مغربی دنیا کشمیر پر مائل بہ کرم کیوں؟

یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ اور یورپ کی پریشانی اور بھارت کا کردار

امریکہ کے بعد جرمنی کے بیانات اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ طویل عرصے کے مکمل سکوت یا معاندانہ رویّے کے بعد اچانک مغربی دنیا سے کشمیر کے لیے ٹھنڈی ہوا کے خوش گوار جھونکے چلنا شروع ہورہے ہیں۔ یہ ہوائیں چند برس کی مسافت پر اُس وقت چلی ہوتیں جب بھارتی فوجی خطرناک جانوروں پر استعمال کی جانے والی پیلٹ گن ٹی شرٹ اور جین کی پتلون پہنے کشمیر کے ٹین ایجر لڑکوں پر استعمال کرکے اُن کی بینائی چھین رہے تھے، یا پھر اُس وقت محبت کے یہ چشمے اُبل پڑے ہوتے جب بھارت تمام بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو نظرانداز کرکے کشمیر کا تشخص پامال کررہا تھا تو اسے ایک اصولی اور دیانت داری پر مبنی رویہ سمجھا جا سکتا تھا۔ مگر مغربی دنیا کی طرف سے بھارت کی دُم پر پائوں رکھنے کی یہ حکمتِ عملی اُس وقت سامنے آئی ہے جب مغربی بلاک کو یوکرین میں پیوٹن کے خطرے اور غیظ و غضب کا سامنا ہے، اور بھارت اس کام میں امریکہ اور نیٹو کی مدد سے صاف انکاری ہوچکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ایس جے شنکر امریکہ میں صاف صاف کہہ آئے ہیں کہ یوکرین یورپ کا مسئلہ ہے اور یورپ اپنے مسئلے کو دنیا کا مسئلہ بناکر پیش تو کرتا ہے مگر دنیا کے مسائل کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتا۔

امریکہ نے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جن ملکوں کو دھمکایا تھا اُن میں ترکی، بھارت اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک شامل تھے، مگر بھارت نے روس پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے اُس سے تیل کی خریداری کا فیصلہ کرکے امریکہ اور یورپ کا مذاق اُڑانا شروع کیا۔ بھارت نے جو رویہ یوکرین کے سلسلے میں اپنایا ہے آگے چل کر یہی رویہ تائیوان کے کسی بحران میں اپناکر مغربی طاقتوں کو مایوس اور حیران کرسکتا ہے۔

مغرب نے بھارت کا چمکتا دمکتا ’’مجسمۂ آزادی‘‘ اُس دن کی امید پر تیار کیا تھا کہ ایک روز وہ چین کے مقابل کھڑا ہوکر مغربی دنیا کا کام آسان کرے گا، اور یوں شاید مغرب کو عملی طور پر یہاں آنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مگر بھارت یوکرین کے پہلے امتحان میں ہی مغرب کی امیدوں پر پورا نہیں اُترسکا۔ یہ مایوسی اب مغرب کے رویوں میں جھلکنا شروع ہوگئی ہے۔ کشمیر بھارت کی ایسی دُم ہے جس پر کوئی بھی پائوں رکھے تو بھارت کی چیخ پکار سننے کے قابل ہوتی ہے۔ بھارت نے ایک مسلمہ متنازع مسئلے کو اپنی چڑ بنا رکھا ہے اور مغرب بھارت کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے۔

سرد جنگ کے بعد سوویت یونین کے انہدام سے تنہائی کا شکار بھارت کو اپنے حصار میں لینے کے لیے 1990ء کی دہائی کے اوائل میں مغرب نے کشمیر کا ہی کامیاب استعمال کیا تھا۔ اُس دور میں امریکہ نے کشمیر میں حریت پسندوں کی اخلاقی اور سفارتی ہی نہیں، عملی مدد کی کوشش بھی تھی۔ جونہی بھارت نے اپنی منڈیاں کھولتے ہوئے امریکہ سے معانقہ کیا تو امریکہ کشمیر سے لاتعلقی کا رویہ اپناتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ جب امریکہ بھارت اسٹرے ٹیجک تعاون پورے جوبن پر پہنچا تو اُس وقت امریکہ نے کشمیر کے حوالے سے بھارت کی ہی اصطلاحات کو اپنالیا تھا۔ دنوں کا اُلٹ پھیر ہے یا عالمی نظریہ ٔ ضرورت کی حقانیت، کہ ایک بار پھر مغرب کو بھارت کی ضرورت پڑی تو جواب میں ایک حرفِ انکار سے ہی واسطہ پڑتا چلا گیا، جس کے بعد امریکہ کی کشمیر نواز سابق ڈپلومیٹ مسز رابن رافیل کی اسلام آباد میں عین اُس وقت موجودگی جب ان کے حاضر سروس ہم منصب مسٹر ڈونلڈ لو بھارت میں تھے، بھارت کے لیے خاصی معنی خیز تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورئہ امریکہ کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے جو اعلامیہ سامنے آیا اس میں امریکہ اور پاکستان کے مختلف شعبوں میں تعاون کی بات مختلف انداز میں کی گئی تھی مگر یہ خاصے عرصے کے بعد امریکہ اور پاکستان کی ایسی مشترکہ دستاویز تھی جس میں ’’دہشت گردی‘‘ کامنترا تھا اور نہ ’’ڈومور‘‘ کی تکرار۔ جس طرح کشمیر بھارت کی چڑ ہے کچھ یہی صورت حال دہشت گردی کی اصطلاح کی پاکستان کے لیے ہے۔ مغرب میں دہشت گردی کی اصطلاح کو پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کو اس اصطلاح کے ساتھ بریکٹ کیا گیا تھا، اور یہ سب بھارت کی فرمائش پر ہوا تھا۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا آزادکشمیر کا دورہ، اور پھر اپنی گفتگو سے ٹویٹس تک مسلسل آزاد جموں وکشمیر کی اصطلاح استعمال کرنا بھارت کی دُم پر پائوں رکھنے سے کم نہیں تھا۔ چوٹ اس قدر سخت تھی کہ بھارت کے دفتر خارجہ کو اس پر لب کشائی کرتے ہوئے کہنا پڑا کہ امریکی سفیر کے دورئہ آزاد کشمیر پر اپنے جذبات سے امریکی حکام کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ اسی دوران امریکہ نے بھارت جانے والے اپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے انہیں کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں کا سفر کرنے کی ممانعت کی۔

ابھی اس زخم سے خون رِس ہی رہا تھا کہ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں جرمن اور پاکستانی وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں جب بلاول بھٹو زرداری نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کی تو جرمن وزیر خارجہ اینا لینا پیٹرباک نے کہا ”میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ کشمیر کی صورتِ حال کے حوالے سے جرمنی کا بھی ایک کردار اور ذمے داری ہے، تاہم ہم پُرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کے کردار کی حمایت کرتے ہیں“۔ اس بیان کے جواب میں بھارت کے دفتر خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے باضابطہ بیان جاری کرکے ایک بار پھر دہشت گردی کا افسانہ چھیڑ دیا۔ شاید اس وقت مغرب دہشت گردی کے اس راگ میں زیادہ دلچسی نہیں رکھتا کیونکہ یہ ماضی کا قصہ ہے، اور اِس وقت مغرب کی طاقت اور بالادستی کو فوری طور پر روس اور اس کے بعد چین کے خطرات کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے افسانے کو جلدی جلدی انجام تک پہنچانے کے لیے امریکہ نے ڈرون مار کر کابل کے ایک گھر کی بالکونی میں اسامہ بن لادن کے دستِ راست اور جانشین ایمن الظواہری کو مارنے کا دعویٰ کیا۔ افغان حکومت اس دعوے اور لاش ملنے کی تردید کرکے اس کو معما اور مشکوک بنا چکی ہے۔ اب جب تک بھارت مغرب کے قابو میں نہیں آتا، کشمیر پر مثبت اور حوصلہ افزا بیانات کا یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ مگر کیا یہ سلسلہ مغرب کی دیرپا اور پائیدار پالیسی کا حصہ بن سکے گا؟ اس کا امکان بہت کم ہے۔