وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عالیہ بلوچستان کے سابق سربراہ جسٹس (ر) نور محمد مسکانزئی کا قتل

جسٹس محمد نور مسکانزئی پر حملہ ’’توتک‘‘ میں مسلح لاشوں کی برآمدگی کے بعد جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو قرار دیا گیا

 

وفاقی شرعی عدالت اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کو مسلح افراد نے مسجد کے اندر عشا کی نماز کے دوران بہیمانہ اور بزدلانہ طور پرگولیاں برسا کر قتل کردیا۔ یہ دلخراش سانحہ 14اکتوبر کو اُن کے آبائی علاقے خاران میں پیش آیا۔ مسکانزئی خاران شہر میں رہائش پذیر تھے۔ حملے کے دوران اُن کے بہنوئی حاجی ممتاز گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ محمد نور مسکانزئی کو پیٹ میں چار گولیاں لگی ہیں۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ یہ دھڑا نواب خیر بخش مری کے بیٹے حیربیار مری سے منسوب ہے۔ اس کالعدم مسلح گروہ سے پہلے پہل نواب خیر بخش مری کے چھوٹے بیٹے زامران مری نے الگ ہوکر یونائیٹڈ بلوچ آرمی(یو بی اے) کے نام سے الگ تنظیم قائم کرلی تھی۔ حیربیار مری کی طرح زامران مری بھی بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ نواب مری کے بیٹے بالاچ مری نے 2000ء کی دہائی کے آغاز میں کالعدم بی ایل اے کو پھر سے منظم کیا اور خود پہاڑوں پر جاکر مسلح کارروائیوں کی قیادت سنبھال لی۔ یہ مسلح گروہ 1970ء کی دہائی کی شورش کے بعد پس منظر میں چلا گیا تھا۔ بالاچ مری 2002ء کے عام انتخابات میں پی بی23 کوہلو سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ چناں چہ اسی دوران اُن کے بھائی حیربیار مری، زامران مری اور گزین مری بیرونِ ملک چلے گئے۔ گزین مری البتہ ایک ڈیل کے نتیجے میں واپس پاکستان آگئے۔ اُن کے خلاف مختلف مقدمات درج تھے جن کا انہوں نے عدالتوں میں سامنا کیا۔

جنوری 2000ء میں کوئٹہ کے زرغون روڈ پر بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نواز مری ایک حملے میں قتل ہوئے۔ لواحقین نے اس قتل میں نواب خیر بخش مری سمیت اُن کے بیٹوں کو نامزد کردیا، جس پر نواب خیر بخش مری گرفتار کرلیے گئے تھے۔ اس مقدمۂ قتل میں عبدالنبی بنگلزئی اور چند دوسرے بھی گرفتار کیے گئے تھے۔ عبدالنبی بنگلزئی کالعدم بی ایل اے کے مرکزی کمانڈر تھے۔ جیل سے رہا ہونے کے عبدالنبی بنگلزئی نے پھر روپوش ہوکر عسکریت پسندی کی راہ اپنا لی۔ بنگلزئی نے بعد ازاں حیر بیار سے الگ ہوکر اُن کے چھوٹے بھائی زامران کی یو بی اے کی کمانڈ سنبھال لی۔ عبدالنبی بنگلزئی ضعیف ہیں، کہیں گوشہ نشین ہیں۔ کالعدم بی ایل اے سے کمانڈر اسلم اچھو اور بشیر زیب نے الگ ہوکر بی ایل اے ہی کے نام سے الگ دھڑا قائم کرلیا۔ اس گروہ کو سرداروں اور نواب زادوں کے بجائے متوسط طبقے کے نوجوانوں کی تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ اس گروہ نے کئی سنگین حملے کیے، خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسلم اچھو کے افغان صوبہ قندھار کے پوش علاقے’’عینو مینہ‘‘ میں بم دھماکے میں مارے جانے کے بعد کمانڈ بشیر زیب کو سونپ دی گئی۔ گویا بلوچستان میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل اے) کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر اور اسلم اچھو کی بی ایل اے کارروائیوں کے لحاظ سے نمایاں ہے۔ جسٹس محمد نور مسکانزئی پر حملہ البتہ حیربیار مری کے دھڑے کی ایک مدت بعد بڑی کارروائی ہے جس کے لیے جواز ’’توتک‘‘ میں مسلح لاشوں کی برآمدگی کے بعد جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو قرار دیا گیا۔ یہ لاشیں جنوری2014ء میں خضدار کے علاقے ’’توتک مژی‘‘ میں برآمد ہوئی تھیں۔ صوبے میں سیاسی جماعتوں اور لاپتا افراد کے لواحقین کی تنظیم نے اس مسئلے کو اٹھایا کہ یہ گمشدہ افراد کی باقیات ہیں۔ نور محمد مسکانزئی تب بلوچستان ہائی کورٹ کے جج تھے۔ وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے اُن پر مشتمل ایک رکنی عدالتی کمیشن بنایا جس نے مئی2014ء میں اپنی رپورٹ مکمل کرکے بلوچستان حکومت کو پیش کی۔ اگست 2014ء میں تین صفحات پر مشتمل کچھ سفارشات اور مندرجات ایک پریس ریلیز کی شکل میں عام کیے گئے۔ اس پریس ریلیز کے مطابق کمیشن کی رپورٹ میں حکومت، فوج اور خفیہ اداروں کے اجتماعی قبروں کے معاملے میں ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا گیا اور کہا گیا کہ ’’ایک گواہ کے سوا کسی نے بھی حکومت اور اداروں کے خلاف بیان نہیں دیا۔ اس گواہ کا بیان بھی سنا سنایا، خود اخذ کردہ، تجریات پر مبنی اور بغیر تائید کے تھا‘‘۔ تاہم کمیشن نے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے آئینی فرائض میں حکومت کو غفلت کا مرتکب قرار دیا اور مارچ سے دسمبر2013ء تک خضدار میں تعینات سول انتظامیہ کے افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔ یہ بھی قرار دیا کہ ’’اشارے شفیق الرحمان اور اس کے ساتھیوں کی طرف جاتے ہیں‘‘۔ دیکھا جائے تو کمیشن نے دستیاب اور معروضی شواہد کے تحت درست رپورٹ مرتب کی تھی۔ بہرحال صوبے کی ایک نمایاں اور اچھی شہرت کی حامل شخصیت کے بہیمانہ قتل پر صوبہ مغموم ہوا ہے۔ اس فعل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا، بلکہ شرمناک کہا گیا ہے ۔ بلوچستان کے ججوں اور وکلا تنظیموں نے اس سیاہ واردات کی مذمت کی ہے۔ 15اکتوبر کو کوئٹہ اور صوبے کے تمام اضلاع کی عدالتوں میں یوم سیاہ منایا گیا۔ عدالتی امور کا احتجاجاً مقاطعہ کیا گیا۔ بلوچستان ہائی کورٹ، ہائی کورٹ سرکٹ بینچز اور تمام ضلعی عدالتوں میں تین روزہ سوگ منایا گیا۔کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور واقعے کے اگلے روز خاران میں مسکانزئی کی رہائش گاہ پہنچ گئے اور لواحقین سے تعزیت کی۔ اسموقع پر انہوں نے کہا کہ قاتلوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔ نیشنل پارٹی کی جانب سے قتل کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔پارٹی سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ’’بلوچستان ایک اہم اور قابل انسان سے محروم ہو گیا ہے ۔عام و بااثر افراد کو اس طرح نشانہ بنانے سے صوبہ مزید انارکی اور انتشار کی جانب گامزن ہوگا‘‘۔ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ ایسے اقدامات سے بلوچ معاشرہ مزید تباہی اور بربادی کی طرف جائے گا‘‘۔

محمد نور مسکانزئی نماز کے دوران نشانہ بنائے گئے۔ ایسی واردات کی صوبے کے اندر شاذ ہی مثال ملتی ہے۔ نور محمد مسکانزئی کی اپنے آبائی ضلع میں تعلیمی،سماجی اور سیاسی خدمات ہیں۔ خاران میں تحصیل ناظم رہے ، آبائی ضلع میں تین عوامی کتب خانے قائم کیے جن سے عوام خصوصاً طلبہ مستفید ہورہے ہیں، بعض کتب خانوں کے لیے اپنی جائداد بھی وقف کر رکھی ہے۔ خاران میں یونیورسٹی سب کیمپس، یتیموں کے لیے مفت رہائش اور تعلیم کے لیے دارالاحساس کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔علم دوستی اور عوام کی خدمت کا جذبہ اور احساس انہیں والد مرحوم سے وراثت میں ملا تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر علامہ محمد قاسم عینی بلوچ نامور شخص تھے، جامشورو یونیورسٹی سندھ سے حدیث کے علوم میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی اور خاران کے اندر سب سے پہلے نجی تعلیمی ادارے کے قیام کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ نور محمد مسکانزئی چار دہائیوں تک وکالت اور قانون کے شعبے سے وابستہ رہے۔ یونیورسٹی لا کالج کوئٹہ سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1980ء کی دہائی کے آغاز میں وکالت شروع کی۔ پراسیکیوٹر، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدوں پر فرائض انجام دیئے ،بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین رہے۔ 2009ء میں جب پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج فارغ کیے گئے تو بلوچستان ہائی کورٹ میں ججوں کی کمی واقع ہوئی، جس کے پیش نظر ججوں کی تعیناتیاں ہوئیں جن میںمحمد نور مسکانزئی بھی شامل تھے۔ دسمبر2014ء سے اگست2018ء تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ اس کے بعد انہیں مئی2019ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ تین سال تک اس عہدے پر کام کیا اور سود کے خلاف 19سال سے زیر التوا درخواستوں کی شنوائی کی۔ سود کے خلاف فیصلہ دینے والے بینچ کے سربراہ تھے۔

بلوچستان میں ججوں پر اس سے پہلے بھی حملے ہوچکے ہیں، جیسا کہ ذکر ہوا 2000ء میں جسٹس نواز مری کا قتل ہوا۔ فروری 2007ء میں کوئٹہ کی ضلع کچہری کے کمرۂ عدالت میں خودکش حملہ ہوا جس میں سینئر سول جج عبدالواحد درانی اور سات وکلاء سمیت پندرہ افراد جاں بحق ہوئے۔اگست 2012ء میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ذوالفقار نقوی کو کوئٹہ میں محافظ اور ڈرائیور سمیت قتل کیاگیا۔نومبر 2014ء میں انسداد دہشت گردی عدالت کوئٹہ کے جج نذیر احمد لانگوجو ہائی کورٹ کے موجودہ جج ہیں، کی گاڑی پر بم حملے میں ایک شخص جاں بحق اور دو محافظوں سمیت تیس سے زائد زخمی ہوئے تھے تاہم وہ محفوظ رہے۔اگست 2016ء میں وفاقی شرعی عدالت کے جج ملک ظہور احمد شاہوانی بھی کوئٹہ کے زرغون روڈ پر ایک بم حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔ اس حملے میں جج کے محافظوں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔ 8 اگست 2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں وکلا پر خودکش حملہ ہوا جس میں 56 وکلا سمیت70سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ ان واقعات پر وکیل اور جج برادری تشویش میں مبتلا ہے۔

صوبائی حکومت نے محمد نور مسکانزئی کے قتل کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس میں ڈی آئی جی رخشان ڈویژن، ایس پی اسپیشل برانچ، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی ، ایف سی انٹیلی جنس کے نمائندے اور متعلقہ تفتیشی افسر شامل ہوگا۔ ٹیم کو ایک ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ انسداد دہشت گردی عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مجموعی طور پر حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ 25ستمبر 2022ء کو ضلع ہرنائی کے علاقے خوست کی حدود میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا جس میں میجر رینک کے دو پائلٹوں سمیت چھ اہلکار جاں بحق ہوگئے۔اس حادثے کو کالعدم گروہ نے منفی رنگ کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہی دنوں کالعدم بی ایل اے نے دو افراد کی تصاویر جاری کیں ، کہ وہ ان سپاہیوں کو اپنے قیدیوں کی رہائی کے بدلے رہا کردیں گے ۔ دوسرے مغوی کے رشتہ دار وں نے پنجاب کے شہر پتوکی میں بازیابی کے لیے مظاہرہ بھی کیا۔ پیر اسماعیل سے مچھ تک طویل پٹی میں مسلح گروہ نے گزشتہ چند ماہ سے کوئلہ کی صنعت بند کر رکھی ہے۔ ہزاروں افراد کا روزگار بند ہوا، ساتھ کوئلہ کی ترسیل منقطع ہے مگر صوبے کی حکومت اس پوری صورت حال سے غافل ہے۔ اس بابت سرے سے کوئی بازپرس اور غور و خوض کیا ہی نہیں۔ محمد نور مسکانزئی کا قتل اور دوسرے واقعات صوبے کی حکومت کی نااہلی اور نالائقی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ حکومت کے اس چہرے سے لوگ متنفر ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ژوب،شیرانی، لورالائی ، قلعہ سیف اللہ اور متصل علاقوں میں تھریٹ الرٹ جاری ہوا ہے۔ بہرکیف شنید ہے کہ ریاست سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل جن سے مسلح گروہ منسوب ہے اور نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی سے بات چیت میں بڑی حد تک پیش رفت کرچکی ہے جس کے بعد ان دو جلا وطن افراد کی وطن واپسی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ براہمداغ بگٹی نے ہمیشہ مسلح گروہ بی آر اے کی قیادت سے انکار کیا ہے۔ وہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ ہیں۔ براہمداغ بگٹی کے اس مؤقف کے پیش نظر کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی سے گلزار امام نے الگ دھڑا قائم کرلیا۔براہمداغ بگٹی اگست 2006ء میں منظر عام سے غائب ہوئے ۔ کابل پہنچے، پھر وہاں سے جنیوا منتقل ہوئے۔ براہمداغ بگٹی اور جاوید مینگل کی بلوچستان واپسی درست فیصلہ سمجھا جاتا ہے جس سے بہت حد تک صوبے کی سیاسی فضا ہموار ہونے میںمدد ملے گی۔ بہرکیف صوبے کی حکومت بھی ریاست کے لیے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے ۔