معاشی ماہرین کہتے ہیںکہ اگر ہم زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم نہ رکھ سکے تو روپے کی قدر میں مزیدکمی ہوسکتی ہے۔
کسی ملک کی اچھی معاشی کارکردگی کا دارومدار معاشی پالیسیوں کے تسلسل اور سیاسی استحکام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کار اعتماد کے ساتھ طویل المیعاد بنیاد پر سرمایہ کاری کرتے ہیں جس سے ملک میں صنعتی اور معاشی ترقی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ معاشی پالیسیوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے معیشت اس ڈگر پر پہنچ گئی کہ پاکستانی روپے کی قدر گزشتہ 9 مہینوں میں ریکارڈ 20 فیصد کم ہوکر ڈالر کے مقابلے میں 240 روپے تک پہنچ گئی۔
معاشی ماہرین کہتے ہیںکہ اگر ہم زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم نہ رکھ سکے تو روپے کی قدر میں مزیدکمی ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 7.5 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح پر آگئے ہیں جس میں 3 ارب ڈالر سعودی عرب کے سافٹ ڈپازٹ کے شامل ہیں جو سعودی عرب نے حال ہی میں پاکستان کی درخواست پر ایک سال کے لیے رول اوور کیے تھے۔ حکومت کو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مدنظر متحدہ عرب امارات اور قطر سے بھی تقریباً 5 ارب ڈالر کے سافٹ ڈپازٹ، نئی سرمایہ کاری اور ادھار گیس کی سہولتیں جلد از جلد حاصل کرنا ہوں گی، اس کے علاوہ چین کے 30 ارب ڈالر کے قرضوں کو مؤخر کروانا ہوگا۔
پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے عالمی معاہدوں سے انحراف کیا اور IMF کے پروگرام سے نکلنے کی وجہ سے ہمیں شدید معاشی نقصانات اٹھانا پڑے ،جس کی وجہ سے ملک اس وقت بدترین معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت حال سے دوچار ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2022-23ء میں ہمیں 33.5 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے، حالیہ سیلاب سے ملکی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام نے عالمی مالیاتی اداروں کو تجویز دی ہے کہ سیلاب کی صورت حال کے باعث پاکستان اپنے قرضوں کی ادائی کے قابل نہیں لہٰذا پاکستان کے قرضے مؤخر کیے جائیں۔ لیکن عالمی بانڈ مارکیٹ میں اس بیان کو منفی لیا گیا جس کی وجہ سے حکومتِ پاکستان کے 2024ء اور 2036ء میں ادا کیے جانے والے ڈالر بانڈز کی 60 فیصد ویلیو گرگئی اور حکومت کو وضاحت کرنا پڑی کہ پاکستان دسمبر 2022ء میں اپنے ایک ارب ڈالر کے بانڈز اور 2022-23ء میں 600 ملین ڈالر کے سود کی وقت پر ادائی کرے گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت عالمی مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہیں کرسکی، جبکہ موڈیز نے بھی حال ہی میں پاکستان کی ریٹنگ منفی کردی ہے۔
ملک کے اس معاشی پس منظر میں سابق وزیراعظم عمران خان کا یہ انکشاف اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت ان کے پاس تھی مگر فیصلے کوئی اور کررہا تھا۔ جن کے بارے میں عمران خان نے یہ بات کہی ہے، اُن کا مؤقف ہے کہ وزیراعظم تو عمران خان تھے، بدنام ہم ہورہے تھے اور ملکی معیشت چلانے اور ان کی مدد کے لیے پیسے بھی ہم ہی اکٹھے کرتے رہے ہیں۔ ماضی کی طرح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایم ایف ڈیل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو فون کیا، انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں کئی اقتصادی ڈیلز اور معاشی معاہدے فوج کی مدد سے ہوئے، عمران خان کی حکومت کے دوران قطر کے ساتھ ایل این جی خریدنے کا معاہدہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کرایا تھا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر سے جو پیسہ پاکستان کو ملتا ہے وہ فوج کے تعاون کے بغیر نہیں ملتا۔ بہتر یہی تھا کہ عمران خان نے جن سے گلہ کیا ہے اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان سے خفیہ ملاقات نہ کرتے، مگر انہوں نے ملاقات کی اور اس ملاقات کے لیے کم از کم تین ماہ تک منت سماجت بھی کرتے رہے۔ اگر انہیں سچ ہی بولنا ہے تو پھر پورا سچ بولیں، ابہام پیدا کرکے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
جس طرح کی شکایت عمران خان نے کی ہے، یہی شکایت ماضی کے منتخب وزرائے اعظم بھی کرتے آئے ہیں، دو نوں کی شکایتوں میں فرق کیا ہے؟ اگر عمران خان اب شکایت کرکے ملک کے دیگر سیاست دانوں کی صف میں شامل ہوہی گئے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ عہد کریں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر وہ آئندہ2014ء کی طرح دھرنا نہیں دیں گے، اب انہیں چاہیے کہ سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھیں اور انہیں متحد کریں، تاکہ مستقبل میں کسی وزیراعظم کو ایسی شکایت پیدا نہ ہو۔ عمران خان کی قیادت میں موجودہ اپوزیشن مقتدرہ کی حمایت کی بحالی کے لیے جس طرح سر توڑ کوشش کررہی ہے، اس کے مثبت نتائج مل جائیں تو پھر ان کا رویہ کیا ہوگا؟
آج کا سچ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد اور آئین کی بالادستی کا مؤقف سیاست کی موقع پرستیوں کی راہ داریوں میں کہیں گم ہوچکاہے، اور یوں سیاست اپنا اخلاقی اور جائز جواز کھو بیٹھی ہے۔ لیکن اب انہیں اپنی لڑائی خود لڑنا ہوگی کیونکہ کندھے اب کسی کو بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔ اب عوامی مقبولیت کا فیصلہ بھی ووٹ کے ذریعے ہی ہوگا۔
قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلی کی3 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں۔ رائے دہندگان کے فیصلے کو تلپٹ کرنے کا سیاسی ڈراما بند ہوجانا چاہیے۔ تحریک انصاف کوعملی طور پر جمہوریت پسند بننے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی جب مقتدرہ سے شکایتیں ایک سی ہوگئی ہیں تو آئینی و پارلیمانی حکمرانی کے لیے سیاست دان کسی ایک ایجنڈے پر متحد ہوجائیں، اوریہ کام رواداری کے علاوہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے ہوگا۔ ایک دوسرے کو سیاست سے باہر کرنے سے نہیں بلکہ جمہور کی حکمرانی کو یقینی بنانے سے ملک ترقی کرے گا۔ ملک کا سیاسی منظرنامہ ہمیشہ کی طرح پیچیدگی اور انتشار کا شکار ہے، لیکن عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ایک بار پھر جنگ کی راہ پر گامزن ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کو عدالتوں نے کسی طرح کے جوڑ توڑ کے ذریعے ریلیف دیا ہے۔ الزامات اور لفظوں کی جنگ جاری ہے اور لگتا ہے کہ موسم سرما کے آغاز کا ملک کے سیاسی درجہ حرارت پر بہت کم اثر پڑے گا جو ابھی سے بڑھ رہا ہے۔ کچھ سیاسی تجزیہ کار عمران خان کے ’لانگ مارچ ٹو اسلام آباد‘ پر اصرار کو بھی نومبر کے فیصلے سے منسلک دیکھتے ہیں۔ عمران خان کے الزامات پر حکومت بھی خاموش نہیں بیٹھی ہے، مستقبل کا سیاسی منظرنامہ پُرتشدد نظر آرہا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران کو اسلام آباد اور دیگر مقامات پر خلل ڈالنے سے ہر قیمت پر روکا جائے گا۔ ان دو بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان کسی قسم کا تصادم ملک کی سیاسی تصویر خوشگوار نہیں بتارہا۔ ملک کا ایک تہائی حصہ اس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، بے بس قوم کے لیے یہ واضح اشارہ دیتا ہے کہ سیاسی اشرافیہ کے لیے اقتدار کے سوا کسی بھی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سیلاب کے نقصان کے بعد پاکستان پیرس کلب کے علاوہ باقی ماندہ 27 ارب ڈالرکے قرضوں کی ری شیڈولنگ چاہتا ہے، پاکستان کے قرضوں کے مؤخر ہونے، دسمبرمیں قابلِ ادائی بانڈز کی میچوریٹی تاریخ میں توسیع اورآئی ایم ایف پروگرام پردوبارہ مذاکرات کے امکانات نہیں ہیں۔
پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کا تخمینہ 32 ارب ڈالر ہے، ان میں سے گزشتہ منظور شدہ سست رو ترقیاتی قرضوں سے حاصل کیے جائیں گے۔ پاکستان قرضہ دینے والے اداروں اور ممالک کے ساتھ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کا معاملہ اٹھائے گا۔ کرنسی کی قدرکے معاملے پرحکومت ’’فزیکل مداخلت‘‘ نہیں کررہی، ڈالرکی قدرکے لحاظ سے روپے کی اصل قیمت 200 روپے بنتی ہے۔ ڈالر کی قدر اب 219 روپے ہے۔ مضبوط کرنسی اورکرنسی کی حقیقی قدر ہونی چاہیے، مگر اسے کسی اورکرنسی کا یرغمالی نہیں بننا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ریزلیئنس اینڈسسٹین ایبلیٹی ٹرسٹ فارمڈل انکم کنٹریز سمیت تمام آپشنز پرکھلی گفتگو ہوئی ہے۔ اسے باور کرایا گیاہے کہ حالیہ سیلاب سے پاکستان میں زراعت کا شعبہ بری طرح سے متاثرہوا ہے، اگلے سال کئی ملین ٹن گندم درآمدکرنا پڑسکتی ہے۔ اسی لیے پاکستان آئی ایم ایف کی ہنگامی فوڈ شاپ سہولت سے استفادہ کرنے کا سوچ رہا ہے، اور عالمی خوراک کے نظام سے اپیل کی جارہی ہے۔
اقوام متحدہ نے کرۂ ارض کی موجودہ ماحولیاتی کیفیات کے تناظر میں نئے بحرانوں کے خدشات سے عالمی برادری کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے۔ جنیوا سے جاری تازہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ موسم اور آب و ہوا کی آفات بڑھ رہی ہیں تاہم نصف ممالک کے پاس جان بچانے کے لیے درکار جدید ابتدائی انتباہی نظام کی کمی ہے۔ عالمی ادارے کے ذیلی شعبوں کے مطابق جن ممالک میں ابتدائی انتباہی نظام ناقص ہے وہاں آفات سے ہونے والی اموات اوسطاً اُن ممالک کے مقابلے میں 8 گنا زیادہ ہوتی ہیں جو مضبوط اقدامات کرتے ہیں۔ سیلاب، خشک سالی، گرمی کی لہروں، طوفانوں یا دیگر آفات کے لیے مناسب ابتدائی انتباہی نظام کی موجودگی منفی اثرات کی شدت گھٹانے کی منصوبہ بندی میں معاون ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس تحقیقی اداروں کی تجزیاتی رپورٹوں کے حوالے سے جہاں یہ محسوس کرتے ہیں کہ انتہائی نوعیت کے موسمی واقعات رونما ہوں گے وہاں اُن کا کہنا ہے کہ متوقع واقعات کو مہلک آفات بننے سے روکا جا سکتا ہے۔ جاری کی گئی رپورٹ جہاں عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں تیزی کی نشاندہی کررہی ہے، وہاں مزید آفات کی پیش گوئی کے ساتھ خطرات کے پیشگی انتباہی نظام کی ضرورت بھی اجاگر کررہی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی نصف اقوام ہی مذکورہ نوعیت کے انتظامات سے لیس ہیں۔ عالمی حدت اور ماحولیاتی کیفیت کے پیش نظر ایسی گلوبل منصوبہ بندی کی ضرورت بڑھ گئی ہے جس میں بین الاقوامی ایجنسیوں کے ذریعے غریب ممالک کو ابتدائی انتباہی نظام سے لیس کیا جا سکے، اور ہر ملک کے حالات کے مطابق یہ جائزہ لیا جا سکے کہ بحران کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے، اس سے نمٹنے کے کیا کیا طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پاکستان کو سیلاب کے باعث درپیش چیلنجز کے تناظر میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور کثیر الجہتی عطیہ دہندگان سے ملک کے لیے زیادہ پالیسی سپورٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گورنر اسٹیٹ بینک، واشنگٹن ڈی سی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے ایم ای این اے پی (مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان اور پاکستان) کے وزرائے خزانہ اور گورنرز کے ہمراہ شرکت کی۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی صورت حال پر اپنا ردعمل تیار کرے۔ ردعمل کی تیاری میں ان ممالک کو ماحولیات سے پیدا ہونے والی آفات کے پس منظر میں جن ملتے جلتے اقتصادی، سماجی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں مدنظر رکھا جائے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان کے تباہ کن سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے واقعات سمیت علاقائی معیشتوں کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی، پاکستان کے ساتھ اپنی گہری ہمدردی کا اظہار کیا اور فنڈ کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
اسحاق ڈار کے بعد سے روپے کی قدر میں 8.25 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ حکومت کے پاس ڈالر پمپ کرکے مارکیٹ میں مداخلت کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کہتے رہے ہیں کہ ڈالر کی اصل قیمت 200 روپے کے قریب ہے، اس لیے برآمد کنندگان سوچ رہے ہیں کہ ان کے آنے کے بعد اب اس کی قیمت میں کمی ہوگی اور وہ اسے بیچ رہے ہیں جس کی وجہ سے روپیہ مضبوط ہوا۔ تقریباً 8 کمرشل بینکوں نے قیاس آرائیوں اور غلط بیانی کے ذریعے منافع کمایا جب کہ اسٹیٹ بینک کو یقین دلایا کہ وہ خسارے میں ہیں۔ نیشنل بینک آف پاکستان نے پاکستان اسٹیٹ آئل کو ڈالر 242 روپے کی شرح سے فروخت کیے جب کہ اس دن مارکیٹ 230 روپے پر بند ہوئی تھی۔ ان تمام معاملات کی فوری تحقیقات کی ضرورت ہے۔ نیب کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ ویسے بھی جب سے نیب قائم ہوا ہے ملک میں کرپشن بڑھی ہے، کم نہیں ہوئی۔ نیب کے علاوہ ملک میں پی پی آر اے کے قوانین بھی ہیں، ملک کے سسٹم میں اتنی نالائقی پیدا کردی گئی ہے کہ پکڑ نہیں ہورہی، اور معیشت کی تباہی پر خاموشی ہے۔