اگر چھوٹی عمر یا پرائمری جماعتوں سے ہی بچوں میں نظم و ضبط، ارتکاز و توجہ اور جذبات و احساسات کنٹرول کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے تو وہ نہ صرف مستقبل میں زیادہ تعلیمی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی صحت اور شخصیت بھی بہتر بناتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی جامعہ زیورخ اور مینز نے بچوں کی تربیت پر زور دیا ہے کہ انہیں توجہ کی مشق کرائی جائے۔ اگرچہ بہت چھوٹے بچوں کو یہ کام نہیں سکھائے جاتے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے، تاہم اگر بچوں کو یہ سکھایا جائے تو اس سے ان کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ پھر عالمی کووڈ وبا اور بچوں کے اسکرین ٹائم کی وجہ سے ان کی توجہ دیگر امور سے ہٹ رہی ہے اور اس تناظٖر میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تحقیق کے مطابق چھوٹی عمر سے ہی خود پر قابو رکھنے والے افراد دیگر کے مقابلے میں بہتر صحت، زیادہ مالی و معاشرتی قوت اور اطمینانِ زندگی حاصل کرتے ہیں۔ پھر ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ہنر بچوں کو سکھایا جاسکتا ہے، اور اب انہیں اسکولوں میں سکھانے کی ضرورت بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو اسکولوں میں یہ اہم ہنر کیسے سکھایا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسی بنیادوں پر کئی طریقے سامنے آچکے ہیں جو بچوں میں نظم و ضبط، توجہ اور ارتکاز بڑھا سکتے ہیں۔ اس کی افادیت پر جامعہ زیورخ اور جرمنی کی گیوٹن برگ یونیورسٹی نے پہلی جماعت کے کُل 500 بچوں کو خودارادی اور ڈسپلن کی تربیت دی۔ اس کے بعد دیکھا گیا کہ ان بچوں میں پڑھنے، سمجھنے اور فوکس کرنے کی قوت بڑھی۔ یہاں تک کہ ایک سال تک اس کے اچھے اثرات برقرار رہے۔ پھر تین سال بعد وہی بچے اعلیٰ معیار کی ثانوی جماعتوں تک بھی اچھی کارکردگی دکھاتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹی جماعتوں میں بچوں کو توجہ کی تربیت دی جائے تو اس کے بہت دوررس فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس طرح لاکھوں کروڑوں افراد کو کامیاب بناکر ان کی زندگیاں بہتر بنائی جاسکتی ہیں۔ ماہرین نے اس کے لیے جو تربیتی پروگرام بنایا اس میں اساتذہ کو تین گھنٹے اور چھوٹے بچوں کو پانچ گھنٹے کی تربیت دی گئی تھی۔ اس تربیتی پروگرام کو ایم سی آئی ائی یعنی ’مینٹل کونٹراسٹنگ ود اپلیمینٹیشن انٹینشز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ طریقہ پہلے ہی بالغان کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ اساتذہ نے کھیل والے انداز میں تصویری کتاب دکھائی اور مشکلات عبور کرنے والے ایک رول ماڈل کو پیش کیا۔ پہلے مرحلے میں بچوں کو فکری طور پر بتایا گیا کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے کیسے مثبت اثرات ملتے ہیں۔ پھر انہیں مسائل اور رکاوٹوں سے آگاہ کیا گیا۔ پھر بچوں نے اس کے لیے راستے تلاشے اور اپنے مقصد تک پہنچے۔