ذرائع ابلاغ کی طاقت

 اخبار کی تہذیب میں لفظ دیکھتے ہی دیکھتے ’’بم‘‘ بن گیا۔ ٹیلی ویژن نے بم کو ’’ایٹم بم‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔

 

ہمارے زمانے میں ذرائع ابلاغ کی طاقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے خواب کو حقیقت اور حقیقت کو خواب بنادیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری تہذیب ذرائع ابلاغ کی تہذیب بن کر رہ گئی ہے۔

غور کیا جائے تو انسان کی پوری زندگی ’’لفظ‘‘ پر کھڑی ہوئی ہے، اور انسانی تہذیب دراصل لفظ کی تہذیب کا دوسرا نام ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لفظ کی تہذیب آسمانی کتب کی تہذیب تھی۔ اس تہذیب میں لفظ ’’صداقت‘‘ کے معنی تھا۔ چنانچہ اخبارات کا دور شروع ہوا تو لفظ کی تہذیب اخبار کی پشت پر آ کھڑی ہوئی، اور اخبار کو انسانوں کی زندگی میں ’’سند‘‘ کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اگرچہ اب دنیا میں انسانوں کی عظیم اکثریت کفر اور شرک کی زندگی بسر کررہی ہے لیکن اس کے باوجود سیکولر معاشروں تک میں شائع اور نشر ہونے والے لفظ کو تقدیس کا سایہ فراہم ہے۔ لوگ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز سے چلنے والی خبروں کا حوالہ اس طرح دیتے ہیں جیسے وہ ’’آکاش وانی‘‘ یا آسمان سے نازل ہونے والی خبریں ہوں۔

آکاش وانی دراصل بھارت کے سرکاری ریڈیو اسٹیشن کا نام ہے، اور آکاش وانی کا لفظی ترجمہ ’’آسمانی آواز‘‘ اور با محاورہ ترجمہ ’’ندائے غیب‘‘ ہے، اور ان دونوں صورتوں میں آکاش وانی مذہبی تصورات کے زیر اثر آتا ہے۔ حالانکہ بھارت کہنے کو ایک سیکولر ملک ہے، یہ صورتِ حال اس کے باوجود موجود ہے۔ ذرائع ابلاغ نے لفظ کی تہذیب کو بدل ڈالا ہے۔ جب تک لفظ کتاب کی تہذیب کا حصہ تھا تو وہ ایک ’’چراغ‘‘ اور ’’پھلجھڑی‘‘ کی طرح تھا۔ اخبار کی تہذیب میں لفظ دیکھتے ہی دیکھتے ’’بم‘‘ بن گیا۔ ٹیلی ویژن نے بم کو ’’ایٹم بم‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کے الفاظ میں صداقت کم ہے، تابکاری زیادہ ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ نے الفاظ کی تعمیری قوت کو کم کردیا ہے اور ان کی تخریبی قوت کو ابھار دیا ہے۔ چنانچہ جدید ذرائع ابلاغ میں الفاظ ’’نشتر‘‘ کا کام کم اور ’’چاقو، چھری‘‘ کا کام زیادہ کرتے ہیں۔

زبان کے اعتبار سے انسانی تاریخ اور تہذیب کا بیشتر زمانہ مذہبی اور ادبی زبان کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں لفظ بیک وقت علامت، تشبیہ، استعارے، محاورے اور ضرب المثلِ کی سطح پر کلام کرتا تھا۔ چنانچہ اس زمانے کی زبان شعور اور فہم کی تمام سطحوں پر محیط تھی۔ ہمارے یہاں صحافت کا ابتدائی زمانہ علماء، شاعروں اور ادیبوں کا زمانہ تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں ہماری زبان کا کلاسیکل سانچہ بڑی حد تک صحافت میں موجود تھا۔ اس صورت میں صحافت کتاب کی توسیع بن گئی تھی، لیکن رفتہ رفتہ اہلِ فکر و نظر، شاعروں اور ادیبوں کی تعداد صحافت میں کم ہوتی چلی گئی اور اُن کی جگہ وہ لوگ آگئے جو صرف ’’صحافی‘‘ تھے۔ چنانچہ صحافت نے ایک نئی زبان پیدا کرلی۔ اس زبان کو عرفِ عام میں ’’صحافتی زبان‘‘ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر اس زبان کی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ آسان زبان ہے، عوام کی زبان ہے۔ لیکن جو زبان معنی کی گہرائی، معنی کی کثرت، علامت، تشبیہ، استعارے، محاورے اور ضرب الامثال سے یکسر کٹ جائے وہ زبان، زبان نہیں زبان کا سایہ ہے۔ زبان کا دھوکا ہے۔ ایسی زبان انسانی شعور کی صرف ایک آدھ سطح کو گرفت میں لیتی اور بیان کرتی ہے، اور زندگی کی کلیّت یا Wholness کا شعور رفتہ رفتہ زائل ہونے لگتا ہے۔ خبروں کی حد تک توآسان یا یک سطحی زبان کا استعمال قابلِ فہم ہے، اس لیے کہ اکثر واقعات کو بیان کرنے کے لیے گہری زبان کے سانچے کی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن اگر خبر کی زبان پورے اخبار کی زبان بن جائے تو یہ ایک ہولناک بات ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی ’’طاقت‘‘ اور ’’عوامی پن‘‘ نے خبر کی زبان کو پورے اخبار کی زبان بنادیا ہے۔ اس زبان میں لفظ کا صرف ایک ہی مفہوم ہے، لفظ میں معنی کی ایک ہی سطح ہے۔ زبان کے نظام میں علامت، تشبیہ، استعارے، محاورے اور ضرب المثل کو زبان کی ’’مابعد الطبیعیات‘‘ کا درجہ حاصل ہے، اور ان چیزوں سے کٹ کر زبان صرف ’’طبیعیات‘‘ تک محدود ہوجاتی ہے۔

اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ زبان کو اس کے پورے نظام سے کاٹنے کا مطلب زبان کو ’’سیکولرائز‘‘ کرنا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صحافتی زبان دراصل زبان کی خودکشی ہے۔ مگر اس خودکشی پر اہلِ صحافت کو اکثر فخر کرتے دیکھا جاتا ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ میں ہمارے استاد متین الرحمٰن مرتضیٰ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہماری صحافت نے ادب سے جان چھڑا کر اپنا تشخص پیدا کرلیا ہے۔ لیکن یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی عورت اپنے اچھے شوہر سے طلاق لے کر طلاق پر فخر کرے اور کہے کہ طلاق لے کر میں نے ’’مطلقہ عورت‘‘ کا تشخص ایجاد کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ زبان کا زوال دیکھتے ہی دیکھتے شعور کا زوال بن جاتا ہے، اور شعور کے زوال نے ہماری صحافت کو موضوعات کی یکسانیت سے بھر دیا ہے۔ ہماری صحافت میں علم اور دلیل کی سطح پست ہوگئی ہے، ہماری صحافت میں صاحبِ طرز لوگوں کا کال پڑ گیا ہے، اور جن دو چار لوگوں کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ وہ صاحبِِ اسلوب ہیں ان کا اسلوب ان کی رسائی سے زیادہ ان کی نارسائی کا حاصل ہے۔ ایسے لوگ خیال، علم اور دلیل کی طاقت سے نہیں، اسلوب کی طاقت سے کالم لکھتے ہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی طاقت یہ ہے کہ ہماری صحافت نے اپنے عیب کو بھی ہنر بنادیا ہے، یہاں تک کہ صحافت کے عیوب پر گفتگو کے تمام دروازے بند نظر آرہے ہیں۔ زبان کے زوال کی یہ صورتِ حال اگرچہ عالمگیر ہے مگر نیم خواندہ اور ناخواندہ معاشرے اس کا زیادہ شکار ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی طاقت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کا مواد اور اس کی زبان و بیان ہی نہیں اس کی پیشکش بھی اہم ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر اخبار میں سب سے اہم خبر شہ سرخی ہے، لیکن شہ سرخی کو چار کالم کی خبر بناکر پیش کیا جائے تو اس کا اثر کچھ اور ہوگا۔ اسی خبر کو ایک کالم میں شائع کیا جائے تو اس کا اثر مزید کم ہوجائے گا، اور اگر اسی خبر کو اندر کے کسی صفحے پر شائع کیا جائے تو وہ سرخی میں شائع ہوکر پورے ملک کو چونکانے والی خبر ایک ’’مُردہ خبر‘‘ میں ڈھل جائے گی۔ اس عمل میں خبر کا مواد نہیں صرف اس کی ’’پیشکش‘‘ تبدیل ہوگی، اور پیشکش کی تبدیلی سے ’’ایٹم بم‘‘ ایک معمولی ’’پٹاخہ‘‘ بن کر رہ جائے گا۔

ذرائع ابلاغ کی طاقت نے تاریخ کے سفر میں ہیرو کے تصور اور اس کی معنویت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہیرو فاتح تھا، بادشاہ تھا، سپہ سالار تھا، عالم تھا، شاعر تھا، ادیب تھا، فلسفی تھا، دانش ور تھا، استاد تھا۔ لیکن عہدِ جدید میں ذرائع ابلاغ نے فلمی ہیرو کو ’’ہیرو‘‘ بنادیا ہے۔ اگرچہ فلمی ہیرو کے ساتھ ’’فلم‘‘ کا لفظ لگا ہوا ہے، لیکن جدید ذرائع ابلاغ کی قوت ایسی ہے کہ اس نے فلم کے لفظ کو پس منظر میں دھکیل کر صرف ’’ہیرو‘‘ کو نمایاں کردیا ہے، اور اس طرح سے ہزاروں سال پر محیط ہیرو کا تصور فنا ہوگیا ہے، اور ہیرو کے جس تصور کی عمر بہ مشکل سو سال ہے وہ پوری انسانی تہذیب پر چھا گیا ہے۔ ہیرو کی قوت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کے فلم سنسر بورڈ نے دلیپ کمار کی فلم ’’گنگا جمنا‘‘ کو نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس کی وجہ عریانی و فحاشی نہیں تھی، نہ ہی اس کی وجہ یہ تھی کہ فلم میں بہت زیادہ تشدد دکھایا گیا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ دلیپ کمار نے فلم میں ڈاکو کا کردار ادا کیا تھا۔ دلیپ کمار بھارت کی فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے ہیرو تھے اور سنسر بورڈ کو اندیشہ تھا کہ دلیپ کمار کو دیکھ کر نہ جانے کتنے نوجوان ڈاکو بننے کی تمنا کرنے لگیں گے۔ راجیش کھنہ نوجوانوں میں اتنے مقبول تھے کہ ان کے لباس اور ہیئر اسٹائل کی نقل کی جاتی تھی۔ لڑکیوں میں ان کی پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ لاکھوں لڑکیاں ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں اور انہیں اپنے خون سے خط لکھتی تھیں۔ ایک بار راجیش کھنہ بیمار ہوئے تو لڑکیوں نے ان کی تصویر کی ’’تیمارداری‘‘ کی، اور راجیش کھنہ کا بخار کم کرنے کے لیے اُن کی تصویر کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھیں۔ بھارت میں امیتھابھ بچن کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ اُن کے نام کا مندر قائم ہوگیا، اور مندر میں اُن کی مورتی رکھ کر اس کی پوجا کی جانے لگی۔ یہاں بھارت کی مثالیں اس لیے پیش کی جارہی ہیں کہ بھارت کی فلم انڈسٹری، فلم انڈسٹری کا زیادہ بڑا ماڈل ہے۔ ورنہ کسی زمانے میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے ہیروز بھی پاکستانی معاشرے میں بے حد مقبول تھے۔ وحید مراد ’’چاکلیٹی ہیرو‘‘ کہلاتے تھے۔ لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان کے عاشق تھے۔ ندیم اور محمد علی بھی فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ امریکہ اور یورپ میں اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کی مقبولیت اور بھی زیادہ ہے۔ اس لیے کہ امریکہ اور یورپ کے اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کی پشت پر زیادہ شہرت اور زیادہ سرمائے کی قوت موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فلمی ہیروز کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟

انسان اپنی فطرت میں مثالیہ پرست ہے، یعنی وہ Ideal کو پسند کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان Ideal بننا چاہتا ہے مگر بن نہیں سکتا۔ چنانچہ وہ Ideal کی پرستش کے ذریعے Ideal پرستی کے اپنے جذبے کی تسکین کا سامان کرتا ہے۔ وہ لاشعوری طور پر محسوس کرتا ہے کہ میں Ideal نہیں بن سکتا تو کیا ہوا، میں Ideal کو پسند تو کرسکتا ہوں، اسے سراہ تو سکتا ہوں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ حقیقی زندگی کا حقیقی ہیرو ’’صاحبِ علم‘‘ ہوتا ہے، صاحبِ کردار ہوتا ہے، صاحب ِعمل ہوتا ہے، اور فلمی ہیروز کے اندر ان میں سے کوئی خوبی نہیں ہوتی۔ لیکن فلم کے آرٹ کی طاقت یہ ہے کہ وہ حقیقی ہیرو کی نقل کرنے والے کو بھی صاحبِ علم، صاحبِ کردار اور صاحبِ عمل کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر مشہور و مقبول، یہاں تک کہ ’’محبوب‘‘ بنادیتا ہے۔ یعنی فلم کا آرٹ علم، کردار اور عمل کے خلا کو اپنی تیکنیکی مہارت سے پُر کردیتا ہے۔ اس کی ایک شہادت یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں فلمی ہیرو سیاست کا اہم کردار بن کر ابھرے ہیں۔ بھارت میں شتروگھن سنہا اور امیتابھ بچن، اور امریکہ میں رونالڈ ریگن اور آرنلڈ شوازنیگر اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ خود پاکستان میں عمران خان کرکٹ کے پس منظر سے اٹھ کر ملک کے وزیراعظم کے منصب تک پہنچے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکہ کی حقیقی طاقت اُس کی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی سیاسی، معاشی اور عسکری طاقت دنیا کے بیشتر حصوں میں کسی نہ کسی صورت میں امریکہ مخالف جذبات پیدا کرتی ہے، البتہ ’’ہالی ووڈ‘‘ کی قوت ایسی ہے جو امریکہ کے بدترین مخالفوں کو بھی سحر زدہ کردیتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ کی ساکھ کے مثبت پہلوئوں اور امریکہ کے کلچر کو عالمگیر بنانے میں ہالی ووڈ کا کردار امریکہ کی کسی بھی قوت سے بڑھ کر ہے۔ بھارت کے بارے میں یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ بھارت کی قومی یکجہتی کے دو ستون ہیں۔ ایک بھارت کی جمہوریت اور دوسرا ان کی فلم انڈسٹری۔ بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے، اور بھارت کے سو کروڑ لوگ روزانہ 163 روپے خرچ کرپاتے ہیں۔ یہ اتنی تلخ حقیقت ہے کہ اس کے بوجھ سے کوئی بھی معاشرہ پچک سکتا ہے۔ لیکن بھارت کی فلمی صنعت کا کمال یہ ہے کہ اس نے بھوک اور افلاس میںمبتلا 100 کروڑ لوگوں کو اپنی فلموں کے ذریعے ’’خواب دیکھنے والا‘‘ بنایا ہوا ہے۔ سیاسی، نفسیاتی، اخلاقی اور سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں، اس لیے کہ بھارتی فلمیں 100 کروڑ لوگوں کے لیے نشے کا کام انجام دے رہی ہیں، لیکن فلم کو نشہ بنانے سے بہرحال اس میڈیم کی طاقت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔

پاکستانی معاشرہ اپنی نہاد میں ایک مذہبی معاشرہ ہے، اس معاشرے میں لبرل ازم اور سیکولرازم کے لیے کوئی جگہ نہیں، نہ ہی اس معاشرے میں سیکولرازم اور لبرل ازم کی تقویت کا سامان موجود ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر لبرل اور سیکولر لوگوں کا غلبہ ہے، اور یہی غلبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر جگہ لبرل ازم اور سیکولرازم کے پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔ یہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ ہی ہیں جن کے ذریعے سے معاشرے میں مغرب زدگی عام ہورہی ہے، فیشن سرپرستی پھیل رہی ہے، جنسی انحرافات میں اضافہ ہورہا ہے، معاشرے کے ہیروز بدل رہے ہیں۔