر موجود نہ ہوں۔

وحدتِ قیادت (خلافت ِ اسلامیہ): وحدتِ قیادت سے مراد سیاسی قیادت کی وحدت ہے جو خلافت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ علما نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ امورِ دنیا انجام دینے اور دین کو قائم کرنے کے لیے تدبیر کرنا، نیابتِ رسولؐ ہے۔ خلافت محض شریعت ِ اسلامیہ کے ذریعے حکمرانی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ شریعت ِ اسلامیہ کے ذریعے اُمت ِمسلمہ کی حکمرانی کا نام ہے۔ کسی چھوٹے یا بڑے خطے میں قائم اسلامی حکومت خلافتِ اسلامیہ کے مترادف نہ ہوگی۔

اُمت ِاسلامیہ۱۳ صدیاں اُمت ِواحدہ رہی ہے جس کی ایک حکومت تھی، قیادت بھی ایک تھی جو خلافت ِ راشدہ، امویہ، عباسیہ، یا عثمانیہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ سیاسی قیادت اس نظام کو قائم رکھنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ اس میں کوتاہی جائز نہیں تھی۔ بالآخر اس تاریخی قلعے کو گرا دیا گیا اور وحدتِ اُمت کو پارہ پارہ کر دیا گیا، لیکن سیاسی قیادت کی اس وحدت کے ضائع ہوجانے کے باوجود اُمت قائم اور موجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، کوئی وہم نہیں۔ یہ ایک دینی، تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حقیقت ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ حج کے موسم میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرلے، یا کسی ایسے موقع پر مسلمانوں کے جذبات کو دیکھے جب ان کے مقدسات پر کوئی کیچڑ اُچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈنمارک میں بنائے گئے خاکوں کا مسئلہ ابھی کل کی بات ہے۔ اسی طرح ہالینڈ میں قرآن پر بنائی گئی فلم، سوئٹزرلینڈ میں میناروں کی تعمیر کو روکنے کے لیے قرارداد کی منظوری، یا فلسطین میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم جیسے واقعات پر اُمت کے جذبات کو دیکھا جاسکتا ہے۔